ہمارے معاشرہ میں ’’نکاح‘‘ کی جب بھی بات ہوتی ہے، وہیں پر اس سے متصل دو اہم جزو ’’جہیز‘‘ اور ’’حق مہر‘‘ پر لازم بحث کی جاتی ہے۔ آج ہم جن بڑی برائیوں میں مبتلا ہیں، ان میں سے ایک ’’جہیز‘‘ بھی شامل ہے۔
’’جہیز’’ وہ سامان ہے جو ایک لڑکی نکاح کے بعد اپنے ساتھ لے کر جاتی ہے۔ بعض اوقات لڑکی کے والدین اپنی توفیق کے مطابق اور زیادہ تر توفیق سے بڑھ کر ہی ’’جہیز‘‘ کے نام پر سازو سامان لڑکی کے ساتھ رخصت کرتے ہیں۔ کیونکہ معاشرے میں یہ نکاح کےلیے لازمی جزو بن چکا ہے، جس کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔ جب تک کہ ایک لڑکی سامان سے لدی ہوئی رخصت نہ ہو، کیونکہ یہی سامان اس کی پائیدار شادی کی ضمانت ہے۔
آئیے اب اسلامی تعلیمات (قرآن و سنہ) کی طرف، ہمارا دین اسلام ہمیں اس بارے میں کیا رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سنت رسول اللہؐ اس بارے میں کیا ہے؟ رسول اللہؐ نے اپنی چار بیٹیوں، حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ، اور حضرت فاطمۃ الزہرہؓ کے نکاح خود کیے۔ حضرت زینبؓ کو حضرت خدیجہؓ نے ایک ہار گفٹ کیا تھا، باقی حضرت رقیؓہ اور ام کلثومؓ بنا جہیز کے ہی رخصت ہوئیں۔
آپؐ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓ کے نکاح کے موقع پر سنت رسولؐ سے واضح احکام ملتے ہیں۔ حضرت فاطمہؓ رسول اللہؐ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی کا نکاح حضرت علیؓ سے ہونا طے پایا تو رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس فاطمہ کو جہیز میں دینے کےلیے کیا ہے؟ جس پر حضرت علیؓ نے فرمایا میرے پاس اس وقت سوائے اس ڈھال کے اور کچھ نہیں۔ رسول اللہؐ نے اس کو فروخت کرنے کا حکم دیا، جس سے حضرت علیؓ نے چادر، مشکیزہ، تکیہ، اور آٹا پیسنے کی ایک چکی خریدی۔ یہ وہ بنیادی سامان زندگی ہے جو ہر گھر میں لازم ہوتا تھا، چونکہ حضرت علیؓ فقر کی زندگی گزارتے تھے اور ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا اس لیے انہیں حضرت فاطمہؓ کےلیے یہ سامان خریدنا پڑا اور لازم بھی تھا۔
آپؐ کے اصحابؓ کی بھی یہی سنت رہی کہ بغیر جہیز کے ہی وہ نکاح کراتے یا خود نکاح کرتے، سوائے ایک آدھ گفٹ کے جو وہ اپنی بچی کو دینا چاہیں۔ تو سنت رسولؐ اور سنت صحابہؓ سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ جہیز کے نام پر کوئی بھی چیز لڑکی کے ساتھ رخصت نہیں کی جاتی تھی اور نہ ہی یہ نکاح کےلیے جزو لازم ہے۔
اب آئیے ’’حق مہر‘‘ کی طرف۔ شریعت میں ’’حق مہر‘‘ نکاح کےلیے جزو لازم ہے۔ ’’حق مہر‘‘ سے مراد وہ رقم یا جائیداد ہے جو شوہر نکاح کے وقت عورت کے نام کرتا ہے، جس پر سوائے عورت کے کسی اور کو تصرف حاصل نہیں۔ شریعت میں کم سے کم حق مہر ’’دس درہم‘‘ ہے اور زیادہ کا تعین نہیں کیا گیا۔ شریعت میں ’’مہر فاطمہ‘‘ کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ وہ مہر ہے جسے رسول اللہؐ نے اپنی بیٹی فاطمہؓ اور بعض ازواج کےلیے مقرر فرمایا تھا، جس کی مقدار ’’پانچ سو درہم‘‘ بنتی ہے، لیکن صاحب استطاعت مرد اپنی استطاعت کے مطابق زیادہ مہر دینے کاا ختیار بھی رکھتا ہے، کیونکہ یہ سہولت بھی ہمیں شریعت سے ہی ملتی ہے کہ زیادہ مہر مقرر کرنے میں بھی کوئی بندش نہیں، لیکن اس کو کم یا زیادہ کرنے میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی بھی شامل ہے۔ باہمی رضامندی سے وہ مہر طے کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ عورت کی رضامندی پر زیادہ منحصر ہے۔ اگر عورت چاہے تو مرد کی مالی حالات کو دیکھتے ہوئے حق مہر معاف بھی کرسکتی ہے۔ جیسا کہ ’’حضرت ام سلیمؓ‘‘ نے حضرت ابو طلحہ انصاریؓ سے نکاح کے وقت ’’ابو طلحہ انصاری‘‘ کا اسلام لانا ہی اپنا حق مہر تصور کیا۔ کیونکہ ’’حق مہر‘‘ عورت کا حق ہے تو اس کا اختیار ہے وہ اس کے بارے میں فیصلہ کرے۔ یہ آزادی شریعت نے اس کو دی ہے۔
ثابت ہوا کہ نکاح کے وقت ’’شریعت‘‘ میں جہیز کے نام پر کوئی چیز بھی لڑکی کے والدین پر فرض نہیں ہے جس کی توقع بھی رکھی جائے۔ سوائے اتنا جتنا وہ اپنی بیٹی کو خوشی سے گفٹ کرنا چاہیں، اور ’’حق مہر‘‘ لازم ہے۔ کسی نہ کسی شکل میں اور اس عمل کو مستحسن قرار دیا گیا ہے کہ صاحب استطاعت اپنی استطاعت کے مطابق کثیر مقدار میں ’’حق مہر‘‘ لڑکی کے نام کریں۔
اب آئیے ہمارے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کی طرف، جہاں پر ہم مسلمان جب نکاح کرتے ہیں تو حق مہر میں ’’شرعی حق مہر‘‘ کو لازم رکھا جاتا ہے، جس کی رقم چند ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔ یعنی اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے کہ ’’حق مہر‘‘ کی رقم شریعت کے مطابق چند ہزار سے آگے نہ بڑھنے پائے، اور اگر لڑکی والوں کی طرف سے حق مہر کی رقم زیادہ رکھ دی جاتی ہے جس کی شریعت میں اجازت ہے تو یہ 100 فیصد ممکن ہے کہ بارات نکاح کے بغیر ہی واپس چلی جائے گی، اور جب بات ’’جہیز‘‘ کی آتی ہے تو یہاں پر ’’شریعت‘‘ کہیں نظر نہیں آتی۔ کوئی شرعی جہیز کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مراد ایک ہی کنٹریکٹ (نکاح) کی دو شقوں میں ہم کس قدر منافقت اور خیانت سے کام لیتے ہیں۔ مہر کی ادائیگی کم سے کم (شریعت کی رو سے) اور جہیز کا مطالبہ زیادہ سے زیادہ (جس کا شریعت میں بالکل بھی حکم نہیں)۔
آج ہمارے معاشرے میں بے شمار لڑکیوں کا نکاح اسی وجہ سے نہیں ہوپاتا کہ ان کے والدین اپنی اوقات سے بڑھ کر ان کو جہیز نہیں دے سکتے۔ دوسری پارٹی یعنی لڑکے والوں کی طرف سے اس بات کا ہمیشہ یہی ردعمل آیا ہے کہ ہم کون سا ’’ڈیمانڈ‘‘ کرتے ہیں۔ یہ ’’ڈیمانڈ‘‘ ہی ہے کہ ہر لڑکی کے والدین کو پتہ ہے کہ بنا جہیز کے ان کی لڑکی کی رخصتی نہیں ہوگی۔ کیونکہ اکثر اوقات ہمارے رویے ہی ہماری زبان کے ترجمان ہوتے ہیں۔
ہم لوگ زندگی کے ہر میدان میں بے جا رسم و رواجوں کے پابند ہیں۔ اگر بغور دیکھا جائے تو اسلام تو ہماری عملی زندگی سے کب کا نکل چکا ہے، جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔ اگر اسلام ہے تو صرف عقائد کی حد تک، عملی زندگی میں نہیں۔ اور کوئی بھی عملی زندگی میں اسلام یعنی شریعت کو لانے کےلیے کچھ نہیں کررہا۔ صرف دین بتانا ہی علما کی ذمے داری نہیں، دین پر عمل کرکے بھی دکھانا لازم ہے۔ اور یہی تعلیم تو ہمیں رسول اللہؐ کی پوری حیات مبارکہ سے ملتی ہے۔ انہوں نے صرف دین بتایا نہیں بلکہ اس پر مکمل عمل کرکے دکھایا۔ اور شریعت (قرآن و سنہ) کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عملی اسلام نافذ کیا جائے، زبانی اسلام نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔