OTTAWA:
کینیڈا دنیا میں غیرملکی طلبہ، ورکرز اور سیاحوں کے لیے آسان منزل قرار دیا جاتا ہے لیکن حالیہ اعداد و شمار میں انکشاف ہوا ہے کہ 2.36 ملین سے زائد ویزا درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں اور اس کی وجوہات بھی بتا دی گئی ہیں۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی حکومت نے امیگریشن پالیسی میں تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں، جس کے نتیجے میں امیگرینٹس کی بڑی تعداد میں کمی آجائے گی۔
رفیوجیز اینڈ سٹیزن شپ کینیڈا (آئی آر سی سی) سے جاری ڈیٹا کے مطابق 2024 میں 2.36 ملین عارضی درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا میں ویزا درخواستیں مسترد ہونے کی شرح غیرمتوقع طور پر 50 فیصد ہوگئی ہے جو گزشتہ برس کے 35 فیصد سے بڑا اضافہ ہے، جس سے وزیٹرز، طلبہ اور روزگار کے لیے دنیا بھر سے آنے والے افراد متاثر ہوگئے ہیں۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ حکومت نے امگریشن پالیسی میں تبدیلی اس لیے متعارف کروائی ہے تاکہ 2026 تک ملک کی عارضی شہریوں کی آبادی 6.5 فیصد سے کم 5 فیصڈ تک کم کی جائے کیونکہ حکومت کو بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کے حوالے سے تشویش ہے۔
کینیڈا کی حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں وزیٹر ویزا کے امیدواروں کو سخت اسکروٹنی کا سامنا کرنا پڑا اور 1.95 ملین درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں، جس کی شرح 54 فیصد بنتی ہے۔
اسی طرح تعلیم کے لیے ویزے کے خواہش مندوں کو بڑا دھچکا لگا ہے اور طلبہ کی 52 فیصد درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں، اس سلسلے میں اہلیت کے لیے سخت حکمت عملی اپنائی گئی ہے، مالی استعداد اور فراڈ درخواست گزاروں پر کریک ڈاؤن بھی شامل ہے۔
کینیڈا کی نئی امیگریشن پالیسی سے کام کے لیے درخواست دینے والے افراد کی درخواستیں مسترد ہونے کی شرح کم ہے لیکن 22 فیصد درخواستیں مسترد کردی گئی ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیبر مارکیٹ کی طلب کو امیگریشن کنٹرول کے ساتھ توازن پیدا کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس پالیسی سے جہاں چیلنجز کا سامنا ہوگا وہی کینیڈا کے لیے فائدہ بھی ہوگا۔
رپورٹس کے مطابق حکومت نے ملکی آبادی کی تیزی سے بڑھتی شرح روکنے، انٹرنیشنل طلبہ پروگرام میں تبدیلی، وزٹ ویزے پر مقررہ مدت سے زیادہ عرصے تک مقیم رہنے والوں کی حوصلہ شکنی اور ورک پرمٹ کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہ پالیسی اپنائی گئی اور ریکارڈ تعداد میں ویزے کی درخواستیں منسوخ کردی گئیں۔
مزید بتایا گیا کہ عارضی شہریوں کی کمی سے ہاؤسنگ کی ڈیمانڈ میں کمی آئے گی اور صحت کے نظام پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوگا تاہم ان صنعتوں کے لیے نقصان کا باعث ہوگا جو غیرملکی افرادی قوت پر انحصار کرتے ہیں۔
کینیڈا کو غیرملکی طلبہ سے سالانہ بنیاد پر 22 ارب کینیڈین ڈالر سے زائد کا منافع ہوتا ہے اور خدشہ ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کی کمی سے سرمایے میں بھی کمی ہوگی، اسی طرح صحت، تعمیرات جیسے شعبے بھی لیبر کی کمی کا شکار ہوں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ کینیڈا نے 2025-2027 کی امیگریشن حکمت عملی وضع کرلی ہے لیکن طویل مدت پالیسی بدستور غیریقینی کا شکار ہے۔