دانش شفیق

گُڈی

خواہش کی سترنگی مورتی کی پوجا میں مگن انسان چڑھاوے چڑھاتا ادھ موا ہو چلا، نجانے کون کون سے پاٹ پڑھ چکا، پر یہ دیوی ہے کہ اس کی تشنگی مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ عنابی رنگ کا بھاری اور قیمتی عروسی لہنگا زیب تن کیئے، چمچماتے ہوئے زیورات پہنے، روپہلی پائل کی کھنک کے ہر تال کو دل کی تمامتر گہرایوں میں اُتارتے ہوئے، برسوں سے من میں پلتی خواہشات کی آرتی اتارتی ہوئی، وہ آج دھیرے دھیرے گھر کی دہلیز کی جانب بڑھ رہی تھی۔ پہلا قدم چوکھٹ کے پار رکھا اور اُس نے مڑ کر کے آنگن کی جانب دیکھا۔ تیسرے درجے کے مختصر سے گھر کے نیم پختہ صحن میں اُ سے وہ معصوم سی شکل والی گڈی دکھائی دی جو عمر کے بارہویں زینے پر قدم رکھے کھڑی تھی اور استفسار بھری نظروں سے دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔

گڈی گول مٹول معصوم سے چہرے والی منکسر المزاج لڑکی تھی اور سب کے ساتھ بڑی سہولت سے گھل مل جایا کرتی تھی۔ کتاب کے سبھی پّنے ابھی تک تو بہت آسان تھے پر اس نئے باب کے آغاز نے اسے الجھاؤ میں ڈال رکھا تھا۔ اُن دنوں وہ عجیب طرح کی حیرت سے دوچار تھی۔ اسے اپنے آپ میں ہونے والی تبدیلیوں کا کچھ خاص ادراک نہ ہوتا بس وہ انہیں ایک شدت کے ساتھ محسوس کیا کرتی۔ اس کے خوابوں کے رنگ یکسر بدلنے لگے اور بے چینی اُس کو اپنے وجود میں سرائیت کرتی ہوئی محسوس ہوتی۔ اکثر وہ اسی ذہنی خلجان کے باعث رات کو اٹھ کر بیٹھ جاتی اور ایک سراسیمگی کی کیفیت اس پر طاری ہو جاتی۔ اچانک بیٹھے بیٹھے اسے اپنے پٹھوں میں شدید تناؤ محسوس ہوتا اور وہ اس سے اُٹھنے والے درد سے الجھنے لگتی۔ ہر صبح جیسے ہی اس کی ماں کمرے سے باہر جاتی، وہ آئینے کے سامنے آن بیٹھتی اور خود کو بڑے غور اور تعجب سے دیکھنے لگتی۔ وہ اپنے گداز بازؤوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرتی اور اُن کے بھاری پن کو محسوس کرنے لگتی۔ اِتنے میں اماں کی آواز آتی،” اری او گڈی! کیا دیکھے ہے ہاں شیشے میں؟ اُٹھ کر منہ ہاتھ دھو لے۔ سکول کے لیئے دیری ہو رہی ہے۔” اماں کی آواز سنتے ہی وہ ایک جھٹکے کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوتی اور باہر نکل جاتی۔ کمرے سے باہر جاتے جاتے بھی وہ مڑ کر ایک نظر آئینے پر ڈال لیتی اور اپنے جسم کی بڑھٹی ہوئی گولائیوں کو تحیر بھری نظروں سے تکتی رہتی۔

اماں پانچویں پاس تھی اور اُس کے علم کے دائرہ کار میں گھر کے چند کام سنوارنے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ گڈی کے باپ کو دکان پر بھیجنے سے پہلے ناشتہ بنا دینا، گندا مندا تیار کر کے گڈی کو سکول کیلیئے روانہ کرنا، گھر کی کچھ صاف صفائی اور بلا وجہ گڈی کو کوسنے دینا اُس کے جملہ اُمورِ خانہ داری تھے اور وہ برسوں سے اُنھیں ایک مشینی تسلسل کے ساتھ نبھاتی آئی تھی۔ گڈی کے مزاج میں اچانک پیدا ہونے والے چڑچڑے پن کو اماں نے کوئی خاطر خواہ اہمیت نہ دی۔ نہ ہی کبھی پاس بٹھا کر پیار سے باتیں کی۔ نتیجتاً، گڈی اماں سے ایک دوری محسوس کرنے لگی اور بات بات پر اُس سے الجھنے لگی۔ “اری او گڈی! وردی نہیں دھوئی تو نے آج؟ تیرا باپ دھوئے گا کیا آ کے؟” اماں چلاتی۔ “تو تُو دھو دے نا آج، ویسے بھی فارغ ہی بیٹھی ہے صبح سے۔” گڈی اسی تند و تیز لہجے میں جواب دیتی۔ “ماں سے زبان چلاتی ہے کمینی۔۔۔” اور پھر گڈی کی شامت آ جاتی۔

مزید پڑھیں  بابا بلھے شاہ کی نماز جنازہ کوئی کیوں پڑھنے کوتیارنہیں تھااورانہیں ہیجڑوں اوربھنگیوں نے ویرانے میں کیوں دفن کیا؟

وہ سکول کے بعد اپنا زیادہ تر وقت بچوں کے ساتھ کھیلنے میں صرف کرنے لگی۔ محلے کے تین چار بچے، جن میں کچھ ہم عمر لڑکے بھی تھے، گڈی کے گھر آ جاتے اور وہ سب صحن میں رنگ رنگ کے کھیل کھیلتے۔ کھیلتے کودتے جب کسی لڑکے کا ہاتھ اِضطراری طور پر گڈی کے بازو یا جسم کے کسی حصے سے چھو جاتا تو ایک سنسنی اُس کی کمر میں دوڑ جاتی اور اسے، لاشعوری طور پر، یہ چھوا جانا اچھا لگتا۔ پر اماں جیسے ہی اُسے کسی لڑکے کے ساتھ یوں کھیلتے دیکھتی تو گھسیٹ کر اندر لے جاتی اور ڈانٹنے لگتی۔

جب صرف سہیلیاں آپس میں بیٹھی ہوتیں تو معنی خیز انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ کر اشارے کرتیں۔ وہ کچھ چھپا کر لانے کی باتیں کرتی رہتیں۔ “اے! آج اماں کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے، جلدی سو جائے گی۔ تُو چھت سے مجھے دے دِیو۔” گڈی ایک سہیلی سے، جسکے گھر کی اور گڈی کے گھر کی دیوار سانجھی تھی، شرماتے ہوئے کہتی اور پھر سب سہیلیاں کھلکھلا کر ہنسنے لگتیں۔

اُس رات جب اماں بستر پر سرِ شام ہی دراز ہوگئی، گڈی چپکے سے چھت پر گئی اور دیوار میں بنے سوراخوں سے کچھ رنگین کاغذ وصول کیئے۔ اُس کے دل کی دھڑکنیں کاغذ ہاتھ میں آتے ہی رفتار پکڑنے لگیں۔ کاغذ قمیص کے نیچے چھپائے وہ چپکے سے غسل خانے میں داخل ہو گئی اور سبز رنگ کی مدھم بتی جلا کر کاغذوں پر موجود تصویروں کو دیکھنے لگی۔ اُسے شدید پسینہ آنے لگا اور اسکی سانسیں اس قدر تیز ہو گئیں کہ کوئی اگر غسل خانے کے دروانے کے ساتھ کھڑا ہوتا تو انہیں واضح طور پر سن سکتا۔ اُس رات جب وہ سوئی تو خواب میں ویسی ہی اوٹ پٹانگ تصویریں گھومتی رہیں اور وہ خود کو اُن تصویروں میں کہیں نہ کہیں موجود تصور کرتی رہی۔

گڈٰی کا باپ عقیل، دن بھر اپنی کریانے کی دکان پر رہتا، دن ڈھلتے ہی جوا کھیلنے چلا جاتا اور اکثر رات کو گھر نہ آتا۔ شومئی قسمت سے جب کبھی وہ رات گئے آ کر گھر کا دروازہ پیٹتا تو اماں گالیاں بکتی ہوئی جا کر دروازہ کھولتی اور وہ دونوں لڑتے جھگڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہو جاتے۔ گڈی کو دوسرے کمرے میں جانے کا کہہ کر وہ اپنے کمری کی چٹخنی چڑھا دیتے۔ کمرے سے آنے والی آوازیں جب گڈی کے کانوں میں پڑتیں تو عجیب و غریب مناظر کا روپ دھار لیتیں اور وہ خیالی اشکال اٗس کے کچے ذہن کے دالان میں لمبے عرصے تک محوِ رقص رہتیں۔ گڈی اِس گھٹن بھرے ماحول میں دن بھر کڑھتی رہتی۔ بھانت بھانت کی سوچیں سوچتی اور سب کچھ مستقبل کے نادیدہ کاسے میں ڈال کر سو رہتی۔

لمحہِ موجود قطرہ قطرہ کر کے ماضی کے بے نور برتن میں جمع ہوتا گیا اور چند سال یونہی جذبات و احساسات کی اِسی ہیجانی کیفیت میں گزر گئے۔ گڈی نے عمر کے بیسیوں پڑاؤ میں قدم رکھ دیا۔ نا آسودہ خواہشات اپنی پوری شدت کے ساتھ اس کے دل و دماغ میں متمکن تھیں۔ انہی دنوں گڈی کے اماں ابا کو کچھ خیال آیا اور اُس کی شادی کی بات چل نکلی۔ ناصر ذرا کھاتے پیتے گھر کا لڑکا تھا اِسی لیئے بے جا سوچ بچار کیئے بغیر بات پکی کر دی گئی۔ ایک لطیف لہر گڈی کے جسم میں دوڑی اور اُس نے بلا چوں چراں ہاں کر دی۔ آج عنابی لہنگے میں ملبوس گڈی اور اُس کے معصوم چہرے پر ابھری رونق کا سنگم دیدنی تھا۔ من ہی من میں پھوٹتی پھلجھڑیوں کی چمک اس کے ہونٹوں پر شرمیلی مسکان بن کر پھیلنے لگی اور آس کے پودے کی آبیاری از سرِ نو شروع ہو گئی۔ خوش رنگ محسوسات کی برکھا برسی جس میں وہ سر سے لے کر پاؤں تک بھیگ گئی۔ اُس کی چال میں خوشنماء اُٹھان پیدا ہو گئی۔ مزاج کا چنچل پن عود کر آیا اور اُسے مکمل طور پر اپنے “وَش” میں کر لیا۔ حناء کا رنگ بلوری ہاتھوں میں یوں رچا کہ رشکِ ورد ٹھہرا۔ اُس نے آنگن کی جانب پیٹھ کی اور حسبِ استطاعت سجائی گئی انمول ارمانوں کی ڈولی میں بیٹھ کر پِیا گھر سدھار گئی۔

مزید پڑھیں  خط نستعلیق کے خالق میر علی تبریزی

عروسی کمرہ گڈی کی حسین توقعات سے کہیں زیادہ بڑھ کر سجا ہوا تھا۔ تازہ گلاب کی خوشبو فضاء میں رچی ہوئی تھی اور گیندے کے پھول ایک مخصوص انداز میں دیواروں پر آویزاں کیئے گئے تھے۔ بستر پر سفید مخملیں چادر بچھی تھی جس پر جا بجاء لہو رنگی پتیاں بکھیر دی گئیں تھیں۔ ایک دیوار پر روح پرور مناظر کی دلکش فریم شدہ تصاویر لٹک رہی تھی۔ بیڈ کی دونوں جانب پڑی “سائیڈ ٹیبل” پر زرد لیمپ روشن تھے۔ لکڑی کے فرنیچر کو بھانت بھانت کی آرائشی چیزوں سے مزین کیا گیا تھا۔ گڈی بھاری لہنگا پہنے، لمبا گھونگھٹ اوڑھے بستر کے عین وسط میں بیٹھی انتظار جیسے کارِ اذیت میں مبتلا تھی۔ مہمانوں کی گہما گہمی کا دبا دبا شور سفاک گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ مل کے اُس کے پردہِ سماعت پر ارتعاش پیدا کر رہا تھا۔ ملن کا وقت جیسے جیسے قریب آتا گیا، اٗس کے گالوں پر اُبھری لالی اور بھی گہری ہوتی گئی۔ گیارہ بجنے کو تھے کہ ناصر کمرے میں داخل ہوا۔ ایک التفات سے لبریز نظر اس نے گڈی پر ڈالی اور چٹخنی چڑھا دی۔

وہ بستر پر گڈی کے پاس بیٹھ رہا۔ معمولی تامل اور ہچکچاہٹ کے بعد گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔ دونوں نظریں جھکائے ہمکلام تھے۔ خواہشات سپردِ کلام ہونے لگیں۔ نادر موتیوں سے جڑی عہدِ وفا کی مالا ایک دوسرے کے گلے میں ڈالی گئی۔

“ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔۔۔”

“آنے والے سبھی غم اور سبھی خوشیاں ہماری سانجھی ملکیت ہوں گی۔”

عہد و پیمان ہوتے گئے اور جھجھک کے پردے ایک ایک کر کے اٹھنے لگے۔ ناصر نے ایک بناوٹی مسکراہٹ اچھالی اور گڈی کے ماتھے کا بوسہ لیا۔ لذتِ لمس سے گڈی کا روم روم سرور میں آ گیا۔ وہ جذبات کے بے پایاں سیلاب میں بہہ نکلی اور اس نے آنکھیں بھینچ لیں۔ اس کے ذہن میں ایک طوفان برپا ہو گیا۔ ایک زوردار آندھی چلی جو سب کچھ اڑا کر کے اپنے ساتھ لیجانے لگی اور سب اُتھل پُتھل ہونے لگا۔ شدتِ جذبات کی تاب نہ لاتے ہوئے اُس نے آنکھیں کھول دیں اور ناصر کو کمرے میں غیر موجود پایا۔

پل بھر کیلیئے اُسے لگا کہ یہ محض نیرنگِ خیال تھا پر سفید چادر کی سلوٹیں چند ثانیے پہلے ناصر کی موجودگی کا پتا دیتی تھیں۔ وہ حقیقتاً کمرے سے جا چکا تھا۔ گڈی تمام رات بستر پر جوں کی توں بیٹھی اپنی سوچوں سے لڑائی لڑتی رہی۔ شبہات اور مفروضات کا ایک گرداب تھا جس میں وہ شب بھر گھومتی رہی۔ انگنت سوالیہ نشان اس کی سیاہ آنکھوں کے سامنے چکر لگاتے رہے اور اسکو منہ چڑاتے رہے۔ آنسوؤں کا ایک گولہ تھا جو اس کے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔ اُس کی سمجھ سے بالا تر تھا کہ اس کا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے۔ وہ رو دے یا گلا پھاڑ کر چیخنے لگے یا دوڑ کر کے باہر نکل جائے۔ سوچوں کی انہی گھمن گھیریوں میں نیند نے اُسے اپنے آغوش میں بھر لیا اور وہ بے کلی کا لحاف اوڑھ کر، سجی سجائی وہیں سو رہی۔

مزید پڑھیں  محمد علی فریدی کا ایک منفرد انداز --نمی دا نم چہ منزل بود... عجب ہے حسن کی منزل عجب ہے عشق کا عالم

اِس کے بعد یہ روز کا معمول بن گیا۔ دن بھر جب تک وہ دونوں گھر والوں کی نظر میں رہتے چہک چہک کر باتیں کرتے پر جب خلوت میں آ بیٹھتے تو ناصر گڈی کے قریب تک نہ آتا۔ یہ سب الٹ پھیر گڈی کی سمجھ سے باہر تھا۔ وہ اندر ہی اندر گھلنے لگی۔ کروٹیں لیتے جذبات کی پامالی اس کی برداشت سے باہر ہوئے جا رہی تھی۔ بظاہر وہ بڑی پُر سکون تھی پر اس کا دل ماہیِ بے آب کے مانند تڑپنے لگا۔ خواہشات کی آسودگی یا نا آسودگی الگ بات، کربناک وہ درد ہے جو کسی خواہش کے رخصت ہونے سے عین پہلے دل میں اٹھتا ہے۔ وہ اُس درد کو اپنی جانب آتے دیکھتی اور خوف سے لرز اٹھتی۔

گھڑی کی گھومتی سوئیاں کسی بھی گھاؤ کے مندمل ہونے کا انتظارنہیں کرتیں۔ سوئیاں گھومتی گئیں اور گڈی کی شادی کو ایک برس بیت گیا۔ اب ایک چاہت اُس کے دل و دماغ پر پوری شدت کے ساتھ حاوی ہونے لگی۔ ماں بننے کی لازوال چاہت۔۔۔”ہمارے تین بچے ہوں گے۔ دو لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ لڑکے کا نام ناں۔۔۔” اُسے کچھ یاد آتا اور وہ تڑپ کر رہ جاتی۔ پھر ایک دن غلام گردش میں ٹہلتے ٹہلتے کسی کمرے سے اٹھتیں چند آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹکرائیں۔ کوئی بڑے رازدارانہ انداز میں کہہ رہی تھی،”موُا ایک سال ہو چلا بیاہ کو ان کے۔کوئی اُمید ہے کیا بچے وچے کی۔۔۔؟” “کھی،کھی،کھی، اے ہے بھئی بچے کاہے کو ہونے لگے۔ کھی۔کھی۔کھی۔ ان کے لونڈے میں کچھ ہو تب ناں۔۔۔۔” کسی نے جواب دیا اور سب عورتیں کھسیانی ہو کر ہنسنے لگیں۔ دھڑام سے غلام گرش میں کچھ گرا اور چکنا چور ہو گیا۔ شاید وہ گلدان ہی تھا۔

خواہش کی مسخ شدہ لاش اپنے کندھے پر لادے وہ بابُل کے کچے آنگن میں آن بیٹھی۔ گو گڈی کو ماں سے کسی تسلی کی بھی امید نہیں تھی، پھر بھی باتوں باتوں میں اس نے اماں سے کہا،” اماں مجھے اب وہاں نہیں رہنا۔ میرا وہاں دم گھٹنے لگا ہے۔ مجھے واپس آنا ہے۔”

“اے پاگل ہے کیا تو؟ اتنا پیسے والا گھر ہے اور تو کس محل کی شہزادی ہے کہ تیرے لیئے رشتوں کی لائینیں لگی رہیں گی۔ اپنی منحوس شکل اٹھا اور چپ چاپ چلی جا واپس۔ ضرور تجھی میں کوئی گڑ بڑ ہو گی۔ اور محلے والے کیا کہیں گے ہیں۔۔۔” یہ کہہ کر اماں نے اپیل دفتر سے خارج کر دی۔ گڈی نے اپنا آپ کسی طرح سمیٹا اور واپس ناصر کے گھر آ گئی۔

چند مہینے گزرے اور گڈی کے گھر اُمید جاگ اٹھی۔ معصوم قلقاریاں کچھ روز بعد گھر میں گونجنے لگیں۔ اب جب کبھی بھی ناصر بیٹے کا نام بتاتے ہوئے کہنے لگتا،” ماشااللہ ہمارے بیٹے کا نام۔۔۔” نجانے کیوں گڈی برہم ہو کر ہر بار اس کی بات کاٹ دیتی اور یوں کہتی،” میرے بیٹے کا نام احمد ہے۔۔۔۔

Similar Posts

Leave a Reply