بہت تیزی سے بدل رہا ہے سیاسی منظرنامہ۔ یہ ملک استحکام چاہتا ہے، مگرجو عدم استحکام، لاقانونیت، فرقہ واریت پھیلی ہے،اس سے ہماری معیشت پر یقینا منفی اثرات مرتب ہوئے اور ہم بیرونی قرضوں میں جکڑتے گئے۔ ان قرضوں اور عدم استحکام کا شکار ہم اس لیے ہوئے کہ ہم نے آئین کا دامن چھوڑدیا، اس راستے سے ہم بھٹک گئے۔ بار بارآئین شکنی کی گئی۔ اس ملک کی جمہوریت پر بار بار شبِ خون مارے گئے۔
ہم نے اپنے غیرآئینی اقتدارکو بیانیہ دیا اور مذہب میں پناہ لی۔ اس کی تشریح ہم نے اس طرح سے کی کہ تشدد پھیلا۔ اس لیے کہ مسئلے کا حل ایسا نہیں ہوسکتا، جو آئین سے ماورا ہو، لیکن اس وقت بھی جوکچھ ہو رہا ہے، وہ کیا آئین کے مطابق ہے؟ اعلیٰ عدالتیں آئین کی تشریح کرنے کے اختیارکو بہت دور تک لے گئی ہیں۔ بہت اچھا اقدام ہے یہ کہ سوشل میڈیا پر اداروں اور ملکی سالمیت کے خلاف منظم پروپیگنڈہ پر فائر وال کے ذریعے قابو پا لیا گیا۔ اس طرح جن لوگوں میں بغاوت کے عنصر ابھر رہے تھے یا پھر شاید ایک اور نو مئی ہونے جا رہا تھا وہ اب ممکن نہیں۔
بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے 1994 سے لے کر اب تک آئی پی پیزکے ساتھ جو معاہدے ہوئے تھے، ان معاہدوں کے تحت ان کی Capacity کے مطابق کچھ شرائط عائد تھیں یا پھر ایسا کہیے کہ وہ بجلی پیدا بھی نہیں کرتے تھے مگر ان کو وصولیابی ہوتی تھی۔ اس باتوں میں آدھی حقیقت اور آدھا فسانہ ہے، مگر یہ معاہدے پھر سے ہونے چاہئیں۔ اس وقت پاکستان میں دنیا کی مہنگی ترین بجلی ہے، جو صارفین کو مل رہی ہے اور اس کا ازالہ یقینی طور پر ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہماری مجموعی معیشت کے لیے منفی ہے بلکہ یہ سیاسی عدم استحکام اور انتشارکو بھی جنم دے گا۔
ریٹنگ کے عالمی ادارے ’’ فچ‘‘ نے پاکستان کو منفی ریٹنگ سے نکال کر مثبت ریٹنگ کی طرف کھڑا کیا ہے۔ پاکستان اسٹیٹ بینک نے سود کی کمی میں دوبارہ دو ماہ بعد بتدریج کمی کی ہے، جو اس بات کی عکاسی کر ہا ہے کہ پچھلے سال کی بہ نسبت اس سال افراطِ زر پر قابو پایا گیا ہے۔ یعنی افراطِ زر 25% سے کم ہو کر 13کے ارد گرد رہے گی۔ ٹیکسزکا بوجھ اس سال جس طرح سے عوام پر لادا گیا ہے، اس سے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ افراطِ زر اس سال کہیں بے قابو نہ ہوجائے، اگر بروقت کچھ فیصلے کیے گئے کہ ڈالر کی اسمگلنگ کو لگام دی جائے، اشیائے خورونوش کی رسد میں اگر خلل نہیں آتا تو افراطِ زر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس ماہ یعنی جولائی میں ٹیکسزکی مد میں وصولیاتِ مقررہ حدف سے زیادہ ہوئی ہیں۔
سیاسی عدم استحکام کو استحکام کی طرف لانے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ افغان بارڈر پر دہشت گردی، پیدل یا بذریعہ سٹرک آمد ورفت اور اسمگلنگ کو روکا جائے۔ سال 2024 کی منتخب حکومت کو حالات کو جس تیزی سے بہتری کی طرف لانا تھا وہ اس میں ناکام رہے اور اس ناکامی کا فائدہ بہرِحال پی ٹی آئی کو ملنا تھا، لیکن چونکہ پی ٹی آئی کا ہتھیار یعنی سوشل میڈیا اب پروپیگنڈہ لائحہ عمل میں پہلے جیسا فعال نہیں رہا، لٰہذا حکومت کی رٹ واپس بحال ہوتی نظر آرہی ہے۔
ہم نے پہلے ایوب خان اوراس کے پانچ پیاروں کی پالیسی کے تحت گزارے، اس پالیسی کے تحت پاکستان باقاعدہ طور پر کولڈ وار کا حصہ بن گیا، پشاور کے قریب بڈا بیر امریکا کے حوالے کیا گیا، اس کے بعد ہم نے چالیس سال جنرل ضیا ء الحق کی دی ہوئی افغان پالیسی کے زیرِ اثر گزارے۔ وہ چاہے آئین کے اندر دی گئی شق 58(2)(i)کا معاملہ ہو یا پھر بارہ اکتوبرکا شبِ خون کا یا پھر دور ہو جنرل پرویز کیانی کا یا پھر جنرل باجوہ کا۔
ہم نے سول بالا دستی کو قابو میں رکھا، اس کو مضبوط ہونے سے روکے رکھا، کیونکہ سول بالادستی کا مضبوط ہونا، آئین کا مضبوط ہونا تھا۔ آئین کی شق 58(2)(i)آئین کے اندر موجود تو تھی مگر وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے اصولوں کے برعکس تھی بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ شق 58(2)(i)آئین کے اندر ایک آئینی بگاڑ تھی۔ اسی طرح سے جنرل ضیاالحق نے آئین کے اندر آرٹیکل 2(a) کا اندراج کیا، وہ بھی آئین کے اندر ایک بگاڑ تھا، مگر سپریم کورٹ نے اس کی تشریح کرکے اس کو آئین اسکیم کی سمت لاکھڑا کیا۔غیر جماعتی انتخابات کے تحت وجود میں آنے والی پارلیمنٹ نے ضیاء الحق کے اقدامات کی منظوری دے دی۔
ہماری سول بالادستی اب خود اندر سے کمزور ہے، جس کو سہارے کی ضرورت ہے۔ اسٹبلشمنٹ اس سول بالادستی کی لاٹھی ہے، جس کے بغیر وہ کھڑی نہیں ہو سکتی۔ اس حکومت سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت بھی اسٹبلشمنٹ کے سہارے تھی مگر اس وقت افغان پالیسی منافع بخش تھی اور اب ایسا نہیں ہے اور شاید اسی لیے پارلیمنٹ اور اسٹبلشمنٹ کا فطری اتحاد بھی ہے۔
اسٹبلشمنٹ اور پارلیمنٹ ان دونوں کا ٹکراؤ اس وقت ان قوتوں سے ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ یہ ملک افغان پالیسی کے بغیر چلے۔ ان قوتوں سے خان صاحب اگر علیحدگی اختیارکریں گے تو ان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوںگی، وہ تمام قوتیں جو تاریخی اعتبار سے اس پالیسی سے ٹکراؤ میں تھیں وہ مطمئن ہیں کہ ریاست اب خود اپنی ہی بنائی ہوئی قوتوں،گروہ اور لوگوں سے ٹکراؤ میں ہے۔ اب ملک ایک نئے دوراہے پرکھڑا ہے۔ یہ ملک اس بلیک ہول سے نکلنا چاہتا ہے مگر بلیک ہول کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، اگر اس بلیک ہول پر قابو نہ پایا گیا تو یہ بلیک ہول اس ملک کو لے ڈوبے گا۔ اس بلیک ہول پر ہمارے پوشیدہ غیر ملکی دشمن حاوی ہوچکے ہیں ، مگر ان قوتوں کے بارے میں مخصوص لوگ ہی علم رکھتے ہیں۔
اتنا یقین کے ساتھ تو نہیں کہا جاسکتا مگر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پاکستان اب مجبور ہے کہ دنیا کے اندر ریاستوں کے لیے جو مروج اصول ہیں، ان کی طرف واپس لوٹے۔ پاکستان ان حالات میں یا تو ایران یا افغانستان بن جائے گا یا پھر دنیا کے نقشے پر ہندوستان، بنگلا دیش وغیرہ کی طرح ایک ماڈرن اسٹیٹ کی صورت میں ابھرے گا۔ مکمل سول بالادستی ہمارے لیے امیدکی ایک کرن ہے مگر اس کو حقیقت بننے میں وقت درکار ہے، جب اس ملک میں آمریت صرف ماضی بن چکی ہوگی۔ اس میں بڑی ناکامی ہے جمہوری حکومتوں کی ہے، وہ چاہے سندھ ہو یا کوئی اور صوبہ یہ جمہوری حکومتیں اچھی گورننس نہ دے سکیں، اگر ان حکومتوں کا نعم البدل ارباب رحیم ہیں تو وہ بھی مسئلے کا حل نہیں۔
ہماری خارجہ پالیسی، ہماری داخلہ پالیسی پرگہرے اثرات چھوڑ رہی ہے۔ ایک طرف ہے چین اور دوسری طرف ہے امریکا ! سرد جنگ کا زمانہ توگیا لیکن چین کا ایک بڑی طاقت بن کر ابھرنا، اس خطے میں ہندوستان کا ایک مضبوط طاقت بن کر ابھرنا مگر پھر ہم چونکہ سرد جنگ کے زمانے میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے رہے تو ہماری سول بالادستی کمزور ہوتی گئی اور آج تک ہم اس بحران سے نکل نہیں پائے۔ اسی اثناء میں امریکا اور چین آمنے سامنے ہوگئے اور ہم ہوئے اس گریٹ گیم کا شکار۔ اگر ہمارا جھکاؤ چین کی طرف ہوتا ہے تو امریکا ہم سے ناراض ہوتا ہے،کیونکہ ہم ایک مقروض قوم ہیں۔ آئی ایم ایف کے قرضوں پر چل رہے ہیں اور اگر ہم امریکا کی طرف جاتے ہیں تو چین اور پاکستان کی دوستی پر آنچ آتی ہے۔
گزشتہ دو مہینوں سے ہمارا سیاسی منظر بہت تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، آیندہ ماہ تک یہ مزید واضح شکل میں نظرآئے گا۔