شائستہ اکرام اللہ کے بارے میں پچھلے کالم میں جو باتیں لکھی ہیں اُس وقت بنگلہ دیش اُس دوراہے پر نہیں کھڑا تھا کہ جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کو چند روز پہلے وزارت عظمیٰ چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی اور ان کے والد بنگلہ بندھو شیخ مجیب کے مجسمے کرینوں سے گرائے جانے لگے۔ شائستہ حیات ہوتیں تو ان کے لیے یہ بہت صدمے کی بات ہوتی، بنگلہ دیش بننے کے بعد انھوں نے نئی حکومت کو مبارک باد تو دی لیکن وہ اس پورے معاملے سے خوش نہ تھیں اور اب گزشتہ برسوں میں بنگلہ دیش جس انتشار سے گزرا وہ حالات ان کے لیے دل خوش کن نہ ہوتے۔
شادی شدہ زندگی ہر لڑکی کی زندگی تبدیل کر دیتی ہے، شائستہ کی زندگی بھی یکسر تبدیل ہو گئی۔ انھوں نے سینٹرل یوپی میں ایک خوش گوار زندگی گزاری اور اس کے بعد جب اکرام صاحب کا تبادلہ انگلستان ہو گیا تو اکرام اللہ کی ملازمت کے سلسلے میں انگلستان میں رہیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب برطانوی اقتدار کا سورج غروب ہو رہا تھا اور شائستہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ انگلستان میں مقیم تھیں۔ اسی دوران انھوں نے اپنے والد کے مشورے سے پی ایچ ڈی کا آغاز کر دیا۔
حالانکہ ان کی خواہش یہ تھی کہ وہ گریجویشن کریں۔ ان کے والد کا کہنا تھا کہ یہاں انھیں وہ سہولتیں حاصل نہیں ہوں گی جو انھیں ہندوستان میں تھیں، وہ اُردو لٹریچر میں پی ایچ ڈی کرنے پر جٹ گئیں، جس طرح ان کی انگریزی تعلیم پر اعتراضات ہوئے تھے ،اب سسرال اور مائیکہ سے خط آنے لگے کہ انھیں اب تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے، کیونکہ وہ ایک ’’سر‘ ‘ کی بیٹی اور بھتیجی ہیں۔ ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بالکل نہیں آتا تھا کہ عورتوں کو شادی کے بعد تعلیم حاصل کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ 1941 میں ان کی زندگی بدل کر رہ گئی جب وہ اپنے والد کے ساتھ جناح صاحب سے ملنے گئیں۔ اس کے بعد انھوں نے مسلم لیگ کی مختلف انجمنوں میں حصہ لینا شروع کر دیا اور اس سے پہلے وہ مسلم لیگ کی دو آنے کی ممبر بن چکی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ مس جناح میں آدمی کو پہچاننے اور اس کے کردار کو جانچنے کا بہت مادہ تھا اور انھیں خوشامد سے دھوکا نہیں دیا جاسکتا تھا۔ یہ ان کے لیے انتہائی فخر کی بات تھی کہ ان کی دوستی کا شرف حاصل ہوا اور آخر وقت تک حاصل رہا۔
ان کی اصول پسندی کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حسین شہید سہروردی دلّی میں ان کے گھر آئے تو انھوں نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے لیے اپنے باغ میں ایک خیمہ لگوا دیا۔ اب انھیں پریشانی اس بات کی تھی کہ گھر میں تواضع کے لیے اتنا سامان موجود نہیں تھا۔ انھوں نے گھر آ کر ملازم سے پوچھا کہ ’’بھئی! چائے کی پتی اور شکر تو بہ مشکل دس بارہ لوگوں کے لیے تھی لیکن تم نے پچاس آدمیوں کو چائے کیسے پلوا دی؟‘‘ وہ لکھتی ہیں کہ ملازم نے ہنس کر کہا کہ’’ میں پڑوس سے سامان مانگ لایا ‘‘جس پر انھوں نے اس سے پوچھا کہ ’’ہم یہ سامان انھیں کیسے واپس کریں گے؟ اس لیے کہ یہ راشننگ کا زمانہ ہے اور میں چور بازار سے سامان نہیں خریدتی۔‘‘ ملازم نے تعجب سے پوچھا کہ ’’تو پھر کیا گھر آئے مہمانوں کو ایسے ہی رخصت کر دیتے؟‘‘ یہ تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ انھیں ماننا پڑا کہ یہ ان کی تہذیب کے منافی ہوتا۔
انھیں مشاعروں اور قوالیوں سے گہری دلچسپی تھی اور بقول ان کے ایک بار کا ذکر ہے کہ جوش صاحب کو سننے کے لیے انھیں بہت سا پٹرول پھونکنا پڑا تھا۔ جب بھی وہ ہندوستان میں ہوتیں تو کبھی بھی قوالی یا مشاعرے کے پروگرام کو نہ چھوڑتیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بیشتر بڑے مشاعرے اور قوالیاں دلّی میں ہوتی تھیں۔ پاکستان کے مطالبے میں ابھی سرحدوں کا تعین نہیں ہوا تھا اور شائستہ صاحبہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ دلّی پاکستان میں شامل نہیں ہوگی۔
ان کو جب یہ اندازہ ہوا کہ دلّی پاکستان میں شامل نہیں ہوگی تو ان کو گہرا صدمہ پہنچا۔ یوں بھی 1946 اور 1947 کا سال ان کے لیے ذاتی صدمے کا سبب تھا۔ ان کے والد شدید بیمار تھے تو وہ ان کے پاس کلکتہ گئیں جہاں سخت خون خرابہ ہو رہا تھا۔ ہزاروں آدمی مارے گئے اور ہزاروں بے خانماں ہوئے۔ ان کے والد بستر مرگ پر تھے لیکن انھوں نے شائستہ صا حبہ کو ہدایت کی کہ وہ ریلیف کا کام کریں اور لوگوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام کریں۔ یہ فسادات چار دن تک ہوتے رہے لیکن اس کا اثر مہینوں اور برسوں رہا۔
ان کے والد کا انتقال ستمبر 1946 میں ہوا۔ اور پاکستان 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ یہ تمام مدت ان کے لیے شدید ابتلا اور پریشانیوں سے بھرپور تھی۔ انھوں نے فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ آئی این اے (انڈین نیشنل آرمی) کی جدوجہد کو یوں بیان کرتی ہیں کہ شاید اب کسی کو یاد بھی نہ ہو کہ آزادی کی جدوجہد میں آئی این اے کا کتنا زبردست حصہ تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میں نے آئی این اے کے تین افسران کے خلاف مقدمہ چلتے دیکھا جو لال قلعے میں چل رہا تھا۔ آخر میں بھولا بھائی ڈیسائی ملزمان کی پیروی کرنے آئے تو انھوں نے کہا : ’’اگر غلامی کی زنجیریں توڑنا غداری ہے تو یہ لوگ بے شک غدار ہیں، اگر اپنے ملک کو غلامی کی لعنت سے چھڑانے کی کوشش غداری ہے تو یہ لوگ غدار ہیں، اگر اپنے ملک کو غلامی سے نجات دلانے کی کوشش غداری ہے تو یہ لوگ غدار ہیں، اس لحاظ سے ہم سب غدار ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک شخص ہندوستان کا ہر مرد، عورت اور بچہ اس کے لیے کوشاں ہے۔‘‘
شائستہ صاحبہ 1946 میں ہندوستان کی قانون ساز اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں لیکن پارٹی کی ہدایت پر جلد ہی انھوں نے اس اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔فروری 1948 میں وہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی رکن ہوئیں۔ 79 اراکین کی اسمبلی میں صرف دو خواتین تھیں جن میں سے ایک بیگم جہاں آراء شاہنواز تھیں اور دوسری بیگم شائستہ اکرام اللہ۔ وہ لگ بھگ سات برس تک رکن اسمبلی کے طور پر اپنے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔
انھوں نے 24 فروری1948 سے اسمبلی میں اپنی اختلاف رائے کو کھل کر بیان کیا اور اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کا مباحثہ رہا۔ اسمبلی میں ان کی پہلی تقریر مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان اراکین کی حمایت میں تھی جنھوں نے تجویز رکھی تھی کہ آئین ساز اسمبلی کا اجلاس ایک مرتبہ کراچی اور ایک مرتبہ ڈھاکا میں ہو، تاکہ دونوں طرف کے لوگوں کو آئین سازی اور قانون سازی میں شراکت داری کا احساس ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈھاکا ایک بڑا شہر ہے اگر مغربی پاکستان کے نمایندے سال میں ایک مرتبہ وہاں جائیں گے تو ان کو سفر میں بس اتنی ہی زحمت ہوگی جتنی مشرقی پاکستان والوں کو دارالحکومت کراچی کے سفر میں ہوتی ہے۔ 24 فروری 1948 کو انھوں نے وزیر اعظم اور دیگر اراکین اسمبلی کے سامنے یہ جملہ کہا کہ ’’مشرقی پاکستانیوں میں یہ احساس پرورش پا رہا ہے کہ مشرقی پاکستان کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کی ’’نو آبادی‘‘ کا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ہمیں اس احساس کو کھرچ پھینکنے کے لیے حتی المقدور سب کچھ کرنا چاہیے۔‘‘
ان کی یہ اختلافی تقریر چٹکیوں میں اُڑا دی گئی اور وزیر اعظم نے یہ کہہ کر بات تمام کی کہ ’’مجھے معلوم ہے کہ عورتوں کو مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا۔‘‘ ان کی مراد سال میں ایک مرتبہ اسمبلی کی کارروائی ڈھاکا میں کرنے کی مشکلات سے تھی۔ 24 فروری 1948 کا دن تمام ہوا لیکن شائستہ کا یہ جملہ اٹل ثابت ہوا کہ ’’مشرقی پاکستانیوں کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ مغربی پاکستان کی نو آبادی جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔‘‘
وزیر اعظم کا یہ جملہ درست تھا کہ ’’عورتوں کو مشکلات کا اندازہ نہیں ہوتا‘‘ لیکن وہ پاکستانی طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والی 33 برس کی ایک عورت کی نگاہیں پاکستان کے سیاسی افق پر ابھرنے والے اس طوفان کو دیکھ رہی تھیں جو دسمبر 1971 میں متحدہ پاکستان کا سفینہ ڈ