پاکستان میں تنگ پٹڑی کی تاریخ  

پاکستان میں تنگ پٹڑی کی تاریخ  


1850 میں جب تاجِ برطانیہ نے سر ہنری بارٹلے فریئر کو سندھ کا چیف کمشنر بنا کے بھیجا، تو وہ اپنے ساتھ ساتھ اس خطے کے لیے تبدیلی کا پروانہ بھی لے کر آیا۔ اس کے ہوتے ہوئے نہ صرف کراچی کی بندرگاہ بنائی گئی بلکہ جہازوں کے لنگرانداز ہونے کو جیٹیاں بھی تعمیر کی گئیں۔ سندھی زبان کو فروغ دیا گیا اور سندھ میں ڈاک کا مضبوط بھی نافذ کیا گیا۔

بندرگاہ بنی تو اسے ملک کے دیگر شہروں سے ملانے کے لیے ریل کی پٹڑی بچھانے کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کا سروے بھی فریئر نے کروایا۔ سروے کے مطابق کراچی کو پہلے لاہور اور پھر براستہ امرتسر دہلی سے جوڑا جانا تھا جس کے بعد لاہور کو پشاور سے جڑنا تھا۔ پہلے مرحلے میں کراچی تا کوٹڑی پٹڑی بچھانے کا فیصلہ ہوا جسے جلد از جلد مکمل کیا جانا تھا۔ مئی 1861ء میں کراچی سے کوٹری 169 کلومیٹر ریلوے لائن کا افتتاح ہوا جس سے اس خطے میں ریل کا آغاز ہوا۔

اس کے بعد اپریل 1865ء کو لاہور – ملتان ریلوے لائن اور اکتوبر 1876ء کو دریائے راوی, چناب اور جہلم پر پلوں کی تعمیر کے بعد لاہور – جہلم ریلوے لائن کو کھول دیا گیا۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں مختلف گیج کی لائنیں بچھائی گئیں جو موجودہ پاکستان کے کئی کونوں تک پہنچیں اور کام یابی سے چلتی رہیں۔ آج میں انہی لائنوں کا ذکر کریں گا۔

 سب سے پہلے ہم اس گیج کو سمجھتے ہیں۔

ریلوے کی اصطلاح میں ٹریک کے لفظ ’گیج‘ کا مطلب ہے دو متوازی ریلوں کے درمیان کا فاصلہ۔ ہر ملک نے اپنی ضرورت کے حساب سے یہ فاصلہ منتخب کر رکھا ہے جب کہ کئی ممالک میں یہ فاصلہ ایک جیسا ہے۔ دنیا میں اس وقت مختلف گیج استعمال کیے جا رہے ہیں جن کی تفصیل یوں ہے؛

 براڈگیج   (پانچ فٹ چھے انچ/ سولہ سو چھیتر ملی میٹر چوڑا)               

اسٹینڈرڈ گیج           (چار فٹ ساڑھے آٹھ انچ چوڑا)                       

 میٹر گیج   (تین فٹ تین انچ یا ایک ہزار ملی میٹر چوڑا)                  

نیرو گیج    (دو فٹ چھے انچ یا سات سو باسٹھ ملی میٹر چوڑا)               

 مکس گیج۔ ایسی لائن جس پر تین پٹڑیاں بچھائی جاتی ہیں تاکہ اس پر بڑی اور نسبتاً چھوٹی گاڑی اپنے اپنے وقت میں چل سکیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت پاکستان میں نیرو، میٹر اور براڈ گیج کی پٹڑیاں تھیں جن میں اس اب صرف براڈ گیج کی پٹڑیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔

اس مضمون میں میں آپ کو صرف نیرو اور میٹر گیج ٹریکس کا بتاؤں گا۔ براڈ گیج کو بعد میں الگ سے بیان کیا جائے گا۔ شروع کرتے ہیں سب سے چھوٹے نیرو گیج سے۔

تنگ پٹڑی یا نیرو گیج

نیرو گیج لائن، اسٹینڈرڈ گیج سے چھوٹی ہوتی ہے اور اس میں دو پٹڑیوں کے بیچ کا فاصلہ 1435 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے۔ اس کا پیمانہ ہر خطے کے لیے مختلف ہے۔ بوسنیا میں یہ 760 ملی میٹر ہے تو ہندوستان میں 762 ملی میٹر یا دو فٹ چھے انچ۔

نیرو گیج کو براڈ گیج پر کئی حوالوں سے سبقت حاصل ہے۔ آسانی سے مُڑ جانے، ہلکی ریل کے استعمال اور کم لاگت ہونے کی وجہ سے دنیا کے کئی علاقوں میں شروعاتی طور پر نیرو گیج ٹریک بچھائے گئے تھے۔ تعمیر میں آسانی اور کم خرچ کی وجہ سے بہت سے پہاڑی علاقوں اور چھوٹے قصبوں تک یہی پٹڑی عوام الناس کو لے جاتی تھی۔

تنگ گیج ریلوے ٹریکس کو کانوں سے معدنیات کی ترسیل کے لیے بھی بہترین تصور کیا جاتا ہے۔

جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی کچھ ریاستوں میں نیرو گیج کو ہی بطور اسٹینڈرڈ استعمال کیا جاتا ہے۔

تقسیم کے وقت پاکستان کے حصے میں کئی نیرو گیج ٹریکس آئے تھے جن میں سے کچھ کو آہستہ آہستہ براڈ گیج سے بدل دیا گیا تھو اور جو باقی بچے وہ بھی اکھاڑ دیے گئے لیکن ان کی نشانیاں اب بھی باقی ہیں۔

میں خود تو ان ٹریکس پر سفر نہ کر سکا لیکن آپ کو ضرور ساتھ لیے چلوں گا۔

1) کوہاٹ – تھل برانچ لائن

اگرچہ یہ ٹریک جنڈ جنکشن سے شروع ہوتا ہے لیکن اسے خوشحال گڑھ -کوہاٹ- تھل ریلوے لائن بھی کہا جاتا ہے جو ضلع اٹک کے جنڈ شہر کو ضلع ہنگو کی تحصیل تھل سے براستہ کوہاٹ جوڑتی تھی۔

1889 میں خوشحال گڑھ تا کوہاٹ اس لائن کا سروے مکمل ہوا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ راستے میں آنے والے دریائے سندھ پر پُل بنانے کی بجائے ایک رَوپ وے بنایا جائے گا۔ خوشحال گڑھ سے کوہاٹ تک 48 کلومیٹر کی نیرو گیج لائن 1902 میں کھول دی گئی۔ یوں یہ موجودہ پختونخواہ کی پہلی نیرو گیج لائن قرار پائی۔

درہ کوہاٹ کے راستے تھل تک جانے والی سو کلومیٹر نیرو گیج لائن 1901 میں مختلف حصوں میں بنتی ہوئی 1903 میں تھل تک پہنچی۔

اُدھر ایک حادثے کی وجہ سے روپ وے کو بند کرکے 1903 میں ہی دریائے سندھ پر ایک کشتی والا پُل تعمیر کردیا گیا۔ ایک بڑے پل کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے آخر کار دریائے سندھ پر ایک مضبوط پل تعمیر کرنے کا فیصلہ ہوا اور 1907 میں دو منزلہ خوشحال گڑھ پل کی صورت ایک حسین تعمیراتی شاہ کار اباسین کے کناروں کو ملا رہا تھا۔

اس کا نچلا حصہ عام ٹریفک جبکہ اوپر والا حصہ ریل کراسنگ کے لیے مختص ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سیکشن کو بھی کوہاٹ تک براڈ گیج میں تبدیل کردیا گیا اور یہ 1908 میں دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔

جون 1991 میں، کوہاٹ-تھل سیکشن کو ترک کر دیا گیا تھا۔

 کوہاٹ تک اس برانچ لائن پر جنڈ جنکشن، خوشحال گڑھ، فقیر حسین شہید، غرزئی، گمبٹ اور کوہاٹ چھاؤنی جبکہ تھل سیکشن پر نصرت خیل، استرزئی، ہنگو، توغ، کاہی، دوآبہ اور تھل کے اسٹیشن واقع ہیں۔ تھل پہنچ کر یہ لائن تھل کے قلعے میں غائب ہو جاتی تھی جو اب تھل اسکاؤٹس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔

یہاں ریلوے لائن کے آخر میں ایک چھوٹی چٹان پر دو پرانی بوگیاں کھڑی ہیں جن پر ’تھل سفاری‘ کا نشان موجود ہے۔ جبکہ کوہاٹ سے تھل تک اس سفاری ٹرین کو کھینچنے والا کالا دُخانی انجن گولڑہ کے ریلوے عجائب گھر میں کھڑا ہے۔

اس سے آگے پارا چنار میں بھی ریلوے کا ریسٹ ہاؤس اور کچھ جائیدادیں موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انگریز سرکار اس لائن کو پاراچنار کے راستے افغانستان تک لے جانا چاہتی تھی لیکن اس سے پہلے ہی ان کا بوریا بستر یہاں سے گول ہو گیا۔

کوہاٹ تا تھل برانچ لائن اب بند کر دی گئی ہے جس کی دوبارہ بحالی بھی زیرِغور ہے۔ اگر یہ سیکشن بحال ہوتا ہے تو اس سے نہ صرف ضلع کُرم بلکہ وزیرستان کے علاقوں کو بھی بہت فائدہ ہوگا۔ نیز سیاحتی مقاصد کے لیے بھی اس ٹریک کو استعمال کی جا سکے گا۔

2) ٹرانس انڈس ریلوے لائن (چھوٹی ریل)

’’ماڑی انڈس ریلوے‘‘ کے نام سے مشہور یہ ٹریک اس خطے کا اولین نیرو گیج (دو فٹ چھے انچ) ٹریک تھا جسے 1913 میں دریائے سندھ کے پار اہم ترین اور حساس عسکری علاقوں تک رسائی کی غرض سے بچھایا گیا تھا۔ اسے ابتدائی طور پر داؤد خیل (ضلع میانوالی) سے لکی مروت (اس وقت ضلع بنوں)، 92 کلومیٹر تک بچھایا گیا تھا۔

چھوٹی ریل دریائے سندھ کے شرقی کنارے پر موجود ماڑی انڈس کے فوجی ڈپو سے شروع ہوتی اور دریا پار کر کے کالا باغ اور عیسیٰ خیل سے ہوتے ہوئے لکی مروت تک جا پہنچتی۔ اس کی افادیت کو بھانپتے ہوئے گورے نے جلد ہی اسے بنوں اور ٹانک کی چھاؤنیوں تک پہنچا دیا۔

ٹانک اور بنوں سے صرف فوجی لائنوں کو ہی وزیرستان کے قلعوں میں سامان لے جانے کی اجازت تھی۔ ان قلعوں کے دروازے کھلتے، پوری ٹرین کو لپیٹ میں لیتے اور پھر بند ہوجاتے۔

اس ٹریک پر چلنے والی ٹرین کو چار بوگیاں لگائی جاتی تھیں اور اس کی رفتار انتہائی سست ہوتی تھی۔ چوںکہ اس وقت کسی ڈبے میں بھی بیت الخلا نہیں بنایا گیا تھا سو کچھ دیدہ دلیر مسافر ٹرین سے اترتے، پٹڑی کے اطراف میں ہلکے ہو کر دوبارہ ٹرین میں سوار ہوجاتے تھے۔ اسی طرح مسافر اسٹیشنوں سے پانی اور کھانے پینے کا دیگر سامان بھی لے کر واپس ریل میں آ بیٹھتے تھے۔

لکی مروت کا قلعہ نما ریلوے اسٹیشن قدرے بہتر حالت میں آج بھی موجود ہے جسے پاکستان ریلوے چاہے تو ایک چھوٹے سے تاریخی عجائب گھر میں بدل سکتی ہے۔ لیکن ریلوے ایسا کیوں چاہے گی؟ یہ گھاٹے کا سودا جو ہے۔

 پختونخواہ کی طرف یہ چھوٹی ریل بنوں، اباخیل، نورنگ سرائے، لکی مروت جنکشن، شہباز خیل ہالٹ، پیزو اور ٹانک ریلوے اسٹیشن سے گزرتی تھی جسے 1995 میں بند کردیا گیا اور اب اس کا ٹریک ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔

3) چلیسہ – ڈنڈوت لائٹ ریلوے

دس کلومیٹر لمبی ’’ڈنڈوت لائٹ ریلوے‘‘، 610 ملی میٹر (دو فیٹ) کی تنگ گیج کی پٹڑی پر مشتمل تھی جو 1905 میں ڈنڈوٹ ریلوے اسٹیشن سے چلیسا جنکشن ریلوے اسٹیشن تک چالو کی گئی۔ اسے خاص کھیوڑہ کی کانوں سے نمک کی ترسیل کے لیے بچھایا گیا تھا۔ محض دس کلومیٹر لمبا یہ ٹریک 1996 میں بند کر دیا گیا لیکن آج کل اس پر کوئلے کی ترسیل کے لیے مال گاڑی چلتی ہے۔ یہ ٹریک چلیسہ جنکشن سے ہوتا ہوا سوڈیاں گجر، کھیوڑہ اور ڈنڈوت تک جاتا تھا۔

ضلع جہلم میں واقع چلیسہ پاکستان کا ایک خوب صورت جنکشن ہے جو اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ رقبے میں ملک کا سب سے چھوٹا جنکشن ہے۔ یہاں سے اب کوئی مسافر ٹرین میں سوار نہیں ہوتا کیوںکہ یہاں سے گزرنے والی پنڈ دادن خان شٹل ٹرین بھی اب یہاں نہیں رکتی۔

اسی لائن کی بدولت مشہور معدنیاتی ذخائر کے حامل شہر جیسے ڈنڈوت، کھیوڑہ اور غریبوال بھی ریلوے کے نظام سے منسلک ہوئے جس سے نمک، جپسم اور سیمنٹ کی ترسیل آسان ہوگئی۔ اب یہاں صرف کوئلے سے بھری ٹرین چلتی ہے جو آئی سی آئی فیکٹری تک جاتی ہے۔

4) ماڑی انڈس – لکی مروت برانچ لائن

92 کلومیٹر لمبی یہ ٹرانس انڈس ریلوے لائن ویسے تو ضلع میانوالی کے داؤد خیل جنکشن سے پختونخواہ کے ضلع لکی مروت تک جاتی تھی لیکن چوںکہ داؤد خیل جنکشن سے ماڑی انڈس تک کا ٹریک براڈ گیج ہے سو ہم آگے کے ٹریک کا ذکر کریں گے۔ ماڑی سے چھوٹی ریل کالا باغ کا پل پار کر کے کالاباغ اسٹیشن پہنچتی تھی۔

اِس پُل کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔

 جب خیبر پختونخواہ کے جنوبی اضلاع لکی مروت، ٹانک اور بنوں کو ریلوے لائن کے ذریعے پنجاب کے علاقوں سے منسلک کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تو کالاباغ کے مقام پر ایک پُل کی ضرورت محسوس کی گئی جس پر سے ریل گزاری جا سکے۔

نارتھ ویسٹ ریلوے کے افسر ڈبلیو-ڈی کروکشینک کی 1929 میں مرتب شدہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ:

 اس پُل کے لیے 1888 سے سروے شروع کردیے گئے، جب کہ 1919 سے 1924 تک تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے۔ آخرکار 1927 میں اس منصوبے کی منظوری دے کر کام شروع کردیا گیا۔ یہ پل صرف ریل کے گزرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا جس پر پیدل چلنے والوں کے لیے کوئی انتظام نہ تھا۔ اِس نے سندھ کے مشرق میں چوڑے گیج کی لائن کو مغرب میں واقع 2 فٹ 6 انچ کی تنگ لائن سے منسلک کرنا تھا۔ پل کا بنیادی مقصد ریل کو لاہور سے آگے بنوں اور کوہاٹ سے لے کر وزیرستان تک پہنچانا تھا تاکہ برطانوی افواج کو رسد مہیا کی جاسکے۔

 مگر ہماری بدقسمتی کہ 1990 میں ریل کے نظام پر اسی پل کے مقام پر ’’فُل اسٹاپ‘‘ لگا دیا گیا یعنی ماڑی سٹیشن جو عین اس پل کے مشرقی حصے پر واقع ہے وہاں تک ریل کا سفر محدود ہوگیا۔ اس پل کو ٹھیک اس جگہ بنایا گیا ہے جہاں سے دریائے سندھ پہاڑیوں سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے۔ 1929 کے سیلاب کے بعد پل کا ڈیزائن بدلا گیا اور اسے ماڑی انڈس کی طرف سے خشکی پر اور لمبا کر دیا گیا۔

 ماڑی اور کالاباغ کو ملانے والا یہ پل ایوب خان کے دور تک پختونخواہ اور پنجاب کی سرحد پر تھا مگر بعد میں بنوں کی ایک تحصیل عیسیٰ خیل کو میانوالی کے ساتھ ملا دیا گیا اور یہ صوبہ پنجاب کی جھولی میں آگیا۔

جو ٹریک ماڑی سے لکی مروت تک بچھایا گیا تھا اس کی چوڑائی صرف اڑھائی فٹ تھی اور اس پل کی تعمیر بھی ٹریک کے مطابق ہی کی گئی تھی۔ 1995 تک یہاں سے مسافر ٹرین لکی مروت اور بنوں تک جاتی رہی جسے بعد ازاں مستقل طور پر بند کردیا گیا۔

عیسیٰ خیل سے آگے درۂ تنگ کے مقام پر دریائے کرم پر ایک خوب صورت پل بنایا گیا تھا جس سے کچھ آگے پختونخواہ کا بارڈر شروع ہو جاتا ہے۔ 2018 میں جب میں یہاں گیا تو یہ پُل پہاڑوں کے بیچ قدرے بہتر حالت میں موجود تھا اب نجانے اس کا کیا حشر ہوا ہو گا۔

داؤد خیل سے ماڑی انڈس تک کا دس کلومیٹر ٹریک اب بھی فعال ہے جب کہ اس سے آگے کا تمام نیرو گیج ٹریک اکھاڑ دیا گیا ہے۔ اس برانچ لائن پر داؤد خیل جنکشن، ماڑی انڈس، کالاباغ، کمر مشانی، تراگ، عیسیٰ خیل، ارسالا خان اور لکی مروت جنکشن کے اسٹیشن آتے تھے۔ 2019 میں جب کالاباغ کا اسٹیشن ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں وہاں پہنچا تو دل درد سے پھٹ گیا۔ ایک بند پڑی عمارت جس کا رنگ اڑ چکا تھا لیکن اس کے ماتھے پر ہلکے رنگ سے لکھا کالاباغ اب بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ اس اسٹیشن کا علاقہ بچوں کے کھیلنے کا میدان بن چکا ہے لیکن تنگ گیج کی پٹڑی نے کہیں کہیں اپنا وجود برقرار رکھا ہے۔

5) ژوب ویلی ریلوے

یوں تو بلوچستان کی ہر لائن اور اسٹیشن دل چسپ اور عجیب ہے لیکن ژوب وادی ریلوے لائن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر یہ آج بھی چل رہی ہوتی تو بلاشبہہ کسی عجوبے سے کم نہ ہوتی۔

762 ملی میٹر (یعنی 2 فٹ 6 انچ) چوڑائی کے ساتھ یہ پاکستان کا طویل ترین نیروگیج نظام تھا۔ موجودہ شمالی بلوچستان کے اضلاع ژوب، قلعہ عبداللّہ اور پشین کو کوئٹہ سے ملانے والی ژوب ویلی ریلوے 298 کلومیٹر تک پھیلی تھی جس پر بوستان، خانائی، خانوزئی، زرغون، چورمیاں، کان مہتر زئی، مسلم باغ، قلعہ عبداللہ، آلوزئی، شمزئی، مسافر پور اور ژوب کے اسٹیشن واقع تھے۔ یہ اس خطے کا سب سے طویل نیروگیج ٹریک تھا جو جسے 1985 میں بند کردیا۔ 2008 تک اسے مکمل طور پہ اکھاڑ دیا گیا تھا البتہ کہیں کہیں کچھ متروک شدہ اسٹیشن دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ پاکستان کے ان چند ریلوے ٹریکس میں سے تھا جہاں ندی نالے، وادیاں، پہاڑ اور برف باری دیکھی جا سکتی تھی۔

اس ٹریک کے بارے میں مصنف رضا علی عابدی اپنی کتاب ریل کہانی میں لکھتے ہیں:

’’کوئٹہ کے شمال میں بوستان سے ژوب تک تقریباً 296 کلومیٹر لمبی یہ لائن صحیح سلامت ہوتی تو ریلوے کے عجائبات عالم میں شمار ہوتی۔ دنیا میں ڈھائی فٹ چوڑی یہ سب سے لمبی لائن تھی۔ اس کے راستے میں کان مہتر زئی کا اسٹیشن آتا تھا جو سمندر کی سطح سے 7221 فٹ اونچائی پر ہے اور یہ نارتھ ویسٹرن ریلوے کا سب سے اونچا اسٹیشن تھا۔

برصغیر کی تقسیم سے پہلے 499 اَپ سہ پہر کو بوستان سے چلتی تھی اور رات بھر پہاڑوں، دریاؤں اور وادیوں کا سفر طے کر کے اگلی دوپہر سے ذرا پہلے فورٹ سنڈیمن پہنچتی۔ پھر وہاں سے 500 ڈاؤن شام پانچ بجے کے تھوڑی دیر بعد روانہ ہوتی اور اگلی دوپہر بوستان پہنچتی۔ کبھی کبھی برفانی طوفان آ جاتے تو گاڑی راستے میں پھنس جاتی اور ٹرین کا سارا پانی جم جاتا۔ جاڑوں میں ڈبے گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں تھا صرف ریلوے کے افسر اپنے ڈبوں میں تیل کے چولہے جلاتے تھے۔ 1970 میں اس لائن پر اتنی زیادہ برف گری کہ اس کی مثال نہیں ملتی اس وقت بوستان اور ژوب کے درمیان ہفتے میں صرف ایک مسافر گاڑی چلا کرتی تھی۔

برف باری کے دوران ایک ٹرین چلی جا رہی تھی جو کان مہتر زئی کے قریب برف میں دھنس گئی۔ ڈرائیور اور فائرمین نے لاکھ چاہا کہ گاڑی کو نکال لے جائیں مگر بے سود۔ آخر وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے اور مدد کا انتظار کرنے لگے۔ اب تصور کیا جا سکتا ہے کہ اسٹیشن ماسٹروں نے تار بھیجنے کے لیے اپنے قدیم آلات پر کس طرح جھنجھلا کر اپنے سر پٹخے ہوں گے۔ یہ تو معلوم نہیں کہ امداد کا پیغام کوئٹہ یا چمن پہنچ سکا یا نہیں البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ امداد نہ پہنچ سکی۔

 برف میں دھنسی ہوئی ٹرین وہیں کھڑی رہی۔ مسافر نکل کر کسی طرح سڑک تک پہنچے اور جیسے بھی بنا اِدھر اُدھر چلے گئے۔ سنا ہے کہ بوستان سے ایک امدادی انجن چلا تھا وہ بھی کہیں برف میں دھنس کر رہ گیا۔ کہتے ہیں کہ آسمان کو چھونے والی یہ ریلوے لائن کئی روز بعد کھلی تھی۔

 پھر یہ ہوا کہ ماہ مئی 1985 میں ہفتہ وار گاڑی ژوب سے بوستان پہنچی۔ اسے دھویا گیا اور سنوارا گیا کیوںکہ اگلے ہفتے اسے واپس جانا تھا مگر وہ اگلا ہفتہ پھر کبھی نہیں آیا۔ بظاہر چھوٹی سی مگر انجنیئرنگ کی یہ شاہ کار ریلوے لائن اجڑ کر رہ گئی۔ یا یوں کہیے کہ اسے اجڑنے کے لیے قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ آج کے جدید زمانے میں کوئی مصر کے اہرام دوبارہ بنانا چاہے تو نہیں بناسکتا۔ بالکل وہی حال اس بے یارومددگار پڑی ہوئی ریلوے لائن کا ہے۔ اب شاید کوئی اس میں نئی روح پھونک نہ سکے۔ نہ ہوتی تو رنج بھی نہ ہوتا۔ تھی، اور اسے مر جانے دیا گیا۔ کتنا بڑا خسارہ ہوا، کتنا بڑا خسارہ۔

 یہ لائن ہندو باغ سے معدنیات لانے کے لیے ڈالی گئی تھی بعد میں کسی کو اس سے دل چسپی نہیں رہی غالباً اسے ٹھیک ٹھاک رکھنے پر بھاری خرچا آنے لگا، فالتو پرزے ملنے بند ہوگئے، علاقے کے لوگوں نے ٹکٹ خریدنے کی زحمت ترک کردی لہٰذا اس پوری لائن کو زنگ کھانے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ اب اس کے پل گر چکے ہیں پٹریوں کے نیچے سے مٹی بہہ گئی ہے اور خود پٹڑیاں نشیبوں میں جھول رہی ہیں (اب مکمل اکھاڑ لی گئی ہیں)۔‘‘

میٹر گیج

ریلوے ٹریک کا یہ گیج تنگ گیج کی ہی ایک قسم ہے جس میں دو پٹڑیوں کا درمیانی فاصلہ صرف 1 میٹر ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں یہ ٹریک انتہائی کم ہیں لیکن سوئٹزرلینڈ اور اسپین جیسے ملک سیاحتی مقاصد کے لیے انہیں اب بھی استعمال کر رہے ہیں۔ ویتنام، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں میٹر گیج ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس وقت صرف دو میٹر گیج لائنیں ہیں جو صوبہ سندھ میں واقع ہیں، آئیں ان کے بارے میں جانتے ہیں۔

میرپورخاص، نوابشاہ میٹر گیج اور جمڑاؤ – پتھارو لُوپ لائن

میرپورخاص کو جنوب مشرقی سندھ میں ریلوے کے میٹر گیج نیٹ ورک کا مرکز کہا جا سکتا ہے۔ حیدرآباد سے شادی پلی براستہ میرپورخاص جانے والی لائن بھی پہلے میٹر گیج تھی جسے براڈ گیج میں تبدیل کردیا گیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد اس علاقے میں تین میٹر گیج لائنیں تھیں؛

1میرپورخاص تا نواب شاہ جنکشن (شمالی لائن)

2- میرپورخاص تا کھوکھرا پار (مشرقی لائن، جو اب بھی زیراستعمال ہے۔ اسے 2006 میں براڈ گیج میں تبدیل کردیا گیا تھا)۔

3 جمڑاؤ – پتھورو لوپ لائن ( جنوبی لائن)۔

ان میں سے پہلا اور تیسرا ٹریک اب بند کر دیا گیا ہے۔

 تقریباً 130 کلومیٹر طویل میرپورخاص، نواب شاہ میٹر گیج ریلوے لائن میرپورخاص جنکشن سے نوابشاہ جنکشن تک بچھائی گئی تھی جو اس خطے کی چند ایک میٹر لائنوں (ایک ہزار ملی میٹر) میں سے ایک تھی جہاں زیادہ تر بھاپ سے چلنے والے انجن دوڑا کرتے تھے۔ 1939 میں کھولی جانے والی اس لائن کا بنیادی مقصد اس خطے میں کپاس، آم، مرچوں اور تازہ سبزیوں کی ترسیل تھی۔

 اس لائن پر لگ بھگ سترہ اسٹیشن واقع تھے جن میں میرپورخاص جنکشن، خان، نازک آباد، ناد آباد، بوبی روڈ، جھول، سنجھورو، راجر، کھڈرو، شاہ پور چکر، سرور نگر، ٹنڈو سرور، جام صاحب، گل بیگ مری، شفیع آباد اور نواب شاہ جنکشن شامل ہیں۔

مختلف فنی خرابیوں کی وجہ سے اس لائن کو اکیسویں صدی کے اوائل میں ہی بند کردیا گیا تھا۔

میٹر گیج لُوپ لائن کی بات کریں تو 192 کلومیٹر لمبی یہ لائن، میرپورخاص سے تقریباً دس کلومیٹر دور جمڑاؤ کے مقام پر الگ ہوتی تھی اور جنوب میں ایک دائرے کی صورت واپس مرکزی لائن پر پتھورو کے مقام پر مل جاتی تھی۔

 یہ لائن جمڑاؤ، جھلوری، کچیلو، جیمزآباد، ٹنڈو جان محمد، ڈگری، جھڈو، ناؤ کوٹ، بنی سر روڈ، کنری، سمارو روڈ سے ہو کر واپس مرکزی لائن پر واقع پتھورو سے جا ملتی تھی جو اس لوپ لائن کا شرقی کونہ بنتا ہے۔ یوں یہ لائن موجودہ میرپورخاص، تھرپارکر اور عمرکوٹ کے اضلاع سے گزرتی تھی۔ اس ٹریک کو 2005 میں بند کردیا گیا تھا۔

جون 2020 میں چھپنے والے اپنے ایک مضمون میں ’’گیرتھ ڈیوڈ‘‘ اس میٹر گیج لائن کے اپنے سفر کی دل چسپ باتیں بتاتے ہیں جو انہوں نے جون 2005 میں کیا تھا۔ اپنے پڑھنے والوں کے لیے میں اس کا خلاصہ یہاں پیش کرنا چاہوں گا۔

سفر کے پہلے دو دن ہم پرانے برطانوی لوکوموٹیوز پہ کھوکھراپار گئے، تیسرے دن نوابشاہ اور آخری دو دن لوپ لائن پر۔

صحرائے تھر کا زیادہ تر حصہ، جس سے میٹر گیج لائنیں گزرتی ہیں، بھارت میں واقع ہے اور یہ پاکستان کے ساتھ ایک قدرتی سرحد بناتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا صحرائی خطہ ہے۔

میرپورخاص کے ارد گرد ریلوے کی ایک دل چسپ تاریخ ہے، جو کہ انیسویں صدی کے آخر میں کراچی کی ترقی سے متعلق ہے جو برطانیہ اور یورپ سے سمندری مال برداری کے لیے ہندوستان کی قریب ترین بندرگاہ تھی۔

کراچی اور بمبئی کے درمیان براہ راست ریلوے روٹ کی عدم موجودگی میں، ہندوستان کے لیے مال بردار ٹریفک کو مشرق کی طرف جانے سے پہلے لاہور سے شمال میں 750 میل کا سفر کرنا پڑتا تھا، جس سے ہندوستان کے مغربی علاقوں جیسے گجرات، مہاراشٹرا اور راجستھان کے لیے ٹریفک کے پابند ہونے کی صورت میں کراچی کو بمبئی کے لیے کافی نقصان پہنچا۔

برطانوی حکومت حیدرآباد سے شادی پلی تک 55 میل (89 کلومیٹر) براڈ گیج لائن تعمیر کرنے پر کام شروع کیا اور یہ لائن اگست 1892 میں کھولی گئی۔ آٹھ سال بعد (1900) حکومت نے پھر ایک میٹر گیج لائن تعمیر کی جو مشرق کی طرف شادی پلی سے جودھ پور تک جاتی تھی اور ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے کے لیے حیدرآباد سے شادی پلی تک کے ٹریک کو بھی میٹر گیج میں بدل دیا گیا۔

میٹر گیج کی توسیع اگلی چار دہائیوں تک جاری رہی۔ 1909 میں میرپورخاص سے جھڈو تک 50 میل (80 کلومیٹر) لائن بنائی گئی، اور لوپ لائن 1935 میں مکمل ہوئی جب اس راستے کو پتھورو جنکشن تک 65 میل (104 کلومیٹر) تک بڑھایا گیا۔ ایک شمالی لائن 1912 میں کھدرو (50 میل) تک کھلی اور آخر کار 1939 میں نواب شاہ جنکشن تک پہنچ گئی۔

 1965 کی پاک بھارت جنگ سے پہلے کھوکھراپار کے قریب سرحد کے پار میٹر گیج ٹرین کے ذریعے سفر کرنا ممکن تھا، لیکن اس تنازعے کے نتیجے میں سرحد بند ہوگئی اور بھارت نے کھوکھراپار اور موناباؤ کے درمیان چار میل طویل ٹریک کو ختم کردیا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان ریل لنک کو دوبارہ کھولنے کا معاہدہ 2004 میں طے پایا تھا، اور جودھ پور سے موناباؤ روٹ کو براڈ گیج میں تبدیل کرنے کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ میرپور خاص سے کھوکھروپار تک کی لائن کا گیج بھی تبدیل کیا جائے گا۔

میرے اس دورے سے کچھ ہی عرصے پہلے اس لائن کو براڈ گیج میں تبدیل کرنے کا کام شروع ہو چکا تھا۔ بھارتی شہر موناباؤ سے ایک رابطہ ٹریک (جو کہ 1965 میں سرحد بند ہونے پر منقطع ہو گیا تھا) تعمیر کیا گیا اور امیگریشن خدمات فراہم کرنے کے لیے سرحد کے قریب ’زیروپوائنٹ‘ کے نام سے ایک نیا اسٹیشن بنایا گیا۔

اکتالیس سال کے وقفے کے بعد 18 فروری 2006 کو سرحد پار ریل سروس دوبارہ شروع ہوئی، جب تھر ایکسپریس نے کراچی اور جودھ پور کے درمیان ہفتہ وار رابطہ بحال کیا، جس میں کراچی سے کھوکھراپار تک 237 میل (381 کلومیٹر) کا سفر صرف سات گھنٹے سے زیادہ کا تھا۔

میٹر گیج نیٹ ورک کے ختم ہونے سے پہلے یقینی طور پر ہمارا میرپورخاص کا آخری منظم سفر تھا، 2006 تک تمام سرگرمیاں روک دی گئیں، اور 8-2007 میں مون سون کے نقصان سے کسی بھی بحالی کی امیدیں ختم ہو گئیں۔

سب سے تنگ پٹڑی

آپ کو کیا لگا کہ یہیں پر بس ہو گئی؟

اجی رکیے ذرا، ایک اور ٹریک کا احوال بھی سن لیجیے جو محکمۂ ریلوے کی طرف سے نہیں بلکہ نجی ملکیت میں بچھایا گیا تھا اور اسے کوئی انجن نہیں بلکہ گھوڑے کھینچتے تھے۔

بات ہو رہی ہے گھوڑا ٹرین کی جسے محسنِ پنجاب سر گنگا رام نے اپنے ذاتی سرمائے سے بچھایا تھا۔

اگرچہ انیسویں صدی کے اوائل میں پورے مغرب میں گھوڑوں سے چلنے والی ٹرینوں کا رواج تھا مگر آہستہ آہستہ ان کی جگہ بھاپ والے انجنوں نے لے لی۔ لیکن سر گنگا رام کی گھوڑا ٹرین آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک چلتی رہی۔ یہ ٹرین لائل پور کے دو دیہاتوں، بُچیانہ اور گنگا پور کو آپس میں ملاتی تھی۔

جب سر گنگا رام کو برطانوی حکومت نے ان کی خدمات کے عوض نئی آباد کی گئی چناب کالونی (لائل پور) میں پانچ سو ایکڑ اراضی الاٹ کی تو اس پر انہوں نے گنگاپور کے نام سے ایک گاؤں بسایا۔ اسی گاؤں کو تین کلومیٹر دور منڈی بُچیانہ کے اسٹیشن سے ملانے کے لیے 1898 میں دو فٹ کی پٹڑی بچھوائی جو نہ تو براڈ گیج میں آتی ہے نہ ہی میٹر گیج میں۔ یعنی سائز کے لحاظ سے یہ پاکستان کا منفرد ترین ٹریک تھا جو بنیادی طور پر ان کے فارم ہاؤس کے لیے مشینری لانے کی غرض سے بچھایا گیا تھا لیکن عوام کو اس سے بہت فائدہ پہنچا۔

ریلوے کی تاریخ میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد سواری 1998 تک چلتی رہی اور پھر مالی وجوہات کی وجہ سے بند کردی گئی۔

ضلعی حکومت نے اس منصوبے کی تزئین و آرائش کی اور 2009 میں اسے دوبارہ کھولا لیکن محض 5 سال بعد اکتوبر 2014 میں اسے دوبارہ بند کردیا گیا اور یہ آج تک بند ہے۔

اس ٹریک کی پٹڑی اب بھی کہیں نہ کہیں ہماری ازلی بے حسی کے ثبوت کے طور پر موجود ہے۔





Source link