بے گناہوں کا لہو رنگ لایا، انتقام کا سورج غروب ہوا اور حسینہ واجد ماضی کا حصہ بن گئیں۔ اب وہ بھارت میں ہیں اور انھیں وہیں جانا چاہئے تھا جس نے انھیں بنایا اور جواب میں بنگلا دیش پرر اج کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ بنگلا دیش کے انقلاب نیز حسینہ واجد کا انجام کیا ہو گا؟
حسینہ واجداس انجام کو کیوں پہنچیں؟ اس سوال کا جواب ان کی شخصیت کو سمجھے بغیر پانا ممکن نہیں۔ وہ کس مزاج کی تھیں اور طاقت ور بن جانے کے بعد کیسی ہو گئیں؟ ان سوالوں پر جب غور کیا تو چند یادوں سے سر ابھارا۔وہ میاں نواز شریف کا دور حکومت تھا جب قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے حکومت کو زچ کرنے کے لیے سارک اپوزیشن فورم کے قیام کا ڈول ڈالا۔
نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں کراچی میں اس کا پہلا اور آخری اجتماع ہوا۔اجلاس میں تمام سارک ملکوں کے اپوزیشن راہ نما شریک ہوئے۔ ان میں حسینہ واجد بھی تھیں۔ بھارت سے وی پی سنگھ آئے۔ نیپال سے آنے والے مہمان کا تعلق کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔ سری لنکا سے انو رادھا پہنچے۔ ان کے علاوہ بھی کچھ مہمان تھے۔ سارک اپوزیشن کانفرنس سے ایک روز پہلے پریس کلب نے ان مہمانوں کو مدعو کیا۔ تمام راہ نما صحافیوں میں گھل مل گئے۔ بے تکلفی کے ساتھ گپ شپ کی اور یہاں وہاں بیٹھ کر چائے سے لطف اندوز ہوئے۔
سوائے ایک مہمان کے جس کے چہرے پر ناراضی پینٹ کر دی گئی تھی ۔ اس روز جوبات اس کی زبان سے نکلی، زہر میں بجھی ہوئی نکلی۔ یہ حسینہ واجد تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ پڑوسی ملکوں کے یہ راہ نما دوستانہ میچ پر آئے ہوں تا کہ وہ یہاں اپنی اور اپنے ملک کے لیے غیر رسمی سفارت کاری کر سکیں لیکن حسینہ واجد کا معاملہ مختلف تھا۔
پریس کلب کے صدر سلیم عاصمی مرحوم نے انھیں خوش گوار مسکراہٹ کے ساتھ خطاب کی دعوت دی تو وہ ایک جھٹکے ساتھ کرسی سے اٹھیں اور نا خوش گوار لہجے میں بولیں، مجھے بس یہی کہنا ہے کہ پاکستان ہمارے اثاثے وا گزار کیوں نہیں کرتا۔ جب کہ حقیقت ان کے مطالبے کی یہ تھی کہ مغربی پاکستان کے اثاثوں پر ان کا ملک قابض تھا۔ اگلے روز سارک اپوزیشن کانفرنس میں بھی انھوں نے اسی لب و لہجے میں یہی کچھ کہا۔ بے نظیر بھی سوچتی ہوں گی کہ اگر اس بی بی نے یہاں آ کر اگر یہی کچھ کرنا تھا تو بہتر ہوتا کہ نہ ہی آتیں۔ یہ واقعہ حسینہ واجد کے اقتدار میں آنے سے پہلے کا ہے۔
ان کی وزارت عظمی کے زمانے میں ڈھاکا میں ایشیا کپ ہوا تو وہ مہمان خصوصی تھیں۔ فائینل میچ پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان ہوا اور چند گھنٹوں کے کھیل کے بعد اندازہ ہو گیا کہ یہ ٹرافی پاکستان کو جا رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میچ ختم ہونے سے پہلے ہی وہ اسٹیڈیم سے واپس چلی گئیں کہ کہیں انھیں پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹرافی اپنے ہاتھ سے نہ دینی پڑے۔
ان کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور کی تکمیل کے بعد جن دنوں عام انتخابات ہو رہے تھے، ایک دوست کے ذریعے بنگلا دیش کے ایک شہری سے ملاقات ہوئی، معلوم ہوا کہ وہ صاحب بنگلا دیش نیشنل پارٹی ( بی این پی) سے تعلق رکھتے ہیں اور رنگ پور شاخ عہدے دار ہیں۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک سیاسی کارکن انتخابات کے موسم میں اپنے حلقے سے دور ہے۔ کہنے لگے کہ بنگلا دیش میں دو کام ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔’ وہ کیا؟’ میرے سوال پر کہنے لگے کہ حسینہ کی حکومت میں اپوزیشن کرنا اور ملک میں رہنا۔ یہ ممکن نہیں اور آپ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر ہماری یہ مشکل سمجھ بھی نہیں سکتے۔
وہ درست کہتے تھے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب عبد القادر ملا، مطیع الرحمن نظامی، ابو صالح محمد صدیق اور بہت سے دوسرے راہ نماؤں کا عدالتی قتل کیا جا رہا تھا۔ نوے برس کے پروفیسر غلام اعظم کو جیل میں اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ یہ بات درست ہے کہ بی این پی کے اس راہ نما کی طرح اس اذیت کا ذائقہ ہم نے نہیں چکھا تھا لیکن یہاں بیٹھ کر جتنا کچھ دیکھ اور سمجھ سکتے تھے یا ذرائع ابلاغ کے توسط سے جان سکتے تھے، اس سے واضح تھا کہ وہ سنہری سرزمین جسے سونار دیش بنانے کے نعروں کے ساتھ اپنوں یعنی پاکستان سے جدا کیا گیا تھا، اب خود ان کے اپنے لیے جہنم بنا دی گئی ہے۔ تنگ نظر قوم پرستی کا نتیجہ ہمیشہ ایسا ہی دیکھا گیا ہے۔
کاٹھ کی ہنڈیا آگ پر بار بار چڑھائی جا سکتی ہے اور نہ ظلم کی آندھی تادیر چلتی ہے۔ سورج جو ایک بار طلوع ہو جاتا، سر شام اس کا ڈوبنا لازم ہے۔ حسینہ واجد نے شیخ مجیب الرحمن کے بیٹی ہونے کے ناتے خود کو راج کماری سمجھا اور تشدد کے ذریعے وجود میں لائے جانے والے ملک صرف اور صرف تشدد سے کام لیا۔ ظلم کا یہ کاروبار 15 برس تک کیسے برقرار رہا؟ اس سوال کا جواب زیادہ مشکل نہیں۔ پہلا جواب یہ ہے کہ ظلم کے اثرات عام طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اوّل اوّل خوف ہوتا ہے۔ لوگ زیر زمین چلے جاتے ہیں۔ کچھ دیر کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں اور مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں۔ ان کی طویل حکمرانی کا دوسراسبب بہتر اقتصادی حکمت عملی ہو سکتی ہے جس نے بنگلا دیش جیسے غربت کے مارے ملک میں لوگوں کو آسودگی دی پھر جب خوش حالی عادت کا حصہ بن گئی تو ظلم اور جبر سے پریشانی ہونے لگی۔ یوں لوگ رفتہ رفتہ آواز اٹھانے لگے۔ اس آواز کی گونج اتنی بڑھی کہ حسینہ واجد کے لیے اپنے محفوظ قلعے میں اطمینان سے بیٹھنا ممکن نہ رہا۔
بنگلا دیش ایپی سوڈ کا ایک اور پہلو بڑا دلچسپ ہے۔ ہمارے یہاں بھی ایک صاحب ہوا کرتے تھے ہیں جنھیں طاقت ورسہارے تلاش کرنے کی عادت تھی۔ ان ہی سہاروں کے چکر میں ایک روز وہ اپنا بنا بنایا کھیل بگاڑ بیٹھے۔ اب بیٹھے ہوئے ہیں تصور جاناں کیے ہوئے۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ پر چڑھ دوڑتے ہیں اور کبھی گھبرا کر یوٹرن کی عادت دہراتے ہیں۔ یہی کچھ حسینہ نے بھی کیا۔ اپنے رشتے دار کو فوج کا سربراہ بنایا لیکن اسی رشتے دار نے 45 منٹ کے نوٹس پر دیس نکالا دے ڈالا۔ خدا کرے ہماراکھلاڑی بھی یہ رمز سمجھ پائے۔ ہمارے لیے اس واقعے کا سب سے بڑا سبق تو یہی ہو سکتا ہے۔
خیر، یہ بات چھوڑیئے، اصل بات سوال یہ ہے کہ اب بنگلا دیش کا مستقبل کیا ہو گا، کیا فوج الیکشن کرا کے رخصت ہو جائے گی یا طویل عرصے کے لیے مسلط ہو جائے گی؟ یہ درست ہے کہ فوج نے حسینہ واجد کو محفوظ راستہ دے دیا ہے۔ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی واپسی ہو سکے گی یا نہیں۔ سیاست میں بند راستے کھلتے ہوئے اکثر دیکھے گئے ہیں۔ فی الحال تو ان کا انجام شاہ ایران جیسا دکھائی دیتا ہے جنھیں کوئے یار میں دو گز زمیں بھی نہ مل سکی۔ حسینہ بھاگ کر بھارت پہنچیں ضرور لیکن تاریخ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ ٹشو پیپر ہمیشہ سینے سے لگا کر کبھی نہیں رکھا گیا۔