ملک میں مستقل مزاجی اور ٹھوس بنیادوں پر پالیسی سازی کا فقدان تو خیر موجود ہی ہے۔ مگر اس طرح بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ حکومت لٹھ لے کر ایک مخصوص کاروباری شعبہ کے پیچھے پڑ جائے۔ قصداً ایسی مضحکہ خیر پالیساں ترتیب دی جائیں کہ وہ شعبہ بربادی کے دہانے پر جا کھڑا ہو۔ اس میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر رہ جائے۔ پھر زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے چند مصنوعی قسم کی سہولتی اقدامات کرنے کا ارادہ کیا جائے۔ اس کے بعد‘ طویل خاموشی اختیار کر لی جائے۔ یہ کوئی کہانی نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو منصوبہ بندی کے تحت تخت ستم بنایا گیا ہے۔
موجودہ حکومت اور اس سے پہلے اس کے ایک سال کے دورانیہ میں ‘ پاکستان کے سب سے بڑے شعبہ کے متعلق ہر وہ منفی پالیسی اپنائی گئی جس سے رئیل اسٹیٹ شعبہ جمود کا شکار ہو جائے۔ اس کی ترقی بلکہ ملکی ترقی کا پہیہ رک جائے۔ اپنے ملک میں‘ اس زبوں حالی کا جائزہ لینے سے پہلے ‘ ذرا آپ کی توجہ قریبی ممالک کی ان پالیسیوں کی طرف کروانا چاہتا ہوں جو مستحکم ملکی قیادت سے آویزاں ہیں۔
دبئی کی مثال آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ بنیادی طور پر وہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک خوشنما شہر ہے۔ جہاں دنیا کے ہر ملک سے لوگ آ کر سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دبئی کی جوہری ترقی ‘ رئیل اسٹیٹ سکیٹر کی ترویج سے جڑی ہوئی ہے۔ صحرا کے بیچ‘ وہاں کے حکمرانوں نے بین الاقوامی سطح پر ہر ایک کو اعتماد دیا۔ کہ آپ دبئی آئیں ‘ عمارتیں بنائیں‘ شاپنگ مال ترتیب دیں ‘ بلند قامت ہوٹل ایستادہ کریں۔ آپ کے سرمایہ کو بھی تحفظ حاصل ہو گا اور آپ کی بھی ہر طور حفاظت کی جائے گی۔
جب‘ عملی طور پر دبئی کی حکومت نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو ریاستی چھتر چھاؤں مہیا کر دی تو پوری دنیا کے سرمایہ کاروں نے اس شہر کا رخ کر لیا۔ بیس سے تیس سال میں رئیل اسٹیٹ شعبہ نے اتنی محیر العقول ترقی کی کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ وہاں کی متحرک اور قابل حکومت نے سمندر کے اندر بھی اس مہارت سے مہنگی ترین کالونیاں بنا ڈالی‘ جنھیں دیکھ کر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہاں آج بھی لوگ دھڑا دھڑ‘ گھر‘ ولا اور فلیٹ خرید رہے ہیں۔صرف گھروں کے شعبہ کی مارکیٹ کھربوں ڈالر پر محیط ہے۔ اس میں پانچ فیصد سالانہ سے زیادہ شرح نمو ہے۔ دبئی کی جی ڈی پی میں صرف رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا حصہ نو فیصد کے برابر ہے۔ پوری دنیا سے سیاح دبئی دیکھنے آتے ہیں۔
ان کے قیام کے لیے Vacation Homes میں محض کرایہ کا منافع دس سے بارہ فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان کے ہر امیر آدمی نے دبئی میں اس شعبہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ لیکن کیونکہ ہم ’’رئیس المنافقین‘‘ طبع کے لوگ ہیں۔ لہٰذا اس خرید و فروخت کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ ہم دنیا کے نقشہ پر صرف ’’دہشت گردی‘‘ کی قیامت خیز علامت کے علاوہ کچھ بھی نہیں گردانے جاتے۔ ہندوستان کے لوگوں نے دبئی میں سب سے زیادہ رئیل اسٹیٹ خریدی ہوئی ہے۔ دوسرا نمبر چین کا ہے۔ دبئی کے حکمران‘ انسانی نفسیات کو سمجھتے ہیں۔ انھیں علم ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو کیسے تحفظ فراہم کرنا ہے۔
ہمارے جیسے ملک جیسا معاملہ نہیں۔ جہاں ایک سابق چیف جسٹس پاکستان کی معدنیات میں بین الاقوامی سطح کی سرمایہ کاری کا گلا گھونٹ ڈالے۔ اور جب وہ کمپنی ‘ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں اپنا مقدمہ لے کر جائے تو وہاں بیٹھے ہوئے غیر متعصب جج صاحبان کو ببانگ دہل کہنا پڑے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کو بیان الاقوامی معاہدوں کی بابت کچھ بھی قانونی نالج نہیں۔ بہر حال کس کس قیامت پر نوحہ کیا جائے۔ ہماری حکومتیں نہ صرف کاروبار سے عملی طور پر نفرت کرتی ہیں بلکہ حکومت کی تمام مشینری کی کوشش ہوتی ہے کہ خدا نخواستہ کوئی بھی کاروبار کامیاب نہ ہو جائے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر‘ میں موجودہ جمود‘ اس کی عملی نشانی ہے۔
پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کا حجم تمام مشکلات کے باوجود‘ ہر انڈسٹری سے بالا تر ہے۔ اس شعبہ کا حجم 1.8ٹریلین ڈالر ہے۔ ملک میں کوئی بھی حکومت‘ لوگوں کو رہنے کے لیے گھر مہیا نہیں کر سکتی ۔ کسی بھی حکومت کی استطاعت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ پچیس کروڑ لوگوں کی اس بنیادی ضرورت کو ٹھوس بنیادوں پر پورا کیا جائے۔ مگرسوال یہ ہے کہ تقریباً دو ٹریلین ڈالر کی اس سونے کی چڑیا سے اتنا بغض اور کینہ والا سلوک کیوں کیا گیاہے؟ یہ عرض کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ن لیگ جب بھی حکومت میں آتی ہے یا لائی جاتی ہے تو اس کی رئیل اسٹیٹ سکیٹر سے عداوت کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ وہ پورا سیکٹر ان لوگوں کے لیے ’’ دعائیہ کلمات‘‘ ادا کرتا نظر آتا ہے۔ اس شعبہ سے ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کا روز گار منسلک ہے۔
عام طور پر کہا جاتا ہے کہ گھر بنانے کے شعبہ سے چالیس صنعتیں جڑی ہوئی ہیں۔ مگر طالب علم کے تجزیہ کے مطابق‘ یہ نمبر پورا سچ نہیں ہے۔ میری دانست میں پچھتر (75) کے قریب ایسے شعبے ہیں جو رئیل اسٹیٹ سے وابستہ ہیں۔ رئیل اسٹیٹ کی حیثیت اس ملک کے لیے ایک گروتھ انجن کی ہے جو ان گنت ریل کے ڈبوں کا بوجھ اپنے پیچھے زبردستی کھینچ رہا ہے۔ تکلیف وہ سچ یہ ہے کہ اس شعبہ کو سرکاری سطح پر کسی طرح کی کوئی سہولت حاصل نہیں ہے۔
ہمارے موجودہ وزیر خزانہ‘ ہو سکتا ہے کہ اچھے اکانومسٹ ہوں۔ مگر انھیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے متعلق صرف کتابی معلومات ہیں۔ تو پھر مجھے بتایئے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی مشکلات کو کون اور کیونکر حل کر پائے گا۔ ؟ جہاں تک موجودہ وزیراعظم کا تعلق ہے ان کے لیے‘ اس شعبہ کی بحالی کسی قسم کی کوئی ترجیح نہیں۔ وہ بار بار اعلان تو فرما دیتے ہیں کہ جناب بس ایک کنسٹرکشن پیکیج لایا جا رہا ہے۔
اس کے بعد‘ وہ مسودہ ‘ کسی مردہ فائل کا حصہ بن کر کسی بابو کی میز پر تدفین کے لیے پڑا رہتا ہے۔ ویسے موجودہ وزیراعظم کو ریاستی اداروں نے بھی کہا ہے کہ آپ اس اہم ترین شعبہ پر توجہ دیں۔ ریلیف پیکیج کا اعلان کریں۔ بنیادی مسودہ بھی بنا کر ان کے حوالے کیا گیا ہے۔ مگر وہ اسے منظور فرماتے ہیں اور نا اسے نامنظور کرتے ہیں۔ کبھی آئی ایم ایف سے منظوری کا بہانہ تراشہ جاتا ہے اور کبھی اسے کسی ایسے مہاشہ کے سپرد کر دیا جاتا ہے ‘ جو اس شعبہ کی الف بے سے بھی واقف نہیں ۔ نتیجہ یہ کہ ملک کا کھربوں روپے کا مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔ بنے ہوئے گھر کھڑے ہیں۔ گاہک موجود نہیں۔ رئیل اسٹیٹ انڈسٹری کے معتبر لوگ بھی مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
ایک گزارش مزید کرنا چاہتا ہوں ۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ ‘ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ ڈالر کما کر خزانہ بھردیتے ہیں۔ انھیں ہر حکومت ہر وہ سہولت دیتی ہے جو وہ مونہہ سے نکالتے ہیں۔ مگر تمام تر زور لگانے کے باوجود‘ ہماری برآمدات ‘ پندرہ بلین ڈالر سے بڑھ نہیں پاتی۔ یعنی ہر جائز اور ناجائز بات منوانے کے باوجود ‘ ٹیکسٹائل کا شعبہ اتنا کمزور ہے کہ وہ محض پندرہ بلین ڈالر کما سکتا ہے۔ ذرا دوسرے ملکوں سے موازنہ تو فرمایئے۔ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی ایکسپورٹ 57 بلین ڈالر ہے۔ ویت نام میں اس شعبہ کی برآمدات چالیس بلین ڈالر سے اوپر ہیں۔
ہمارا ٹیکسٹائل کا شعبہ بہت پیچھے ہے۔ مگر حکومتی عنایات ہیں کہ ان پر برس رہی ہیں۔ یہی معاملہ چینی اور سیمنٹ بنانے والے کارخانوں کا ہے۔ کیونکہ اس شعبہ میں حکومتی اکابرین خود شامل ہیں۔ لہٰذا یہاں ہر طریقہ کا منافع بخش کھیل‘ بڑی ’’معصومیت‘‘ سے کھیلا جاتا ہے اور آج بھی کھیلا جا رہا ہے۔ سرکار کے لوگ اکثر دعویٰ فرماتے ہیں کہ کالا دھن‘ رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں چھپایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جزوی طور پر یہ بات درست ہو۔ مگر جناب ذرا دوسرے شعبوں کو بھی اسی نظر سے پرکھنے کی کوشش کریں۔ کالا دھن تو اس ملک کے ہر شعبہ میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔ کیا ابھی تمام اخبارات میں یہ خبر نہیں آئی کہ ٹیکسٹائل کمپنیاں ‘ آئی ٹی کی جھوٹی برآمدات ظاہر کر کے ‘ اس کی آڑ میں کوئی اور دھندا کر رہی ہیں۔ وزیراعظم بھی خاموش اور وزیر خزانہ نے بھی چپ رہنے میں عافیت سمجھی۔
ذرا سابقہ حکومت کے تین سال کے دورانیہ کو پرکھیے ۔ پراپرٹی دن دگنی ‘ رات چوگنی ترقی کر رہی تھی۔ روز گار زوروں پر تھا۔ مگر جب سے رجیم چینج ہوئی ہے اس شعبہ کو منفی بنا کر برباد کر دیاگیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ موجودہ حکومت سمجھ داری سے کام لے ۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کی بحالی کے لیے ہر طرح کا ریلیف پیکیج بنائے اور مثبت فیصلہ سازی کرے ۔آخر رئیل اسٹیٹ سکیٹر سے اتنی دشمنی کیوں؟