پاکستان میں بریسٹ کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی درآمد شدہ ڈرگز غیرموثر ہیں ، سائنسدان 

پاکستان میں بریسٹ کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والی درآمد شدہ ڈرگز غیرموثر ہیں ، سائنسدان 



کراچی:

پاکستان میں کینسر اور بالخصوص بریسٹ کینسر کی تشخیص و علاج میں استعمال ہونے والی درآمد شدہ ادویات(کیمو) کے اکثریتی کیسز میں غیر موثر رہنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔  یہ دعوی جامعہ کراچی کے جمیل الرحمن سینٹر فار جینوم ریسرچ میں کی گئی سائنسی تحقیق کی بنیاد پر سائنسدانوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ 

ریسرچ کی بنیاد پر کیے گئے اس دعوے میں کہا گیا ہے کہ بریسٹ کینسر سے متعلق پاکستان کی جینیٹکل پکچر اور اس کی جین ان ممالک کی جین سے یکسر مختلف ہے جہاں سے یہ ادویات درآمد کی جارہی ہیں، مغربی دنیا کے جن ممالک سے بریسٹ کینسر کی ادویات منگوائی جارہی ہیں وہاں ان ادویات کا کلینیکل ٹرائیل بھی انہی ممالک کی جین پر کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان میں ان ادویات کا استعمال یہاں کی جین کے بغیر کسی کلینیکل ٹرائل کے ہورہا ہے۔ 

 یہ بات آئی بی سی سی ایس جامعہ کراچی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور کینسر جینومکس پر فعال ریسرچ ٹیم کے لیڈر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ” ایکسپریس” کو بتائی۔  ڈاکٹر اشتیاق احمد نے بتایا کہ بریسٹ کینسر کے لیے دستیاب تھراپیز میں بہت سے آپشن ہیں لیکن تمام ہی ڈرگز جو پاکستان میں استعمال ہورہی ہیں وہ مغربی ممالک میں بنائی جارہی ہے اور ان ڈرگز کی منظوری کے لیے کلینیکل ٹرائل بھی وہیں ہورہا ہے جبکہ دونوں خطوں میں جینیات میں بہت فرق ہے اور ہماری ریسرچ اسٹڈی  میں بھی یہ فرق واضح طور پر سامنے آیا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ  ہم نے ایک معروف کیمو تھراپی ڈرگ کا پاکستان کی origin cell line اور یورپی origin cell line  دونوں پر ٹیسٹ کیا جس کے بعد پاکستانی بریسٹ کینسر سیل لائن پراس کے نتائج انتہائی low رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کینسر ریٹ اور بالخصوص بریسٹ کینسر ریٹ بہت زیادہ ہے جبکہ ہمارے یہاں پاپولیشن پول بھی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے لہذا کینسر جینیٹکس میں ایک  وسیع پیمانے کے تحقیقی مطالعے( large scall study  ) کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت ہمارے پاس بریسٹ کینسر سے متعلق پاکٹس pockets  میں ڈیٹا ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ  جب بڑے پیمانے پر اس حوالے سے مطالعہ ہوگا تو ہمیں بھی اپنی جینیاتی ضرورت کا معلوم ہوگا اور کہہ سکیں گے کہ ہم کونسی ادویات کو validate  کریں۔ 

اس موقع پر موجود ایک ریسرچر ثمرہ خان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں بریسٹ کینسر میں پاکستان کا ساتواں نمبر ہے جبکہ اموات کی شرح میں پاکستان 5ویں نمبر پر ہے،  پاکستان میں بریسٹ کینسر زیادہ تر 30 سے 45 سال تک کی خواتین میں رپورٹ ہورہا ہے، ان کے لیے ٹریٹمنٹ گائیڈ لائن اور ڈیٹا یورپی ممالک کا استعمال ہورہا ہے جبکہ بریسٹ کینسر کی قسم  BRCA 1 اور BRCA 2  پاکستان اور یورپی کا جین انتہائی جدا ہے۔

اس موقع پر ریسرچ میں مصروف ٹیم کے باقی محقیقین ڈاکٹر ایم شکیل، وردہ قریشی اور حمیرہ سلیم کا کہنا تھا کہ جن مریضوں میں کیمو کا رسپانس آرہا ہے اس میں مرض اپنی ممکنہ میعاد سے پہلے ہی پلٹ کر آرہا ہے۔ 

واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت (WHO ) کے ماتحت کام کرنے والے ادارے گلوبل کینسر آبزرویٹری کے مطابق دنیا میں موجود کینسر کی اقسام میں سے 23 فیصد مریض بریسٹ کینسر کے ہیں۔

جنوبی ایشیا میں یہ تعداد 20 فیصد جبکہ صرف پاکستان میں یہ تعداد 31 فیصد ہیں یعنی پاکستان میں کینسر میں مبتلا مریضوں میں سے 31 فیصد وہ خواتین ہیں جو بریسٹ کینسر میں مبتلا ہیں تاہم آبزرویٹری کے مطابق یہ ڈیٹا صرف صوبہ پنجاب سے لیا گیا ہے باقی تین صوبے اس میں شامل نہیں ہیں ۔





Source link