ارشد ندیم کا پھینکا ہوا نیزہ ہوا میں چند ثانیوں تک معلق رہا، لیکن اس کے اس کارنامے نے دنیا بھر میں ایک تہلکہ مچا دیا جس کی گونج آج تک سنائی دے رہی ہے اور سنائی دیتی ہی رہے گی۔ ارشد کے اس بے مثال کارنامہ کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اس کی نہ کسی نے باقاعدہ تربیت کی اور نہ پشت پناہی۔ اسے اگر جنگل میں کھلے ہوئے گلاب سے تشبیہ دی جائے تو بھی حق ادا نہیں ہوگا۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک عام سے گھرانے میں پرورش پانے والا ایک جوان نہ صرف اپنے خاندان کا بلکہ وطن عزیز پاکستان کا نام کُل عالم میں روشن کردے گا۔ اُس نے پاکستان کو ایک صدی کی فتح دلا کر ملک کے 240 ملین عوام کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے لیکن اس عظیم الشان کارنامہ کی کہانی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے ملک کی نئی نسل اور آنے والی نسلوں کے لیے یہ پیغام چھوڑ دیا ہے کہ ایسا کچھ کر کے دکھاؤ کہ دنیا حیران رہ جائے۔
لوگ یاد کریں کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک معمولی لڑکے نے کھیل کے ساتھ لگاؤ کی ایک ناقابلِ فراموش داستان رقم کی ہے۔ ارشد ندیم بلاشبہ پاکستان کا ایک لاثانی ہیرو ہے جس کی کامیابی سے عیاں ہے کہ ہمتِ مرداں مددِ خدا۔ بیشک تائید ایزدی سے بڑے سے بڑا معرکہ سر ہوسکتا ہے۔ ارشد ندیم کی کہانی سے اِس حقیقت کی بھی تائید ہوتی ہے کہ عزت اور ذلت اللہ تعالٰی ہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ دیسی گھی کھا کر پروان چڑھنے والے نوجوان نے اپنے زورِ بازو سے اپنے مدِ مقابل کو پچھاڑ دیا۔
ایسے ماحول میں جب کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی کے نتیجے میں مایوسی طاری تھی۔ ارشد ندیم نے امید کی شمع روشن کر دی ہے۔ امید واثق ہے کہ اِن شاء اللہ پاکستان میں ارشد ندیم پیدا ہوتے رہیں گے۔
یہ بات افسوس ناک ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کی اہمیت کو نظر انداز کردیا گیا ہے، ورنہ یہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ارشد ندیم کے کارنامے نے پاکستان کے اربابِ اختیار کو سوتے سے جگا دیا ہے، جسے بھی دیکھیے وہ ارشد ندیم کی کامیابی کا راگ الاپنے میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہے۔ وزرائے اعلیٰ سے لے کر وزیرِاعظم تک اپنا اپنا حصہ ڈالنے میں شامل ہیں اور ارشد ندیم پر نوٹوں کی بارش ہو رہی ہے۔
اِس وقت ہمیں ایئر مارشل نور خان (مرحوم) یاد آرہے ہیں جنھوں نے اسپورٹس کی ترقی اور فروغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا تھا اور جن کی بے لوث خدمات کی بدولت بڑے بڑے کھلاڑی پیدا ہوئے جنھوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کردیا۔ نور خان صاحب کی کاوشوں سے متاثر ہوکر دیگر قومی اداروں اور بینکوں نے بھی کھیلوں کے فروغ کی خاطر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی شروع کردی۔
ارشد ندیم کا ذکر آیا ہے تو خواتین بھی مردوں سے پیچھے نہیں۔ ماریہ تورپیکئی وزیر، نورینہ شمس،کلثوم ہزارہ اور نرگس ہزارہ نے اپنی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے حالانکہ کسی نے بھی نہ تو ان کی کوئی تربیت کی ہے اور نہ مدد۔کوہ پیمائی کوئی ہنسی کھیل نہیں، جان جوکھوں کا کام ہے لیکن اِس میدان میں بھی پاکستانی خواتین نے اپنا اور اپنے ملک کا نام سر بلند کیا ہے۔ ثمینہ بیگ اور نائلہ کیانی کے نام سے بھلا کون واقف نہیں ہے۔ کرکٹ کے میدان میں بھی کئی خواتین اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں۔
باخبر ذرایع کے مطابق وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے 1 بلین روپے کے ایک فنڈ کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد کھیلوں کے میدانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکومتوں نے بھی کھیلوں کے فروغ کے لیے ایتھلیٹک اکیڈمیوں کے قیام کے اعلانات کیے ہیں۔
دیکھنا صرف یہ ہے کہ کب اورکتنا عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ماضی کی رَوِش پر چلتے ہوئے ان اعلانات کا حشر یہ نہ ہوکہ رات گئی، بات گئی۔ضرورت اِس بات کی ہے کہ اسکول کی سطح پر اسپورٹس کو اہمیت دی جائے، تاکہ اسپورٹس ٹیلنٹ کی افزائش ہو۔ وقت کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ مختلف اسپورٹس فیڈریشنز اور ایسوسی ایشنز فعال کردار ادا کریں۔ اسپورٹس کوچنگ کی جانب خصوصی توجہ درکار ہے۔