تم کو پتا ہے وقار یونس نے چیئرمین پی سی بی کے ایڈوائزر کی پوسٹ کیوں چھوڑی؟
جب کرکٹ کی ایک اہم شخصیت نے مجھ سے یہ پوچھا تو میں نے خود کو انتہائی باخبر تصور کرتے ہوئے فخر سے جواب دیا ’’جی بالکل کیونکہ بورڈ حکام ان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہے تھے،اس لیے انھوں نے مناسب یہی سمجھا کہ عہدے سے الگ ہو جائیں‘‘ میری یہ بات سنتے ہی انھوں نے زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ نہیں مائی ڈیئر پیسہ اس کی وجہ بنی، بطور مشیر صبح سے شام دفتر بیٹھ کر کتنا معاوضہ مل جاتا، 20 یا 25 لاکھ، یہاں چیمپئنز کپ کی ٹیم کا مینٹور بن کر 50 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ اور کام بھی کچھ نہیں کرنا‘‘
یہ بات سن کر میں سوچنے لگا کہ ہم لوگ محسن نقوی پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ کرکٹ بورڈ میں کرکٹرز کو نہیں لا رہے لیکن کیا کوئی ایسا سابق کھلاڑی ہے جو چیک کے صفر دیکھے بغیر کام کرنے پر تیار ہو اور پھر ثابت قدمی سے ڈٹے بھی رہے، بدقسمتی سے ہمارے سابق کرکٹرز صرف اس وقت تک بورڈ پر تنقید کرتے ہیں جب تک انھیں نوکری نہ مل جائے،البتہ شاہد آفریدی، یونس خان اور راشد لطیف جیسے کچھ اسٹارز ایسے نہیں ہیں، یہ سچ بولتے ہیں اور نتائج سے بھی نہیں ڈرتے، اگر پیسہ کمانا مقصد ہوتا تو آفریدی ایک ٹیم کے مینٹور بن چکے ہوتے لیکن چونکہ انھوں نے کچھ تلخ باتیں کہہ دیں اس لیے تقرر نہیں کیا گیا۔
اس میں پی سی بی کا بھی قصور ہے، موجودہ دور میں تو اتنا زیادہ یہ نہیں ہوتا لیکن اس سے قبل کسی سابق کرکٹر کو ملازمت چاہیے ہوتی تھی تو وہ بورڈ پر خوب تنقید کرتا اور پھر جب ماہانہ تنخواہ کا بندوبست ہو جاتا تو خاموشی اختیار کر لی جاتی، آپ کو ایسی کئی مثالیں ملیں گی، اب یوٹیوب بھی آ گیا جہاں دل کی بھڑاس نکالنے کے ڈالرز بھی ملتے ہیں،احمد شہزاد کو جب تک کم بیک کی امید تھی وہ چپ رہے، جیسے ہی یقین ہوگیا کہ اب کچھ نہیں ہونے والا تو پاکستان میں سب سے زیادہ تنقید کرنے والے ’’کرکٹ ماہر‘‘ بن گئے، باسط علی جب تک کوچ تھے سب اچھا رہا، اب ان سے زیادہ سخت باتیں کرنے والا شاید ہی کوئی اور ہو،سلمان بٹ نے ملک کا نام ڈبویا، فکسنگ پر جیل کی ہوا کھا آئے، پھر برسوں غلطی کا اعتراف نہ کیا، یو ٹیوب اور چینلز پر آنے لگے۔
چاہنے والے مشکوک ماضی کو بھول کر انھیں ’’سب سے بڑا کرکٹنگ دماغ ‘‘ قرار دینے لگے، پی سی بی نے بھی چیمپئنز کپ میں کمنٹری کا موقع دے دیا، اس سے نوجوان کرکٹرز کو کیا مثال ملی ہوگی کہ کرپشن کرو، پیسہ بناؤ، پہلے معافی نہ مانگو ، پھر قصور مان لو اور واپس آ جاؤ، سلمان کو کسی لو پروفائل کام تک محدود رکھنا مناسب ہوتا، مگر اس صورت میں وہ میڈیا پر بورڈ پر تنقید کرتے، اب محاذ بند ہو چکا، کئی قومی کرکٹرز بھی ان کی واپسی سے خوش نہیں لیکن بورڈ کسی کی سنتا کہاں ہے،آج تو چیمپئنز کپ ختم ہونے کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں لیکن آپ سچ سچ بتائیں اس ٹورنامنٹ پر اتنا وقت اور رقم خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہوا، صرف مینٹورز ہی اصل فائدے میں رہے، صبح محمد یوسف کے سلیکٹر کی پوسٹ سے مستعفی ہونے کی ٹویٹ بریکنگ نیوز بنی، وہ بطور کوچ پی سی بی کے ساتھ وابستہ ہیں۔
سنا ہے غیرملکی کوچز ان کو لفٹ نہیں کروا رہے تھے اس لیے غصے میں آ کر یہ فیصلہ کیا،البتہ یوسف بھائی کا ’’آدھا‘‘ غصہ سمجھ نہیں آیا، اگر آپ کسی سے ناراض ہوں تو ناطہ مکمل طور پر توڑ دیتے ہیں، یہ نہیں کہ جہاں فائدہ ہو وہ کام جاری رکھتے ہیں، یوسف نے غصہ بھی سوچ سمجھ کر کیا، صرف سلیکٹر کی پوسٹ چھوڑی، بطور کوچ تنخواہ تو ملتی ہی رہے گی، کیا پتا انھیں بھی کل کسی ٹیم کا مینٹور بنا دیا جائے، پی سی بی نے ان کی ٹویٹ کے ایک گھنٹے بعد مستعفی ہونے کی پریس ریلیز میں کوچنگ جاری رکھنے کا بھی اعلان کیا، اچھا کیا ورنہ ٹی وی چینل پر ان کی واپسی ہو جاتی اور اچانک قومی کرکٹ کی خامیاں انھیں دوبارہ نظر آنے لگتیں۔
مجھے ایک کرکٹر نے بتایا کہ کامران غلام نے جب چیمپئنز کپ میں 2 سنچریاں بنائیں تو مذاق میں ساتھی کھلاڑیوں نے کہا کہ ’’ تو 5 سنچریاں بھی بنا لے ٹیم میں نام نہیں آنے والا‘‘ بعد میں ایسا ہی ہو گیا، ایسی سلیکشن پر تو دیگر سلیکٹرز کو بھی مستعفی ہو جانا چاہیے۔
بدقسمتی سے اس وقت قومی اسکواڈ میں نان پرفارمرز کا راج ہے، ڈر کے مارے نئے ٹیلنٹ کو موقع ہی نہیں دیا جاتا، پھر بھی مسلسل ہارے ہی جا رہے ہیں، اخراجات حد سے زیادہ بڑھ گئے، آمدنی کے ذرائع وہی محدود ہیں، چیمپئنز کپ کو اتنی اہمیت دی مگر بیچارے پی ایس ایل والے رل رہے ہیں، انھیں لفٹ ہی نہیں کرائی جا رہی، حد تو یہ ہے کہ جمعے کو میٹنگ کیلیے مدعو کر لیا اور پھر بعد میں اچانک یاد آیا کہ چیئرمین نے ایک اور اجلاس طلب کر لیا ہے آپ لوگ بعد میں آئے گا، یہ کیسا رویہ ہے؟
راشد لطیف اورنعمان نیاز نے اپنے شو میں انکشاف کیا کہ فخرزمان بھی بورڈ سے سخت ناراض ہیں اور کنیکشن کیمپ میں انھوں نے بعض آفیشلز کے غیرپیشہ ورانہ رویے پر تنقید بھی کی، ویسٹ انڈیز سے لمبا سفر کرکے فخر نے جب فٹنس ٹیسٹ دیا تو سنا ہے وہ فیل ہو گئے، اس پر ایک آفیشل نے ان کی چیمپئنز لیگ ٹیم سے کہا کہ میچ نہ کھلائیں، شکر ہے ایسا نہیں ہوا اور فخر نے ایونٹ میں حصہ لیا، ویسے جتنی سچی باتیں وہ کر گئے ان کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑ سکتا ہے، آگے بھی انھیں این او سی کیلیے انہی لوگوں کے پاس تو جانا ہوگا۔
دیکھتے ہیں ان کے ساتھ کیسا رویہ اپنایا جاتا ہے، ویسے یہ لیگز کے این او سی کا مسئلہ بھی کسی دن بڑا تنازع بن جائے گا،اس کی وجہ سے پلیئرز سینٹرل کنٹریکٹ ہی لینے سے انکار کر دیا کریں گے،خیر ابھی تو ان کی ایسی پوزیشن نہیں کہ باتیں منوا سکیں، انگلینڈ کیخلاف سیریز پاکستان ٹیم کی سمت کا بتائے گی، موجودہ حالات تو اچھے نہیں لگ رہے لیکن کیا پتا کوئی انہونی ہو جائے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)