اسرائیل کی لبنان پر بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں مرد ،خواتین اور بچوں کی شہادت اور زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے خبردار کیا ہے کہ غلط سمت میں کوئی بھی قدم پورے خطے کے لیے تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔
اسرائیل نے اپنی بمباری اور حملوں میں حزب اللہ کے خلاف شدت بڑھاتے ہوئے لبنان کے عوام کی مشکلات اور مصائب میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ لبنان میں امریکی مخالفت کے باوجود اس خوف سے کہ علاقائی جنگ چھڑ سکتی ہے، نیتن یاہو نے لبنان پر بمباری کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو آگے بڑھانے اور منظور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ درحقیقت اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو حزب اللہ کی آڑ میں ایسے حالات پیدا کرنے کی حکمت عملی پرکار بند ہیں کہ لبنان بے بس ہوکر اسرائیل کے ساتھ نئے سرحدی معاہدے پر مجبور ہوجائے، تاکہ سرحد پر اسرائیل اپنی مرضی کا بندوبست ممکن بنا لے۔ لبنان کے لیے پیر اور منگل کا دن بد ترین اور تباہ کن تھا، ایسا دن جو لبنان اور اہل لبنان نے دہائیوں میں نہ دیکھا ہوگا۔
اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحدی کشیدگی تو پچھلے برس آٹھ اکتوبر سے ہی شروع ہوگئی تھی۔ اسرائیل اگر چاہتا ہے کہ اس کے وہ شہری واپس اپنے گھروں کو چلے جائیں جنھیں حزب اللہ کی راکٹ بازی کی وجہ سے شمالی اسرائیل سے نقل مکانی کرنا پڑی ہے تو اسرائیل کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا ڈول ڈالے رہے اور دوسرا لبنان کے جنوب کی طرف زمینی مداخلت کرتا رہے۔ دراصل نیتن یاہو یا تو بات چیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا مذاکرات سے پہلے زمینی حقیقت کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ایسے ماحول میں چل رہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ بین الاقوامی عدالت انصاف میں مطلوب کے درجے پر رکھا گیا۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی اسرائیل کے پاس شطرنج کی بساط کو بنیادی طور پر دوبارہ ترتیب دینے کا موقع ملا ہے۔ دوسری جانب جیسا کہ ابھی پچھلے ہی ہفتے، امریکی حکام نے نیتن یاہو سے ملاقات کے لیے اسرائیل کا سفر کیا اور انھیں ایک حد سے بڑھتے ہوئے فیصلے کرنے سے روکا ہے، مگر انھی دنوں میں کچھ دن بعد اسرائیل نے ہزاروں لبنانیوں کے پیجرز اور واکی ٹاکیزکو دھماکے سے اڑا کر حزب اللہ کے مواصلاتی نیٹ ورک پر حملہ کیا ہے۔ امریکا ابھی تک یہ پوزیشن لیے ہوئے ہے کہ اس کا ان پیجر اور واکی ٹاکی حملوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پینٹاگان نے کہا ہے کہ اسرائیل کسی وسیع پیمانے پر جنگ کی تیاری نہیں کر رہا ہے۔
نیتن یاہو کی حکمت عملی کا اندازہ کرنے کے لیے دو چیزوں کے امکان کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ پر اتنا اندرونی دباؤ بڑھا دیا جائے کہ وہ بے بس ہو جائے۔ نیز یہ کہ اسے نئے سرے سے سرحدی بندوبست کے معاہدے کے لیے رکاوٹ نہ رہے۔ اس سلسلے میں آخری معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کے تحت جولائی 2006 کی جنگ کے بعد ہوا تھا۔ تاہم کسی بھی طرف سے اسے مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا اور حزب اللہ لبنانی شہریوں کو ہر طرح سے قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے کی اجازت پر یکے بعد دیگرے حکومتی پالیسی بیانات کے تحت اپنے ہتھیاروں پر کنٹرول رکھنے میں کامیاب رہی۔ اسرائیل اقوام متحدہ کی طرف سے مقرر کردہ زمینی حدود سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا ہے۔ نیتن یاہو کا اصل مقصد جنوب میں دریائے لطانی تک ’’نو مین لینڈ‘‘ بنانا ہے۔
اس طرح اسرائیل کی حزب اللہ پر بمباری کی راہ میں سویلین آبادی کا شور رکاوٹ نہیں بن سکے گا اور اسرائیل کو پیش رفت کا موقع ملے گا۔ یہ کہنے میں آسان ہے مگر ممکن بنانے میں مشکل ہے۔ امریکی انتخابات سے پہلے اسرائیل کے ہاتھوں لبنانی عوام کافی حد تک نقصان برداشت کرچکے ہوں گے۔ اس میں انفرا اسٹرکچر کا نقصان بھی شامل ہو گا۔ اسرائیل کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔
اس خطے کی سیاست جس تیزی سے بدلتی ہے اس کے بارے میں پیشگی کچھ کہنا ممکن نہیں ہے۔ پچھلے برس کئی ممالک میں افہام و تفہیم کا دور شروع ہوا اور ایسا لگا کہ اب یہ خطہ امن و امان کا گہوارہ بن کر منظر عام پر آئے گا، مگر اب حالات میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے اور کئی تبدیلیاں نا خوشگوار ہیں۔اگرچہ لبنان کی خود کی اپنی مضبوط فوج ہے، مگر اقتصادی بحران کی وجہ سے لبنان اپنی فوج کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں اس کو کئی ممالک کی مالی امداد اور تعاون پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ ان ممالک میں امریکا، قطر، فرانس، سعودی عرب، ایران بطور خاص شامل ہیں۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ ممالک لبنان کے کئی پلیئرس کی حمایت کرتے ہیں اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے کبھی درپردہ اور کبھی کھلے عام دباؤ ڈالتے ہیں۔ لبنان ایک طویل عرصے تک خانہ جنگی کا شکار رہا ہے اور طائف سمجھوتہ کے بعد سیاسی استحکام کا جو فارمولہ ہوا تھا اس کے تحت کچھ عہدیداروں اور وزارت کو خاص مکاتب فکر، مذاہب اور نسلوں کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔ لبنان میں شیعہ، سنی، عیسائی اور دیگر کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد حساس اور بااثر عہدوں پر فائز ہوتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ کئی مسلح گروہ ہیں جو روز مرہ کی زندگی متاثر کرتے ہیں، اقتصادی نوعیت کے اہم فیصلے کرتے ہیں اور حتیٰ کہ غیر ملکی تعلقات بھی متاثر کرتے ہیں۔
حزب اللہ جو ایک سیاسی طاقت بھی ہے اور اسرائیل مسلسل اپنی روایتی تصادم کی وجہ سے باہم متصادم رہتے ہیں۔ 1975سے 1990کے درمیان تک لبنان میں جو خانہ جنگی رہی، اس کے اثرات ابھی تک لبنان میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ عسکری معاملہ میں حزب اللہ کو بالا دستی حاصل ہے۔ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 33دن کی جنگ ہوئی تھی، جس میں اسرائیل کو لبنان کی وادی بقا سے اپنے فوجیوں کو واپس بلا نا پڑا تھا۔ اسرائیل جو کہ پڑوس کے تمام ملکوں پر اپنی عسکری بالا دستی بڑی طاقتوں کی سرپرستی کی وجہ سے حاوی رہتا ہے، اس کو قدر شدید شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ اس کے اثرات اسرائیلی فوج پر ابھی بھی نظر آتے ہیں۔
اسرائیل 17سال پہلے واپس وادی بقا سے پیچھے ہٹنا پڑا تھا، اس انخلا کی سالگرہ کے موقعے پر حزب اللہ ہر سال بڑی پریڈ کرتا ہے، اگرچہ یہ پریڈ غیر مسلح ہوتی ہے، مگر اس کے نفسیاتی اثرات ہوتے ہیں جو لبنان کی سیاسی اور سماجی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں۔ اب حالات یہ ہے کہ دونوں فریق یا حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان حالات انتہائی کشیدہ ہے اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے خطے کی موجودہ بظاہر پرامن صورت حال متاثر ہوسکتی ہے۔ اسرائیل کئی مسلم ملکوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے ایک غاصب طاقت بن گیا ہے جو نہ صرف فلسطینیوں پر مظالم کررہی ہے بلکہ پڑوس کے تمام ملکوں کی سرزمین قبضہ کرنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو عمل میں لانے کی کوشش کررہی ہے۔
امریکا اور اسرائیل متحدہ حکمت عملی اپنا کر ایران کو کنارے کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر لبنان کی طرف سے آنے والی مزاحمت اسرائیل کو بھاری پڑسکتی ہے۔ اسرائیل کو مسلح کرنے میں اپنے کردار کی وجہ سے، امریکا پر بارہا اسرائیلی جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ جس چیز نے امریکی پوزیشن کو مزید مشکل بنا دیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دوسری جگہوں پر قبضوں کے بارے میں بالکل برعکس موقف اختیار کیا ہے۔ 2022 میں، جب روس نے یوکرین پر مکمل حملہ کیا اور اس کے علاقے کے کچھ حصوں پر قبضہ کر لیا، واشنگٹن عالمی مذمت میں سب سے آگے تھا، جس نے یوکرین کی فوج کو اربوں کی فوجی اور مالی امداد بھیجی۔ اس نے ایک پریشان کن دہرا معیار قائم کیا ہے جس کی پیروی امریکا کے ساتھ دیگر ممالک نے بھی کی ہے۔
ان جغرافیائی سیاسی اتحادوں میں موجود دوعملی عالمی قانونی فریم ورک کی سالمیت کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی زیادتیاں وحشیانہ اور مہلک ہوتی جاتی ہیں اور اس کی خلاف ورزیوں سے نہ صرف فلسطینی آبادی متاثر ہوتی ہے، بلکہ استثنیٰ کا یہ نمونہ انصاف اور احتساب کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرتا ہے اور دوسروں کو ایسے جرائم میں ملوث ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔
بین الاقوامی قانون پر اعتماد بحال کرنے کے لیے طاقتور ممالک کو انسانی حقوق کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات پر ترجیح دینی چاہیے۔ اس کے لیے عالمی برادری کے ایک متحد محاذ کی ضرورت ہے۔ قوموں کو اپنے اعمال کے لیے ایک دوسرے کو جوابدہ ٹھہرانا چاہیے اور سیاسی وابستگیوں یا اتحادوں سے قطع نظر خلاف ورزیوں کے خلاف بولنا چاہیے۔ انصاف کے ساتھ حقیقی وابستگی کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کو مستقل اور تعصب کے بغیر لاگو کیا جائے۔ فیصلہ کن کارروائی کے ذریعے ہی بین الاقوامی قانون کے نظریات کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔