اس وقت حکومت، اپوزیشن اور عوام کی خاموش اکثریت کے مابین جو چپقلش جاری ہے، باخبر محب وطن لوگوں کی صرف ایک ہی دعا ہے کہ یہ چپقلش خوش اسلوبی کے ساتھ ختم ہو جائے کیونکہ ملک مزید گھیراؤ جلاؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ملک میں کوئی ایک ایسا ویژنری لیڈر اور سیاسی و مذہبی جماعت موجود ہے جسے عوام کا اعتماد اور احترام حاصل ہو اور جو ملک کو جدیدیت اور ترقی کی راہ پر ڈال سکے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ پاکستان میں کئی ایسے بااثرگروہ سرگرم ہیں جن کی اس ملک کے ساتھ وابستگی مشکوک ہے اور جن کی خواہش صرف یہ ہے کہ اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے ۔ ہمارے سرحدی صوبوں کے حالات سے پوری قوم اور مقتدر حلقے آگاہ ہیں، تفصیل کی کسی کو ضرورت نہیں ہے، بس صرف دعا اور دواکی ضرورت ہے ۔
ادھر ہماری حکومت نے از خود اپنی پسند کا محاذ منتخب کیا ہے اور دستور میں ایک اور ترمیم کی داغ بیل ڈال دی ہے جس کو راتوں رات منظور بھی کر لیا گیا ہے۔ خدا جانے اس نئی ترمیم کی پٹاری سے عوام الناس کے لیے کیا برآمد ہوتا ہے۔جمہوری اپوزیشن معدوم ہے جب کہ خفیہ اپوزیشن سرگرم عمل ہے، زمین کے اوپر کم اور زمین کے نیچے زیادہ ہے، کھلے خطرے کا مقابلہ ہر کوئی کر سکتا ہے، چھپے خطرے کا مقابلہ آسان نہیں ہوتا۔ موجودہ حکومت کے مستقبل کے بارے میں اسلام آبادی حلقوں میں چہ مگویاں جاری ہیں، ہمیں اس سے غرض نہیں کہ حکومت رہتی ہے یا جاتی ہے، ہم تو دودھ کے جلے چاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتے ہیں۔
میاں شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے طبل جنگ پر چوٹ لگا دی ہے ورنہ ملک کے اندر خوش قسمتی سے ایک آئین موجود ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن حکومتوں نے وقتاً فوقتاً اپنی مرضی ، منشاء اور ضرورت کے مطابق ترامیم کر کے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے ۔ 1973 کا آئین بھٹو صاحب کے ویژن، تدبر اور جدوجہد کا ثمر ہے اور یہ دستاویز ہمارے اتحاد کی ضامن ہے۔ اس دستور میں اگر ترامیم کے بجائے اس کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرتے ہوئے نظام انصاف کو اس کی اصل روح کے مطابق چلنے دیا جاتا تو اس قوم کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے تھے ۔ لیکن نظام میں پہلے سے موجود خامیوں کو جوں کا توں رکھ کرنئی ترامیم لانا،نئے ابہام کو جنم دینے کا سبب بن جائے گا۔ اس نئی ترمیم کے لیے بہت پاپڑ بیلے گئے، میاں شہباز شریف مولانا فضل الرحمن کوراضی نہ کرسکے تو یہ ذمے داری بلاول بھٹو کے سپرد کی گئی جنھوں نے بالآخر حضرت مولانا کو رام کر لیا ۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں نے بھی مولانا سے کئی ملاقاتیں کیں، مولانا کے گھر میں، ان کی اقتدا میں نمازیں بھی ادا کی گئیں ۔ میرے والد صاحب ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ صدر ضیاء الحق ایک دفعہ راولپنڈی کے مختلف اداروں کا معائنہ کر رہے تھے کہ نماز کا وقت آگیا اور وہ مسجد تشریف لے گئے ۔ پیش امام نے کہا کہ آپ ملک کے سربراہ ہیں، اس لیے نماز کی امامت آپ کرائیں۔ چنانچہ صدر صاحب نے باجماعت نماز کی امامت کرائی اور مسجد کے امام صاحب سمیت دوسرے نمازیوں نے ان کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ ان دنوں حضرت مولانا خبروں کی زینت تھے، حکومتی اتحادی جماعتوں کی قیادت سے لے کر اپوزیشن رہنماؤں تک روزانہ کی بنیاد پر ان سے ملاقات کے لیے آجا رہے تھے، اس پر ایک لیگی سیاسی لیڈر نے شگفتہ طنزکیا تھا، ’’آج مولانا ڈے منایا جا رہا ہے‘‘۔ بہر حال مولانا صاحب کا اپنا سیاسی نظریہ اور اسٹائل ہے، وہ زیر لب مسکراہٹ سجائے بہت کچھ کہہ بھی جاتے ہیں اور بہت کچھ کر بھی جاتے ہیں اور آج کل تو ان کا طوطی بول رہا ہے۔ انھوںبڑے پن کا ثبوت دیا ہے اور قومی اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران اپنے سب سے بڑے ناقد بانی پی ٹی آئی کے لیے بھی کلمہ حق کہا اور تحریک انصاف کے احتجاجی موقف کی بھی تائید کی ہے۔
بہر حال ترامیم اب قانون بن چکا ہے اور بقول ہمارے لیڈران، انھوں نے کالے سانپ کا زہر نکال دیا ہے اور اس کے دانت توڑ دیے ہیں۔میرے جیسے دیہاتی سانپوں سے بہت مانوس ہوتے ہیں کیونکہ گاؤں میں سانپ ہمیشہ رات کو اپنے بلوں سے باہر نکلتے ہیں اور اندھیرے راستوں کے مسافر ہمیشہ اپنے ہاتھ میں لاٹھی اور روشنی کا بندوبست لازمی کرتے ہیںتا کہ سانپوں کے وار سے بچ سکیںکیونکہ ان کے دانت جان لیوا زہر سے بھرے ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے رہنماؤں نے رات گئے روشنیوں کی چکا چوند میں کالے سانپوں کا زہر نکالنے کی غیر ذمے دارانہ اور جذباتی گفتگو کی جس کی اسمبلی کے فلور پر ضرورت ہر گز نہ تھی۔ پارلیمان عوام کا ادارہ ہے، اس کے فلور پر ایسی ذومعنی گفتگو سے مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، سانپ کے دانت دوبارہ نکل آتے ہیں، تب اس کے کاٹے کا علاج بھی ممکن نہیں ہو پاتا ۔ کاش کہ ہماری سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف اس بات کا ادراک کر لیں کہ وہ ایک میز پر بیٹھ کر پارلیمان کی بالادستی اور مضبوطی کے لیے کسی نئے میثاق کی بنیاد ڈالیں جس سے ملک کا سب سے سپریم ادارہ طاقتور ہو جائے۔
Source link