کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں قائد اعظم ٹرافی کا میچ جاری تھا، ایسے میں ایک کھلاڑی نے ساتھی سے کہا کہ ’’یار میرے کندھے اور سینے میں کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے، وہ بیٹر اس وقت تک نصف سنچری مکمل کر چکا تھا،اس کی حالت دیکھ کر ٹیم مینجمنٹ فورا اسپتال لے گئی وہاں دل کے عارضے کا انکشاف ہوا۔
اسپتال کے بیڈ پر لیٹا وہ کرکٹر یہی سوچ رہا تھا کہ اتنی مشکل سے قومی ٹیم میں شامل ہوا تھا اب نجانے کیا ہوگا، یہ کھلاڑی تھے عابد علی، اگر کوئی پاکستان کے بدقسمت کرکٹرز پر کوئی کتاب لکھے تو ایک باب ان پر ہونا لازمی ہوگا، انھیں مسلسل عمدہ کارکردگی کے باوجود بہت تاخیر سے چانس ملا، 12 سال ڈومیسٹک کرکٹ میں جوتے گھسنے کے بعد106 فرسٹ کلاس میچز میں 7116 رنز بنانے پر انھیں31 سال کی عمر میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کا موقع ملا،اس سے قبل ’’چچا بھتیجے‘‘ کی محبت کا انھیں بہت نقصان ہوا، عابد مزید نمایاں نہ ہوں اس لیے انھیں جونیئر ٹیم کے ٹور پر یو اے ای بھیج دیا گیا وہاں رنز کے ڈھیر لگا دیے تو واپس بلا لیا، یہاں پھر قائد اعظم ٹرافی کے میچ میں ڈبل سنچری بنا دی، ایسے میں انھیں ٹیسٹ کیپ دینا مجبوری بن گئی۔
عابد نے ڈیبیو پر سنچری بنائی مگر پھر دل نے ان کا دل ہی توڑ دیا،دسمبر 2021 میں جب وہ بیمار ہوئے تو اس سے پہلے بنگلہ دیش کے ٹور میں87 کی اوسط سے263 رنز بنا کر پلیئر آف دی سیریز قرار پائے تھے، ٹیسٹ کی طرح وہ پہلے ون ڈے میں بھی سنچری بنا کر یہ کارنامہ سرانجام دینے والے دنیا کے پہلے کرکٹر بن گئے تھے، البتہ جب ایسا لگ رہا تھا کہ اب سب ٹھیک چل رہا ہے تو صحت نے عابد کے ساتھ سلیکٹرز والا کردار ادا کیا، انجیوپلاسٹی کے چند ماہ بعد وہ فٹ تو ہو گئے لیکن پھر قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع نہ مل سکا۔
مجھے ہمیشہ میرے بڑوں نے یہی سکھایا کہ اچھے وقت میں چاہے کسی سے رابطہ نہ ہو لیکن اگر کوئی بْرے دور سے گذر رہا ہو تو اسے اکیلے ہونے کا احساس نہ ہونے دو، اسی وجہ سے میں نے عابد سے ہمیشہ رابطہ رکھا، واٹس ایپ پر ان کے دینی پیغامات بھی باقاعدگی سے آتے رہتے ہیں، البتہ آج جب میں نے انھیں انگلینڈ کال کی تو اداس سے لگے، میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’سلیم بھائی یہاں سب چڑھتے سورج کو ہی دیکھتے ہیں، وقت خراب ہو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں، اب تو ساتھی کرکٹرز اور پی سی بی آفیشلز فون تک نہیں ریسیو کرتے، ڈومیسٹک کنٹریکٹ بھی ختم ہو چکا، دوائیوں وغیرہ کی ضرورت ہو تو خود ہی انتظام کرنا پڑتا ہے‘‘
میں نے چیمپئنز کپ میں شرکت نہ کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگے کہ ’’ میری ایک آفیشل سے بات ہوئی تھی جنھوں نے بتایا کہ 35 سال سے زائد العمر کھلاڑی اس ایونٹ میں حصہ نہیں لے سکتے‘‘ میں نے صحت کا پوچھا تو عابد نے بتایا کہ ’’ اب بالکل ٹھیک ہیں اور کئی برس سے بغیر کسی مسئلے کے کرکٹ جاری ہے‘‘ جب ہماری بات چیت ختم ہو گئی تو میں یہی سوچنے لگا کہ گھڑدوڑ میں ایسا ہوتا ہے کہ کوئی گھوڑا بیمار ہو جائے تو اسے سائیڈ میں باندھ دیا جاتا ہے اور اسے کوئی نہیں پوچھتا، یہ تو انسانوں کا کھیل کرکٹ ہے اس میں آپ کیسے کسی کو ایسے فراموش کر سکتے ہیں،
چیمپئنز کپ میں 36 سالہ مینٹور سرفراز احمد کسی میچ میں کھیل بھی سکتے ہیں،38 سال کے نعمان علی بھی ایکشن میں ہیں، 35 سال کے عمر امین حال ہی میں پاکستان اے (شاہینز) کی جانب سے آسٹریلیا کے دورے پر گئے، آپ کی ایک ٹیم کے مینٹور مصباح الحق 43 سال کی عمر تک ٹیسٹ کرکٹ کھیلتے رہے اور اب نوجوانوں کو ہی کھلانے کی باتیں کرتے ہیں، یعنی ہر کسی کے لیے الگ پیمانہ ہے، اگر کوئی پسند ہو تو عمر معنی نہیں رکھتی، کوئی بغیر سفارش کا سیدھا سادا انسان ہو تو اسے باہر کرنے کیلیے اسے جواز بنا دیا جاتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ واپسی کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں عابد علی نے ماضی جیسی کارکردگی نہیں دکھائی، البتہ وہ اب بھی کئی موجودہ کرکٹرز سے بہتر ہیں، اگر انھیں مزید مواقع ملے تو سابقہ ردھم بھی حاصل کر لیں گے لیکن دانستہ دور رکھا گیا، اسی لیے اب انگلینڈ میں گذر بسر کیلیے لیگ کھیل رہے ہیں، ہمارے ملک میں سلمان بٹ جیسے سابق کرکٹر میچ فکسنگ میں جیل کی ہوا کھانے کے بعد بھی آج کمنٹری کرتے نظر آتے ہیں، ہر روز بقراط بنے نت نئے بیان جھاڑ رہے ہوتے ہیں اور لوگ واہ واہ کیا کرکٹنگ دماغ ہے کا راگ الاپتے ہیں۔
عامر جیسے کھلاڑی کو اب بھی ہم سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں، یہاں عابد علی جیسے کتنے کرکٹرز تو موقع نہ ملنے پر بھولی بسری داستان بن جاتے ہیں،آپ اکثر سوشل میڈیا میں ویڈیوز دیکھتے ہوں گے کہ کوئی رنگ کرنے والا زبردست آواز میں گانے گا رہا ہے، کوئی دوستوں کی محفل میں ایکٹنگ صلاحیتیں دکھا رہا ہے، یہ سب وہ بیچارے ہیں جنھیں مواقع نہیں ملے ورنہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔
ٹیلنٹ تو بہت ہوتا ہے، کرکٹ میں بھی کئی نوجوان ڈپارٹمنٹس بند ہونے پر کھیل چھوڑ کر فیکٹریوں میں ملازمت کرنے لگے، کوئی ٹیکسی چلانے لگا، ایسے کھلاڑیوں کو واپس لانا ہوگا، چیئرمین پی سی بی محسن نقوی میرٹ کو اہمیت دیتے ہیں،میں ان سے درخواست کروں گا کہ عابد علی کے کیس کو ذاتی طور پر دیکھیں، انھیں کم از کم چیمپئنز کپ جیسے ایونٹس میں تو موقع ملنا چاہیے،اگر پرفارم کریں تو قومی ٹیم کی نمائندگی بھی کرنے دیں،یا کم از کم گذر بسر کے لیے کوئی کام سونپیں، اگر کوئی 20 سال کا نوجوان ہے جو 4 اوورز کر کے ہانپتے لگتا ہے یا شعیب ملک جیسا 42 سالہ سپرفٹ کھلاڑی ہو تو ان میں اہمیت شعیب کو دینی چاہیے۔
گوکہ وہ اب خود ہی انٹرنیشنل کرکٹ سے دور ہو چکے لیکن یہاں ان کی مثال دینا ضروری تھا، ہم ملک میں ٹیلنٹ کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں، جو پلیئرز ہیں ان کی قدر کریں، ہر کسی کے پاس سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے پیسے یا اثرورسوخ نہیں ہوتا، ایسے کھلاڑیوں کی آواز بورڈ کو سننی چاہیے، مجھے یقین ہے نقوی صاحب ضرور حقداروں کو ان کا حق دلائیں گے۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)