نو اگست کو وادی تیراہ میں فورسز اور خوارج کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے دوران زخمی ہونے والے لیفٹیننٹ عزیر محمود ملک بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ انھوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے چار خوارج کو واصل جہنم کیا تھا جب کہ دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ فتنہ الخوارج پاکستان اور دنیا کے لیے خطرہ ہے۔ افغان حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی پر قابو پائے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا۔
پاکستان کے لیے اِس وقت دہشت گردی ایک سنگین مسئلہ بن چُکا ہے اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ کارروائیاں پڑوسی مُلک، افغانستان میں پناہ لینے والے جنگ جُوگروپس کی طرف سے ہو رہی ہیں، جن میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز، عام شہریوں اور اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان نے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی دہشت گرد گروپ کو برداشت نہیں کرے گا۔ بنیادی طور پر آج بھی یہ نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹی ٹی پی اور افغان طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ ان کا نظریہ ایک ہے اور وہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کئی دہائیوں سے لڑ رہے ہیں، وہ کیوں کر ایک دوسرے کے خلاف کارروائیاں کریں گے؟ ہماری ریاست کو یہی نکتہ سمجھنے میں 40 برس لگ گئے اور آج کہیں جا کر یہ بات کی جانے لگی ہے، ورنہ توکابل پر طالبان کے قبضے تک اچھے اور برے طالبان کی نام نہاد اصطلاحات مرکزی میڈیا پر اتنی استعمال کی گئیں کہ عام پاکستانیوں کی ایک تعداد افغان طالبان کو اپنا ہیرو سمجھنے لگی۔
اس میں قصور ہمارے سیاسی رہنماؤں کا بھی ہے جنھوں نے طالبان کی فتح کو غلامی کی زنجیریں توڑنے جیسا قرار دیا۔ ہم جیسے لوگ اس وقت چیختے چلاتے رہے کہ دنیا میں افغان طالبان کو تسلیم کرنے کا مقدمہ لڑنے کے بجائے ہمیں خود افغان طالبان کے ساتھ بیٹھ کر یہ طے کرنا چاہیے کہ اب کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ کیا کیا جائے، لیکن شاید ہمیں یقین ہوچلا تھا کہ افغانستان پر قبضے کے بعد دنیا ہمارے قدموں میں آ گرے گی کہ طالبان سے درخواست کی جائے کہ ان سے سفارتی تعلقات قائم کیے جائیں کیونکہ طالبان اب بدل چکے ہیں۔ وہ بدل چکے ہیں لیکن اس لحاظ سے کہ پہلے دنیا افغان طالبان کو ہماری ’ اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘ کہتی تھی لیکن آج ٹی ٹی پی، افغان طالبان کی ’اسٹرٹیجک ڈیپتھ‘ بن چکی ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ دہشت گرد اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے رہتے ہیں، شروع شروع میں انھوں نے مدارس کے غریب طلباء کو اپنا ہدف بنایا، خاص طور پران مدارس میں طلباء پر توجہ دی گئی جو غریب علاقوں میں واقع ہیں اور بہت سے والدین اپنے بچوں کو اِن مدارس میں اِس لیے داخل کرا دیتے ہیں کہ انھیں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روٹی اورکپڑے کی سہولت بھی مفت حاصل ہو جائے گی، ایسے غریب طلباء کو معمولی رقم کا لالچ دے کر گمراہ کیا جا سکتا ہے۔
اِس لیے ان پر توجہ مرکوز رکھی گئی جب یہ بات واضح ہوگئی کہ کچھ مدارس کے چند طلبہ دہشت گردی میں ملوث ہیں تو سیکیورٹی حکام نے تفتیش کا سلسلہ وسیع کردیا اور بعض ایسے مدرسے بھی چھاپوں کی زد میں آ گئے جن کا کوئی تعلق دہشت گردی سے ثابت نہ ہوا۔ تاہم اِس سارے عرصے میں دینی مدارس ہی مرکزِ نگاہ ٹھہرے۔ دہشت گردوں نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ اپنے حلیے کی وجہ سے جلد ہی نگاہوں میں آجاتے ہیں تو انھوں نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی اور کلین شیو دہشت گرد بھی سامنے آنے لگے۔
اب آگے بڑھ کر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کو دہشت گردی کے نیٹ ورک میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ عسکری قیادت کی طرف سے خبردار کیا جاچکا ہے کہ دشمن کی نگاہ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں پر ہے، جنھیں وہ برین واشنگ کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، جس کے ثبوت بھی مل رہے ہیں، اِس لیے پورے ملک میں ایک کریش پروگرام کے تحت تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے اِس منظم حملے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت افغان جنگ دہشت گردی کی لہر کے لیے ایک واٹر شیڈ تھا۔ افغان جہاد کے بطن سے عسکریت پسند گروہوں کی بہتات نکلی اور دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گئی۔ افغان جہاد نے دہشت گردی کو تین الگ الگ شکلیں دی۔ پہلا، پراکسی وار اسی طرح دوسرا فرقہ وارانہ عسکریت پسندی جب کہ تیسری شکل عالمی جہادی تحریک کے ابھرنے کی صورت میں تھا۔ 15 اگست 2021 کی شب امریکی فوج کے افغانستان سے خاموش انخلاء اور کابل پر افغان طالبان کے قبضہ کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی لہر نے پھر زور پکڑا لیکن دہشت گردی کا یہ عمل ماضی سے زیادہ اس لیے بھی خطرناک ثابت ہوا، کیونکہ دہشت گرد پاکستان میں کارروائیوں کے لیے جدید امریکی اسلحے سے لیس ہوکر حملہ آور ہو رہے تھے یہ اسلحہ کابل چھوڑتے وقت امریکی فوج لاکھوں کی تعداد میں کابل کے بگرام بیس پر چھوڑ گئی تھی۔
دہشت گردی کی اس لہر میں پاکستان میں سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے چینی انجینئروں اور ورکروں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس پر چین میں شدید اضطراب پایا جانا فطری بات تھی۔ اس حوالے سے پاکستان میں دہشت گردی اور اس میں چینی ورکروں کو درپیش خطرات کے پیش نظر پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے تحفظات اس لیے بھی اہم تھے کہ سی پیک پروجیکٹ دہشت گردوں کا خصوصی ہدف تھا اور ہے۔
ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو شدت پسندوں بشمول نیک محمد، بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، ملا فضل اللہ اور خالد سجنا سمیت دیگر شدت پسندوں کو امریکی ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا گیا، یہ لوگ فوجی کارروائی سے بچ نکلتے تھے۔ فوج کا کام صرف لڑنا ہوتا ہے، لٰہذا کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن سے پہلے وہاں کے عوام کا اعتماد حاصل کرنا سول حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ ماضی میں کامیاب آپریشن کی بڑی وجہ سہ جہتی پالیسی ہوتی تھی، یعنی کلیئر، ہولڈ اینڈ ٹرانسفر اس کے ذریعے لوگوں کا اعتماد حاصل کیا جاتا تھا۔ ماضی میں ہونے والے آپریشنز کے بعد وہاں حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے شدت پسندوں کو دوبارہ سر اُٹھانے کا موقع ملا ۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی تائید و حمایت حاصل ہے۔ رپورٹ اسلام آباد کے اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے کہ انھیں پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ سب پر عیاں ہے پاکستان میں حالیہ دہشت گردی لہر کو افغانستان کی حمایت حاصل ہے، چند اہم واقعات میں سے ایک 26 مارچ کو خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کے علاقے بشام میں چینی شہریوں کی بس پر ہونے والا خود کش دھماکا تھا، جس میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کرنے والے پانچ چینی انجینئرز جان سے چلے گئے تھے کہ پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث11 عسکریت پسندوں کو مئی میں گرفتارکیا تھا، 16 مارچ 2024 کو میر علی حملے کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشت گردوں سے ملتے ہیں۔
افغان طالبان کی مدد اور جدید اسلحے کی فراہمی سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ نظر آیا، دہشت گردی کے بڑھتے واقعات میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے واضح شواہد ہیں جب کہ 12 جولائی 2023 کو ژوب گیریژن پر حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ثبوت ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں کہا گیا کہ آج سے 10 سال پہلے تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہ ریاست کے خلاف متحرک تھے مگر اب طالبان کے ساتھ داعش، خراسان اور بلوچستان لبریشن آرمی کی کارروائیاں نہ صرف یہ کہ مسلسل بڑھ رہی ہیں بلکہ ملک میں 82 فیصد حملوں کے ذمے دار یہ تینوں گروہ ہیں۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کا بیج کیسے بویا گیا اور اس کی آبیاری کس طرح سے ہوئی جس کی وجہ سے پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار ہے، معیشت ادھار پر چل رہی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری قوم کا مقدر بن چکی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اندرون ملک بلا کم و کاست دہشت گردوں اور ان کی نرسریوں کا صفایا کردیں۔ یقیناً بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور اس کی انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان کے معاملات میں مداخلت کرتی چلی آ رہی ہیں، تاہم بھارتی اور افغان دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ بنیادی بات یہ بھی ہے کہ جب تک حکومت، اپوزیشن اور علمائے کرام کو ان معاملات پر ایک صفحے پر نہیں لایا جائے گا، دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کے مترادف ہی رہے گی۔
اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجوں میں ایک سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی ہے جس سے ہر صورت نمٹنا ہوگا، اس کے لیے اگر ’’آپریشن عزم استحکام‘‘ کرنا پڑتا ہے توکیا جائے، ضرورت پڑتی ہے تو بار بار کیا جائے، لیکن پاکستان کو دہشت گردی کے ناسور سے ہر صورت پاک کیا جائے اور ساتھ ہی یہ عہد بھی کیا جائے کہ پاکستان آیندہ کسی کی بھی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔