لاہور:
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے دہشت گردی کے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل ناکامی اور ریاست پالیسیوں پر سوال ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ بنوں میں شہریوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ افطار میں مصروف تھے، یہ دل خراش واقعہ انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مکمل ناکامی اور ریاست پالیسیوں پر سوال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آخر کیوں دو عشروں سے جاری یہ لڑائی اب تک تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے؟ کب تک شہری ان حملوں کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ امن و امان کے لیے مختص کیے گئے اربوں روپے کے وسائل سے اب تک سیکیورٹی کا کوئی مضبوط نظام کیوں تشکیل نہیں دیا جا سکا؟
امیر جماعت نے کہا کہ گزشتہ روز دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خودکش دھماکے میں جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت کئی افراد کی جانیں چلی گئیں، دہشت گرد مرضی کے ٹارگٹ سیٹ کر کے نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے، تازہ ترین واقعہ میں خضدار میں ہونے والے دھماکے میں پانچ افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ان دہشت گردی کے حملوں کی مذمت کرتی ہے اور ساتھ ساتھ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ دہشت گردی کے اسباب پر غور کر کے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پالیسیاں تشکیل دی جائیں کیونکہ فوجی آپریشنز مسائل کا حل نہ پہلے تھے اور نہ اب ان سے امن قائم ہو گا۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان امن کے قیام کے لیے بامعنی مذاکرات کریں، دونوں ممالک کی لڑائی سے عوام کا نقصان اور دشمنوں کا فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کسی صورت بھی استعمال نہیں ہونی چاہیے۔