title>Urdu News - Latest live Breaking News updates today in Urdu, Livestream & online Videos - 092 News Urdu قومی حکومت کا فارمولہ ، کتنا قابل عمل؟ – 092 News

قومی حکومت کا فارمولہ ، کتنا قابل عمل؟

قومی حکومت کا فارمولہ ، کتنا قابل عمل؟


قومی حکومت کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔کچھ سیاسی رہنما آج کل قومی حکومت کا پرانا آئیڈیا دوبارہ پیش کر رہے ہیں۔یہ پرانی شراب نئی بوتل کی طرح ہے کؤنکہ یہ آئیڈیا سیکڑوں دفعہ پیش ہو کر ناکام ہو چکا ہے۔ لیکن ہر بار نئی آب وتاب اور شد ومد سے پیش کیا جاتا ہے۔ہر بار یہی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان بہت مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے اور قومی یکجہتی صرف اور صرف قومی حکومت سے ہی آسکتی ہے۔ یہی بتایا جاتا ہے کہ جب ایک متفقہ حکومت بن جائے گی تو سیاسی لڑائی ختم ہو جائے گی۔ سب اکٹھے کام کریں گے، کوئی کسی کی مخالفت نہیں کرے گا۔

لیکن یہ کبھی قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ آپ خود دیکھیں سب سیاسی جماعتیں کسی ایک وزیر اعظم پر کیسے متفق ہو سکتی ہیں۔ ہر جماعت کا لیڈر خود وزیر اعظم بننے کا خواہش مند ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں وزیر اعظم بننے کا ایک امیدوار کم از کم موجود ہے۔ میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی بات کر رہا ہوں۔ پھر آپ سب کو کیسے ایک وزیر اعظم کے ماتحت کام کرنے پر منائیں گے۔ کیا ملک میں کوئی ایسی شخصیت موجود ہے جس کو وزیر اعظم بنانے پر سب سیاسی جماعتیں متفق ہوں۔ جس پر اتفاق رائے موجود ہو۔ ملک میں نہ ایسی کوئی شخصیت موجود ہے اور نہ ہی ہو سکتی ہے۔اس لیے قومی حکومت کے آئیڈیا کی ناکامی کا سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ سب کا ایک وزیر اعظم پر متفق ہونا ممکن نہیں ہے۔ باقی سب باتیں بعد کی ہیں۔

اسی طرح حکومت میں کس جماعت کا کتنا حصہ ہوگا۔ ایک حکومت میں اہم وزارتیں چند ہی ہوتی ہیں۔ یہ اہم وزارتیں کس کس جماعت کو مل سکتی ہیں۔ پھر اگر آپ نے سیاسی جماعتوں میں ہی وزارتوں کی بندربانٹ کرنی ہے تو پھر یہ قومی حکومت ہوگی یا اتحادی حکومت ہو گی۔ جتنی زیادہ سیاسی جماعتیں شریک ہونگی اتنی زیادہ جوتؤں میں دال بٹے گی۔ پھر جب بہت زیادہ سیاسی جماعتیںحکومت میں شامل ہونگی تو کیا ان میں روز حکومتی امور پر اختلاف نہیں ہوگا۔ کبھی کوئی ناراض ہو جائے گا کبھی کوئی ناراض ہوجائے گا۔ کبھی کوئی کہے گا کہ میری بات نہیں مانی گئی کبھی کوئی کہے گا کہ میری بات نہیں مانی گئی۔ کبھی ایک سیاسی جماعت نکلنے کی دھمکی لگائے گی کبھی دوسری جماعت نکلنے کی دھمکی لگائے گی۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اتحادی حکومتیں کمزور ہوتی ہیں۔ وہ کسی مضبوط اپوزیشن کی وجہ سے کمزور نہیں سمجھی جاتیں بلکہ اتحادی حکومت اتحادؤں کی ناراضگی کی وجہ سے کمزور سمجھی جاتی ہے۔ کبھی کوئی ناراض کبھی کوئی ناراض۔ آج کل کی اتحادی حکومت کو بھی یہی مسائل ہیں۔ پھر قومی حکومت کو یہ مسائل کؤں نہیں ہوں گے۔ وہ تو زیادہ ایسے مسائل کا شکار ہو گی۔

اب ایک اور سوال جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ اگر کوئی انجانی طاقت سب کو اکٹھا بھی کر لے اور اکٹھے چلنے پر مجبور کر لے جو بظاہر نا ممکن نظر آتا ہے۔ سیاسی جماعتیں کؤں اس حکومت کے لیے اپنی سیاست ختم کریں گی۔ یہ قومی حکومت ایک خاص مدت کے لیے ہوگی جس کے بعد پھر الیکشن ہونے ہی ہونگے۔ جب بعد میں پھر الیکشن ہی کروانے ہیں تو سیاسی جماعتیں ان انتخابات کے لیے اپنی سیاست کؤں خراب کریں گی۔ جب کہ انھیں مکمل حکومت بھی نہیں ملنی، ایک حصہ ملنا ہے، اس کی خاطر کؤں سیاسی قربانی دی جائے۔ اس لیے یہ خیال ہے کہ صرف اسٹبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو ایک قومی حکومت پر قائل کر سکتی ہے۔ لیکن کیا آج کی اسٹبلشمنٹ میں اتنی طاقت ہے کہ سب کو ایک چھتری تلے جمع کر لے۔ کیا اسٹبلشمنٹ سب سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی سیاست ختم کر کے ایک محدود مدت کی قومی حکومت میں شامل ہونے پر مجبور کر سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں۔ آج کیا یہ کبھی ممکن نہیں تھا۔ سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں۔ آمریت میں بھی ممکن نہیں۔

قومی حکومت کن جماعتوں پر مشتمل بنائی جائے گی۔ ملک میں تو سیکڑوں سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں۔انتخابات میں بھی درجنوں سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں۔ کیا سب کو قومی حکومت میں شامل کیا جائے گا۔ یہ تو بہت مشکل ہو جائے گا۔ کیا پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو قومی حکومت میں شامل کیا جائے گا۔ بہرحال یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ قومی حکومت موجودہ جمہوری نظام کے تحت ہی بنائی جائے گی یا قومی حکومت کے لیے جمہوری حکومت کا بستر گول کیا جائے گا۔ کیا قومی حکومت آئین کے اندر رہتے ہوئے بنائی جائے گی یا قومی حکومت آئین سے باہر نکل کر بنائی جائے گی۔ اگر آئین سے باہر نکل کر بنائی جائے گی تو اس کو کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہوگا، یہ آمریت کی ہی ایک شکل ہوگی۔ اس کے لیے کنگز پارٹی تو بنائی جا سکتی ہے ۔ لیکن سب سیاسی جماعتوں کو ایک غیر آئینی قومی حکومت پر قائل نہیں کیا جا سکتا۔

اب اگر قومی حکومت آئین کے تحت پارلیمان کے اندر رہ کر بنائی جائے گی۔ اس کی کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی۔ ہم کہہ رہے ہیں کہ پارلیمان میں شامل سب سیاسی جماعتیں اور آزاد ایک ہی حکومت میں شامل ہو جائیں ۔ پھر جب سب حکومتی بنچوں میں بیٹھ جائیں گے تو اپوزیشن کون ہوگا۔ اس کا مطلب کہ قومی حکومت کی کوئی اپوزیشن نہیں ہوگی۔ پارلیمان کی سب سیاسی جماعتیں اس میں شامل ہونگی۔سب حکومت میں ہونگے۔ کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔ کیا یہ بھی جمہوریت کے بنیادی فلسفہ کی نفی نہیں ہو جائے گی۔کوئی اپوزیشن نہیں، کوئی تنقید نہیں۔

پھر کیا ہوگا، سب اچھا ہو جائے گا۔ نہیں جو جماعتیں پارلیمان میں نہیں ہونگی وہ اپوزیشن کی جماعتیں بن جائیں گی۔ جب پارلیمان میں اپوزیشن نہیں ہوگی تو سڑکوں پر اپوزیشن ہوگی۔ آج بھی ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو شاید پارلیمان میں تو نہیں پہنچ سکتیں۔ لیکن ان کی سڑکوں پر احتجاج کرنے کی طاقت پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہے۔ ان کا کیا کیا جائے گا۔ وہ سڑکوں پر احتجاج نہیں کریں گی۔ تو خاموش گھر میں کؤں بیٹھیں گی۔ وہ حکومت میں بھی نہیں ہونگی اور انھیں سیاست کرنے کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ ٹیکنوکریٹ قومی حکومت بنائی جائے۔ سیاسی جماعتیں کؤں ٹیکنو کریٹس کا سیاسی بوجھ اٹھائیں گے۔ ویسے تو نگران حکومتیں اب ٹیکنوکریٹ حکومتیں ہی بن جاتی ہیں۔ لیکن ان کی بھی کامیابی نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں انھیں متنازعہ بنا دیتی ہیں۔ اس لیے قومی حکومت ایک ناقابل عمل آئیڈیا، یہ ایک افسانوی خیال ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ایسا جمہوریت میں ممکن نہی۔ایسا آمریت میں بھی ممکن نہیں۔ اب تو بادشاہتوں میں بھی ایسا ممکن نہیں۔ یہ بنیادی سیاسی فلسفہ کی نفی ہے۔





Source link