اسلام آباد ہائی کورٹ میں جب پراسیکیوٹر جنرل نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے وکیل رہنما شعیب شاہین کی گرفتاری کے وقت پولیس نے ان سے ڈنڈا برآمد کیا تھا تو اس بیان پر چیف جسٹس کی بھی ہنسی نکل گئی اورکمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا اور چیف جسٹس کو کہنا پڑا کہ اس ایف آئی آر کا مصنف بھی دلچسپ اور قابل ستائش ہے، بڑے عرصے بعد کامیڈی دیکھنے کو ملی ہے۔
انھوں نے اسلام آباد پولیس پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ہے یا رضیہ جو غنڈوں میں پھنس گئی ہے جس نے پہلے شعیب شاہین پر پستول ڈال دی اور اب کہا جا رہا ہے کہ پستول نکال لی۔ کامیڈی آپ نے بھی پڑھ لی اور ان سے ڈنڈا برآمد کر لیا۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہم سب شعیب شاہین کو جانتے ہیں کسی نے کتنا ہی سنگین جرم کیا ہو، اسے شفاف سماعت کا حق حاصل ہے۔ جسمانی ریمانڈ کے تمام احکامات ایک ہی جیسے ہیں، اس لیے تمام ملزموں کے جسمانی ریمانڈ کا حکم یہ عدالت منسوخ کر کے تمام ملزمان کو جوڈیشل کسٹڈی میں دے رہی ہے اور ملزمان اپنی رہائی کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں۔
8 فروری کے پی ٹی آئی جلسے کے بعد اسلام آباد پولیس نے ارکان اسمبلی اور رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنائے تھے اور پولیس کے مطابق اس نے قانون کے مطابق گرفتاریاں کی تھیں۔ ان گرفتاریوں کے طریقہ کار پر صرف اپوزیشن ہی نہیں بلکہ حکمران اتحاد کے رہنما بھی اعتراض کر رہے ہیں مگر حکومتی وزیر کہہ رہے ہیں کہ گرفتاریاں پارلیمنٹ کی حدود میں نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہوئیں، اگر یہ کہنا درست ہوتا تو اسپیکر قومی اسمبلی بھی ان کا موقف تسلیم کرتے مگر انھوں نے گرفتاریاں غیر قانونی قرار دیں اور تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کیں اور قومی اسمبلی کے بعض افسروں اور ذمے داروں کو معطل کر دیا اور گرفتار ارکان کو ایوان میں طلب کر کے انھیں عشائیہ بھی دیا اور پی ٹی آئی کے گرفتار دس ارکان کے لاجز کو سب جیل قرار دینے کا بھی حکم دیا جو ایک خوش آیند اقدام ہے اور ایسے اقدام کی توقع سابق پی ٹی آئی اسپیکر اسد قیصر جیسے جانبدار اسپیکر سے تو کی ہی نہیں جاسکتی تھی اور یہ قابل قدر قدم بھی مسلم لیگ (ن) کے اسپیکر نے اٹھایا مگر پھر بھی پی ٹی آئی اسپیکر ایاز صادق کے خلاف پی ٹی آئی کے حامی بیانات دے کر ماحول مزید خراب کر رہے ہیں جب کہ اسپیکر پارلیمانی ماحول بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک طرف (ن) لیگ حکومت میں اسپیکر کے قابل تقلید اقدامات ہیں تو دوسری طرف پولیس نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر مقدمات بنا کر (ن) لیگ کی حکومت پر تنقید کا موقع دیا ہے ۔ پولیس کے بنائے گئے مقدمات کے ذمے داروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور یہ مقدمات قہقہوں کا سبب بن رہے ہیں۔ایسے بے سروپا مقدمات کا آغاز نصف صدی قبل پنجاب ہی کی پولیس نے بھٹو دور میں مسلم لیگی رہنما چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کا مقدمہ بنا کر کیا تھا اور چوہدری ظہور الٰہی گرفتار کیے گئے تھے جس پر بھٹو حکومت پر ملک بھر میں تنقید کی گئی تھی اور یہ سلسلہ نصف صدی بعد بھی جاری ہے جب کہ اب جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے جس کا پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم بھرپور استعمال کر کے اپنے بے بنیاد پروپیگنڈے سے مخالفین کو پریشان کر رہی ہے اور اپنے بانی چیئرمین کو بے گناہ قرار دینے کی مہم چلا رہی ہے اور بانی چیئرمین کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت میں ان پر دو سو سے زیادہ مقدمات بنائے گئے ہیں۔
گرفتار اور عدالتوں سے رہائی پانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت نے ان کے بانی چیئرمین اور ان پر نہ صرف جھوٹے مقدمات بنائے بلکہ ایک ہی دن، ایک ہی وقت میں مختلف شہروں میں وارداتیں کرنے کے مقدمات بنائے گئے جو ممکن ہی نہیں ہے۔ بانی چیئرمین پر ایف آئی اے نے حال ہی میں ایک متنازع پوسٹ پر بغاوت پر اکسانے کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور رہنماؤں کے خلاف کمزور مقدمات بنانے والوں کو روکا جاتا تاکہ ان کمزور مقدموں میں ملزموں کو عدالتیں بری نہ کرتیں اگر ان کے خلاف مضبوط شواہد اور ثبوت ہوتے۔ ایسے افسروں سے بازپرس کی جانی چاہیے مگر حکومت ایسا نہیں کر رہی جس سے سائفر جیسا مضبوط کیس بھی ختم ہو گیا اور ایسے بے سروپا، کمزور مقدمات پر عدالتوں میں قہقہے گونج رہے ہیں اور اسیر بانی مزید مقبول ہو رہا ہے۔