شہباز حکومت نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں اور دیگر غیر ملکیوں کے لیے31مارچ2025ء آخری تاریخ ہے ۔ انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر اِس تاریخ تک پاکستان میں مقیم افغانوں سمیت تمام غیر ملکی از خود نہ نکلے تو انھیں زبردستی ملک سے نکال باہر کیا جائے گا ۔
مقررہ تاریخ گزرنے کے بعد حکومت تمام غیر ملکیوں کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا عندیہ رکھتی ہے ۔ غیر ملکیوں ، خصوصاً غیر قانونی افغانوں ، نے مملکتِ پاکستان اور پاکستانی عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے ۔
پاکستان کی سلامتی ، سیکیورٹی اور معیشت کے منافی اِن غیر قانونی غیر ملکیوں کے اُٹھائے گئے متعدد اور متنوع اقدامات کے پس منظر میں سب پاکستانی بیک زبان کہہ رہے ہیں: Enough is Enoughسادہ الفاظ میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں کی حرکات کے پیش منظر میں پاکستانی بیک زبان یوں کہہ رہے ہیں :بھئی ہماری تو بس ہو گئی ہے ، بہت ہو گئی مہمان نوازی ، اب تم سب بوریا بستر سمیٹو اور ہمارے ملک سے نکل جاؤ، جہاں تمہارے سینگ سماتے ہیں ، چلے جاؤ۔
31مارچ کے آنے میں چند دن ہی رہ گئے ہیں ۔ عید الفطر بھی سر پر ہے ۔ پاکستان کے طاقتور حکام اور ذمے دار اداروں کو اپنے وعدے اور وارننگ کے مطابق، ہر صورت میں،31مارچ کے اعلان کی ڈیڈ لائن پر عمل کرنا ہے۔ حالات جو بھی ہوں اور نام نہاد عالمی دباؤ خواہ کیسا ہی ہو، پاکستان کو 31مارچ کی تاریخ کو حتمی تاریخ سمجھ کر عمل کرنا چاہیے ۔
چارعشرے سے بھی زائد عرصہ قبل سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان نے جذبہ اخوت کے تحت 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو اپنے ہاں اقامت کی اجازت دی تھی ۔ اسلامیانِ پاکستان نے انصار بن کر ان لاکھوں افغانوں کو اپنے ہاں پناہ دی تھی ۔
اِن افغان مہمان مہاجرین نے مگر میزبان پاکستان اور پاکستانیوں کو بدلے میں ایک بھی اچھا صلہ نہیں دیا ہے۔ احسان شناسی کی بجائے اِنھوں نے احسان فراموشی کی ہے۔ حقیقی بات کی جائے تو نام نہاد افغان جہاد پاکستان اور پاکستانیوں کے گلے پڑ گیا ہے۔ اب تو یہ بات کھلے بندوں کہی جارہی ہے کہ افغان جہاد، جہاد تھا ہی نہیں۔ یہ ایک نری جنگ تھی جو سوویت رُوس اور امریکا کے درمیان لڑی گئی۔ہمارے وزیر دفاع اور ممتاز سیاستدان، جناب خواجہ محمد آصف، بار بار ٹی وی شو میں اقرار اور اصرار کے ساتھ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ افغان جہاد کا تصور غلط تھا۔
خاص طور پر پچھلے چند برسوں کے دوران پاکستان میں خونریز دہشت گردی کے متعدد ایسے واقعات و سانحات جنم لے چکے ہیں جن میں افغان شہری اور افغان مہاجرین رنگے ہاتھوں ملوث پائے گئے۔ ہمارے سیکیورٹی ادارے اور میڈیا ان کے خونیں اور خوں آشام چہرے قوم کے سامنے پیش بھی کر چکے ہیں ؛ چنانچہ اب پاکستان میں یہ خیال مستحکم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں مقیم تمام غیر قانونی افغانوں کے نکلنے ہی سے پاکستان مستحکم ہوگا اور ہم کامل امن کا چہرہ دیکھ سکیں گے۔
اس لیے ہم سب پاکستانی 31مارچ کی تاریخ کا چہرہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ کب یہ دن طلوع ہو اور کب ہماری جان اِن غیر قانونی افغانوں سے چھُوٹے۔ افغانوں سمیت جملہ غیر ملکی غیر قانونی مقیم افراد کا پاکستان سے انخلا از بس ضروری ہو چکا ہے ۔ اِن افغان مہاجرین کی لاتعداد قابلِ گرفت حرکات کے سبب حالات اتنے دگرگوں ہو چکے ہیں کہ پاکستانی حکام نے اعلان کر دیا ہے کہ اب31مارچ کو پاکستان میں مقیم ’’افغان سٹیزن کارڈ‘‘ ہولڈرز کو بھی پاکستان سے نکلنا ہوگا ۔
پاکستان نے فیاضی اوراعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہُوئے ایک بار پھر تقریباً تین ماہ کا وقت دیا تھا کہ اِس دوران پاکستان میں مقیم غیر قانونی افغانوں سمیت تمام غیر ملکی نکل جائیں۔ جنوری2025ء میں وزیر اعظم ، جناب شہباز شریف، نے افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو یہ وقت فراہم کیا تھا کہ اِس عرصے میں وہ باوقار انداز میں پاکستان سے نکل جائیں ۔
اب بھی اگر وہ ڈھٹائی سے نہ نکلے تو زبردستی اور گرفتاریوں کا عمل بروئے کار آئے گا ۔ غیر قانونی افغانوں کو پاکستانی حکام کو مزید کسی آزمائش میں ڈالنے سے اعراض اور گریز کرنا چاہیے ۔
بد مزگی اور تلخی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز مقررہ تاریخ تک پاکستان کی سرزمین چھوڑ دیں ۔ اِسی میں اُن کی اور ہماری بہتری ہے ۔ ہمارے آرمی چیف، جنرل عاصم منیر صاحب، بھی اعلان کر چکے ہیں کہ پاکستان کو اب Soft State کی بجائے Hard State بننا ہے ؛ چنانچہ پاکستان کے مبینہ ’’سخت ریاست‘‘ بننے کے بھی تقاضے ہیں کہ پاکستان31مارچ کی ڈیڈ لائن پر عمل کرتے ہُوئے تمام غیر قانونی افغانوں کو ملک سے نکال باہر کرے۔
ایران بھی گذشتہ چند ماہ کے دوران اپنے ہاں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو نکال چکا ہے ۔ جن افغانوں نے از خود ایران سے نکلنے سے انکار کیا ، اُن کے ساتھ سختی برتی گئی۔ اور یوں افغان طالبان حکومت اور ایرانی حکومت کے درمیاں تلخی اور ناراضی بھی ہُوئی ہے ۔ ایران مگر اپنے فیصلے پر ڈٹا رہا ہے ۔ اب تو ڈونلڈ ٹرمپ کے کئی احکامات کے تحت امریکا میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں کو جہاز بھر بھر کر اُن کے آبائی وطنوں میں بھیجا جارہا ہے ۔
ٹرمپ انتظامیہ نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ 24 اپریل 2025ء تک امریکا میں مقیم 5لاکھ غیر قانونی تارکین ِ وطن امریکا سے از خود نکل جائیں ۔یہ تاریخ گزرنے کے بعداُن سے جو سلوک ہوگا، اس کے وہ خود ذمے دار ہوں گے۔ ایسے میں پاکستان میں مقیم غیر قانونی غیر ملکیوں اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کو نکالنے سے کوئی عالمی ادارہ( مثلاً UNCHR) یا نام نہاد انسانی حقوق کی کوئی تنظیم حکومتِ پاکستان کو کیسے روک سکتی ہے؟ ہمارے عمل کو کیسے غیر انسانی قرار دیا جا سکتا ہے ؟ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مناسب موقع ہے کہ پاکستان میں عشروں سے رہائش پذیر افغانوں کو ہر صورت نکال دیا جائے۔
پاکستان میںمقیم کئی افغان اپنے افغان سٹیزن کارڈز میڈیا کو دکھا دکھا کر کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ’’ ہماری یہاں (پاکستان میں) دو نسلیں پیدا ہو کر جوان ہو رہی ہیں ، ہم اب کیسے افغانستان چلے جائیں؟۔‘‘ پاکستان اور پاکستانی اِس بودے اور بے بنیاد موقف کو تسلیم نہیں کرسکتے ۔ کرنا بھی نہیں چاہیے۔ پاکستان نے اِن مبینہ دو افغان مہاجر نسلوں کا کمر توڑ اور پاکستان کی قومی سلامتی کے منافی بوجھ اُٹھانے کا مسلسل ٹھیکہ نہیں اُٹھا رکھا ہے ۔
ایران میں بھی اِن افغان مہاجرین کی دو نسلیں پیدا ہو کر جوان ہُوئیں مگر ایران نے اِس کے باوصف، ہر دباؤ کو مسترد کرتے ہُوئے، اِنہیں ملک سے نکال دیا۔ افغان طالبان حکام نے پاکستان کے ساتھ جو رویہ اختیار کررکھا ہے اور جس طرح اپنے ہاں ٹی ٹی پی کو اپنی سرپرستی میں پاکستان مخالف خونریز کارروائیاں جاری رکھنے کی کھلی چھُوٹ دے رکھی ہے۔
اِس پس منظر میں پاکستانی حکام نے افغان طالبان حکمرانوں کی مذکورہ درخواست مسترد کرکے پاکستانی قوم کے آدرشوں کی ترجمانی کی ہے۔ اب افغان مہاجرین سے مزید کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے ۔ ماضی میں بار بار نرمیاں برت برت کر پاکستان نے اِن کے مہلک نتائج بھی دیکھ لیے ہیں۔اب ہر قسم کی گنجائش بھی ختم ہو چکی ہے اور پاکستانیوں کا صبر بھی ۔