اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی یا سینیٹ یعنی پارلیمنٹ یہ ہوتی ہی آئین سازی اور قانون سازی کیلیے ہے لیکن ہر آئین اور قانون سازی کیلیے کچھ مروجہ طریقہ کار ہیں۔
آپ اس مقصد کے لیے بنائی گئی خصوصی کمیٹی میں آئینی ترامیم لے آئے، آپ نے تعامل اور مکالمہ شروع کیا ہے تو پھرمکالمے کیلیے ضروری ہے کہ بلیک میلنگ، اغوا ، دھونس اور دھاندلی نہ ہو۔
ایکسپریس نیو کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک طرف آپ ہمارے ساتھ میز پر بیٹھ کہ بات کرنے کی کوشش کر رہے ہیں دوسری طرف ہمارے ممبران ، ممبران کو تو چھوڑیں ان کے اہلخانہ کو اٹھا رہے ہیں اور پریشان کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں ایک طریقے سے کوشش کی گئی تھی کہ عدلیہ کے معاملات خاص طور پر ججوں کے انتخاب میں پارلیمنٹ کا کردار زیادہ ہو وہی نامکمل ایجنڈا 26 ویں ترمیم میں آ رہا ہے، حکومت کی بہت کوشش ہوگی کہ ایک علیحدہ آئینی عدالت بنے۔
عدالت سے زیادہ اصل مقصد یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں جو60 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں ان میں آئینی مقدمات کو علیحدہ کر دیاجائے، آئینی بینچ سے بھی کام بہتر ہوتا ہے تو یہ ایک پیش رفت ہوگی دوسرا ایشو یہی ہے کہ ججوں کی تقرری کے حوالے سے پارلیمنٹ کا جو استحقاق ہے اس کو 14سال بعد ری وزٹ کیا جا رہا ہے یہ دو چیزیں اصولی طور پر اپنی جگہ موجود ہیں۔
سابق سفیر جمیل احمد خان نے کہا کہ پاکستان انڈیا تعلقات کو دوسرے پیرائے میں دیکھ لیں، جب بھی اس قسم کے کثیر الجہتی پلیٹ فارم پر وزیراعظم، وزیر خارجہ کی سطح پر انڈیا کی نمائندگی ہوئی ہے تو ہمیشہ شدت بڑھی ہے کم نہیں ہوئی ہے، یہ پہلی مرتبہ کہ اس بار شدت بڑھی نہیں ہے کچھ کم ہوئی ہے، جے شنکر کے جیسچر اچھے ہیں دورے کے اختتام پر جو پیغامات دیے وہ اچھے ہیں۔
پاکستان انڈیا تعلقات میں اتنے نشیب و فراز آئے ہیں ان تعلقات میں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کرتے ہیں، ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثت بحال کیے بغیر انڈیا سے بات چیت نہیں ہوسکتی کیونکہ کشمیریوں کی ہیت کو تبدیل کردیا گیا ہے۔