لاہور (ویب ڈیسک) سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ولی عہد محمد بن سلمان کو بیونس آئرس میں ہونے والے جی 20 کے اجلاس میں شرکت کرنا پڑی تو انہیں پتہ چلا کہ پوری دنیا کے طاقتور لوگ ان کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، دنیا کی مختلف شخصیات نے
اس پر ناقابل یقین رد عمل دیا اور یہ اجلاس محمد بن سلمان کے لیے ایک امتحان بن گیا ، وجہ صرف ایک تھی کہ بڑے پیمانے پر جمال خاشقجی کے قتل کا الزام محمد بن سلمان اور انکے ساتھیوں پر عائد کیا گیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان الزامات کی وجہ سے ولی عہد کو بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے بھی یا نہیں۔ اس بات کے اشارے اس فیملی فوٹو سے ملے جو اس قسم کے عالمی اجلاس میں کھینچی جاتی ہے۔ آپس میں بات چیت، مصاحفے اور حرکات و سکنات ایسا بہت کچھ ظاہر کر دیتی ہیں جو پریس کو دیا گیا ایک سفارتی یا سیاسی بیان چھپا سکتا ہے۔ سعودی ولی عہد اس تصویر میں قطار کے آخر میں کھڑے نظر آئے۔ وہ جی 20 میں واحد عرب لیڈر ہیں اور سوٹ پہنے حکمرانوں کے سمندر میں اپنے روایتی لباس میں آرام سے نظروں میں آ رہے تھے۔ کئی موقعوں پر ان کے چہرے پر غیر یقینی اور پریشانی نظر آئی۔ بعض حکمرانوں نے ان سے مختصر بات چیت کی اور کئی نے تو خود آگے بڑھ کر مصاحفہ کیا۔ دنیا کی ان طاقتور شخصیات کو علم ہے کہ ان کے بعض ووٹر سعودی حکمران کو کتنا خطرناک سمجھتے ہیں۔ مگر ان میں سے ایک شخص کا رویہ محمد بن سلمان کے لیے مختلف تھا وہ ہیں روسی صدر پوتن۔ وہ پرتپاک انداز میں محمد بن سلمان کی طرف بڑھے اور بڑی سے مسکراہٹ کے ساتھ دونوں نے ہائی فائیو کیا۔ روسی حکمران ہمیشہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سعودی عرب سے قریبی تعلقات ان کی سٹریٹیجک ضرورت ہے۔
کئی ممالک کے حکام نے محمد بن سلمان سے مختصر اور رسمی بات چیت کی جن میں امریکہ، انڈیا، جنوبی کوریا، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور چین شامل ہیں۔ سعودی وزارت خارجہ نے ان ملاقاتوں کی تصاویر ٹویٹ کرنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگائی۔ مگر اس اجلاس میں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے سے انکی ملاقات خاص تھی ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹریزا مے نے واضح الفاظ میں اپنا پیغام ان تک پہنچا دیا ہے۔ ٹریزا مے کے ترجمان کے مطابق انھوں نے ولی عہد سے کہا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ترکی کی جانب سے خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سعودی عرب مکمل تعاون کرے۔ فرانس کے صدر میکرون نے بھی سعودی ولی عہد سے ملاقات کی اورخاشقجی کے قتل کیس میں بین الاقوامی تحقیقکاروں کو شامل تفتیش کرنے کا کہا۔ اس ملاقات کی فٹیج کو دیکھ کر ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے میکرون محمد بن سلمان سے کہہ رہے ہوں کہ انھیں پریشانی ہے کیوں کہ سعودی لیڈر ان کی بات نہیں سن رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ سعودی ولی عہد اس وقت دنیا میں تنہا کھڑے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک کے حکمرانوں کو خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب اور خاص طور پر ولی عہد کے رویے پر غم و غصہ ہے اور اس غصے کی وجہ یہ ہے کہ کہ ابھی تحقیقات اپنے انجام کو نہیں پہنچی ہیں تو فی الحال یہ غصہ جلد ہوا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ چنانچہ ایک بات واضح ہے کہ ولی عحد کی ساکھ کو دھچکہ لگا ہے اور اسے بحال ہونے میں وقت درکار ہوگا جس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ ترکی کی جانب سے قتل کی تحقیقات مکمل ہونے پر سعودی عرب سے کیا رد عمل آتا ہے