جبار مرزا ہماری صحافت کے محنت کش ہیں۔ قلم کبھی ہاتھ سے نہیں رکھتے۔ ادھر ہم ابھی ان کی ایک کتاب سے نبرد آزما ہوتے نہیں کہ دوسری آ جاتی ہے۔ ان کی کتابوں کی فہرست بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ گھٹنے توڑ کر بیٹھنے والا کوئی محنتی طالب علم ممکن ہے کہ یہ کارنامہ کر پائے۔ وہ کثیر التصانیف ایسے ہیں کہ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ہی ان کے مقابلے میں خم ٹھونک کر کھڑے ہو سکتے ہیں۔ البتہ ان میں اور مرزا صاحب میں ایک فرق ہے۔
مرزا صاحب ساری محنت خود کرتے ہیں جب کہ ہارون صاحب اپنے ساتھ دوسروں کو بھی محنت پر آمادہ کرتے ہیں۔ خیر، یہ اپنے اپنے مزاج اور اسلوب کی بات ہے۔ ہمارے دوست ہارون الرشید تبسم درجنوں لوگوں کو متحرک کر کے سیکڑوں کتابوں کے مصنف بنے ہیں تو مرزا صاحب نے یہ سارا بوجھ خود ہی اٹھایا ہے۔ جہاں تک مرزا اور مغل ہونے کا تعلق ہے، ہمارے ان دونوں دوستوں کے اجداد مشترک ہیں البتہ جبار مرزا صاحب نے اپنے جد اورنگ زیب عالمگیر جیسا مزاج پایا ہے۔ اس بزرگ کی گھڑ سواری کرتے کرتے کمر دوہری ہو گئی لیکن جنگوں کی قیادت ہمیشہ خود کی۔ کسی دوسرے حتی کہ اولاد پر بھی اعتماد نہیں کیا۔ ہمارے مزرا صاحب تو پھر مصنف ہیں، مصنف اپنی تصنیف میں شرک تو کبھی برداشت کرتا ہی نہیں ہے۔
جبار مرزا صاحب سے ذاتی تعلق تو بہت بعد میں بنا، درجنوں کتابوں کے مصنف وہ پہلے ہی بن چکے تھے۔ ایوان صدر میں میرے قیام کے شاید آخری دنوں کی بات یے، ان کی دو کتابیں موصول ہوئیں، ان میں ایک ‘ قائد اعظم اور افواج پاکستان ‘ تھی، حکم یہ تھا کہ اسے صدر مملکت یعنی صدر ممنون حسین کو پیش کر دیا جائے۔
حکم کی تعمیل ہو گئی۔ صدر صاحب نے ورق گردانی کی اور پسند فرمایا۔ تب تک مرزا صاحب اس کم ترین کو مطالعے کے قابل شاید نہیں سمجھتے ہوں گے، اس لیے وہ اس کتاب کے افادے سے محروم رہا۔ اس بڑے گھر سے فراغت کے بعد انھوں نے مجھے اس قابل سمجھا اور اپنی محبت کی سرگزشت عنایت کی۔ یہ کتاب یعنی ‘ جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں’ کے عنوان سے شائع ہو کر مقبولیت کے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔
خیر، ان کی محبت کا ایک تذکرہ بہ عنوان ‘ پہل اس نے کی تھی’ بھی مقبولیت حاصل کر چکا ہے لیکن ان دو تذکروں میں فرق کیا ہے، اس کا اندازہ یوں نہیں ہے کہ اس کی اشاعت ان دنوں کی بات ہے جب ان سطور کے لکھنے والے کو وہ سرکاری اہل کار سمجھتے تھے، کتاب خوانی کے مرتبے پر فائز نہیں سمجھتے تھے۔ 2019 کے آس پاس ان کی ایک کتاب ‘ کشمیر کو بچا لو’ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
ہمارے صحافیوں میں ایک خرابی ہے، صحافت کرتے کرتے خوش قسمتی سے وہ مصنف بن جائیں تو لٹریری ٹچ انھیں بگاڑ دیتا ہے اور ان کی کتابوں کے ناموں سے سنجیدگی بلکہ خشکی ٹپکنے لگتی ہے لیکن مرزا صاحب کے صحافتی پس منظر نے ان کے عوامی بلکہ عام فہم انداز پر کبھی آنچ نہیں آنے دی جو کشمیر والی کتاب کے نام سے واضح ہے۔یہی صحافت کی خوبی اور اس کا طرہ امتیاز ہے۔ کشمیر پر ہمارا مقدمہ تاریخی اور دستاویزی ثبوت بھی رکھتا ہے اور یہ ثبوت بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن تعلق خاطر کے وہ ثبوت جن کا تعلق لوگوں یعنی رشتے ناتوں سے ہو، اس کی اہمیت سب سے بڑھ کر مسلم ہے۔
اس کتاب میں مرزا صاحب نے ایسے ہی ثبوتوں کے ڈھیر لگا دیے ہیں جیسے راول پنڈی صدر میں جو مشہور اور تاریخی تانگہ اسٹینڈ تھا، وہاں سے ٹانگے چلا کرتے تھے جو ہمارے کشمیر کے اس خطے تک جاتے جس کی پہچان آج مقبوضہ کشمیر کے نام سے کی جاتی ہے۔ تعلق خاطر کے ایسے ثبوت ہی ہوتے ہیں جو قانونی اور دستاویزی ثبوتوں کو بھاری بھرکم بناتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ دعویٰ جو سیاسی بنیاد پر کیا جا رہا یے، وہ ناقابل تردید انسانی، تہذیبی اور تجارتی رشتوں میں گندھا ہوا ہے۔ اس کتاب میں مرزا صاحب نے کشمیر کے ساتھ پاکستان کے رشتوں کی ایسی بنیاد کے بارے میں بتایا ہے جو دیگر ہر ثبوت سے بڑھ کر ہے۔
کچھ روز ہوتے ہیں، سید ضمیر جعفری کے بارے میں ان کی کتاب ‘ مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف ‘ منصہ شہود پر آئی تھی۔ اس کتاب میں جعفری صاحب کے مزاج اور زندگی کی ساری جھلکیاں انھوں نے سپرد قلم کر دی ہیں جنھیں پڑھتے صاف دکھائی دیتا تھا کہ یہ جعفری صاحب آ رہے، وہ جا رہے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ انھوں نے سید ضمیر جعفری کے بارے میں دلچسپی رکھنے والے محقق کو معلومات کے بنیادی ذریعے تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ اس کا فہم اور قابلیت ہے جس سے کام لے کر وہ ہماری مزاحیہ شاعری کے بادشاہ کا تاج محل تعمیر کر سکتا ہے۔
کچھ ایسا معاملہ ہی ان کی تازہ کتاب کا ہے جو ‘ صحافتی یادیں’ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ یادیں قلم بند کرنے کے لیے حافظے کی سلامتی ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ مرزا صاحب کا حافظہ کمال کا ہے۔ چند برس ہوتے ہیں، ہماری بھابی صاحبہ یعنی رانی کا انتقال ہو گیا جو ان کی نصف بہتر اور محبت تھیں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد آج بھی ان کے دن کا آغاز رانی کی قبر پر فاتحہ خوانی سے ہوتا ہے اور جب ان کا ذکر ہوتا ہے تو وہ جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں، خود پر قابو پا کر آگاہ کرتا ہے کہ رانی کو بچھڑے ہوئے اتنے سال، اتنے ماہ، اتنے دن اور اتنے گھنٹے ہو گئے ہیں۔ رانی سے بچھڑنے کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے یوں گزرا ہے کہ اس کا حساب کتاب ان کی نوک زباں پر آ گیا ہے۔
مرزا صاحب راول پنڈی اور اسلام آباد کی صحافت کے بزرگوں میں سے ہیں۔ ان کے مشاہدے سے ایسا بہت کچھ گزرا ہے، آج کے صحافی جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ افراد، ادارے اور سماج۔ یہ سب یادیں ایسی ہیں جن کے تال میل سے اس خطے اور یہاں کے لوگوں کے مزاج، افتاد طبع اور اہم واقعات کی تفصیلات سے نہ صرف یہ کہ تاریخ بلکہ ہمہ قسم کے تذکرے مرتب کیے جا سکتے ہیں۔
غرض مرزا صاحب نے اس کتاب میں ایسے ایسے واقعات قلم بند کر دیے ہیں جو پڑھنے والے کو حیران کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی حیرت کی بات ہے کہ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جاتے تھے، باہمی لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات میں ان کی خواہشات نا آسودہ رہ جاتیں تو وہ درمیان میں ڈاکوؤں کو لے آتے۔ ایسے ہی کسی معاملے میں ایک بار ایسا ہوا کہ ایوب خان سے دشمنی کی شہرت رکھنے والے ڈاکو خانو ڈھرنالیہ(محمد خان) کے بیٹے نے خود مرزا صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا دیا پھر اس شخص یعنی اپنے مد مقابل اور ڈاکو کے بیٹے کے ساتھ مرزا صاحب نے جو سلوک کیا، وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ہاتھ سے کبھی قلم نہ رکھنے والے مرزا صاحب نے تو اتنا بہت کچھ لکھ کر اپنے حصے کا کام کر دیا ہے اور علامہ عبد الستار عاصم نے اپنی روایت کے مطابق بڑی خوبصورتی کے ساتھ اسے شائع کر دیا ہے۔ اب جو اسے پڑھنا، سمجھنا، لطف لینا اور عبرت پکڑنا چاہتا ہے، اس کے لیے صلائے عام ہے۔ باقی اس کی قسمت اور مرضی۔