کوچۂ سخن – ایکسپریس اردو

کوچۂ سخن – ایکسپریس اردو


غزل
بڑھ گئی بات ذرا ردّ و بدل ہوتے ہوئے
مسئلہ اور بگڑنے لگا حل ہوتے ہوئے
ہوگئے ہیں غمِ دنیا کے قفس سے آزاد
ہم گرفتارِ تہِ دامِ ا جل ہوتے ہوئے
صبر کر لے کہ ذرا وقت لگے گا پیارے
تخم کو پیڑ کبھی پھول کو پھل ہوتے ہوئے
شام کو آیا ہے پیغام کہ کل ملتے ہیں
رات ڈھلنے لگی صدیوں میں یہ کل ہوتے ہوئے
عکسِ ماضی جو ابھر آیا اچانک تو خیال
خود ہی منظوم ہوا  بحرِ رمل ہوتے ہوئے
تری یادوں کا جو تابوت کیا دفن یہاں
دل یہ آباد ہوا تاج محل ہوتے ہوئے
یوں ہوئے آنکھ میں تحلیل کہ جیسے ہو فنا
برف کا ٹکڑا کسی جھیل میں حل ہوتے ہوئے
دل کے جذبات جو لفظوں میں ابھر آتے ہیں
لفظ پھر چیخنے لگتے ہیں غزل ہوتے ہوئے
زہر لگتے ہیں غمِ دہر کے لمحے صادقؔ
مجھ کو پل پل غمِ الفت میں خلل ہوتے ہوئے
(محمد ولی صادق۔کوہستان خیبر پختونخوا)

۔۔۔
غزل
ہمارے شہر میں ہوتا ہے اہتمام غلط
سند ملی، کہ سرے سے تھا جن کا کام غلط
ہم اپنے آپ میں اک سلطنت کے حاکم ہیں
نہ ہو سکے گا کسی فرد کو سلام غلط
اب ایسے لوگوں کا ہم کیا کریں بھروسہ جو
قرار دیتے رہے صبح کو بھی شام غلط
پرندے ان کے شکنجے میں آنے والے نہ تھے
لگا کے بیٹھے رہے عمر بھر جو دام غلط
جو فن شناس ہیں رہتے ہیں مصلحت کا شکار
سو وہ عروج پہ ہیں جن کا سب کلام غلط
نگاہِ یار بدلنے کی دیر تھی گویا
قرار دینے لگا اب تو خاص و عام غلط
جوانو! ہم نے کمایا ہے ایک مدّت میں 
کبھی نہ کرنا قبیلے کا اپنے نام غلط
وہ حد سے بڑھ کے محبت شناس ہے حسرتؔ
جو تجزیے تھے مرے ہو گئے تمام غلط
(رشید حسرت۔ کوئٹہ )

۔۔۔
غزل
مری طرح دوست تم بھی، اِسی کام کے نہ رہنا 
جو نظر سے گر رہے ہوں، انہیں تھامتے نہ رہنا 
مرے پاس زندگی کا، فقط ایک ہی سبب تھا 
اور اب اُس نے بھی کہا ہے، مرے آسرے نہ رہنا 
میں خدا نہیں جو تم پر، کوئی بندشیں لگاؤں 
مری کائناتِ دل میں جو نہ رہ سکے، نہ رہنا 
وہ ہواؤں کی مسافر، فقط اتنا کہتی جاتی 
میں پلٹ نہیں سکوں گی، مجھے ڈھونڈتے نہ رہنا
کہاں ہم سے آبلہ پا، کہاں دوڑ زندگی کی 
کسی نام نے سکھایا، ہمیں دوسرے نہ رہنا 
یہ تمہارا تھک کے گرنا، کوئی بات ہی نہیں ہے 
کوئی بات ہی نہیں ہے، مگر اب گرے نہ رہنا 
یہی طرز ہے ہماری وہ غزل ہو، زندگی ہو 
کہ جو دل میں آ چکی ہے، وہ بنا کہے نہ رہنا 
(زبیرحمزہ۔ قلعہ دیدار سنگھ)

۔۔۔
غزل
رتِ جمیل میں کلیاں نکھار آئے ہیں 
ہم ایسے دورِ محبّت گزار آئے ہیں
ہمارے سَر پہ بڑا بوجھ تھا وفاؤں کا
بچھڑ کے اُس سے وہ سارا اتار آئے ہیں
اُسے کہو کہ ذرا دیر کھول رکّھے کواڑ 
کہ اُس کو دیکھنے سب پا فگار آئے ہیں
ترے خلاف اترتا نہیں گمان میں کچھ
وگرنہ مشورے تو بے شمار آئے ہیں
زمانہ سخت سمجھتا رہا ہمیں اور ہم
فقط نگاہ پہ سب کچھ ہی ہار آئے ہیں 
جو چاہتا تھا کوئی اُس سے بات تک نہ کرے 
ہم ایسے شخص کا لہجہ سنوار آئے ہیں
ہم ایک باغ میں رہتے ہیں اور بخت ایسے
کہ روز خواب میں بس ریگزار آئے ہیں
بس ایک نام ہی شوزب رہے گا صدیوں تک
سخن شناس تو ورنہ ہزار آئے ہیں 
(شوزب حکیم ۔شرقپور شریف، ضلع شیخو پورہ)

۔۔۔
غزل
کاڑھتے کاڑھتے اک لمس کا ریشہ ٹوٹے
جیسے منظر کا کسی آنکھ سے رشتہ ٹوٹے
پائمالی کا کوئی خوف نہ رکّھا دل میں
ٹوٹ جانے کا کِیا عہد تو ہر جا ٹوٹے
بعد میں ڈھونڈ نہیں پاؤ گے سو لوٹ آؤ
اِس سے پہلے کہ مری قبر کا کتبہ ٹوٹے
اُس نے کرنا تھا ہمیں توڑ کے ریزہ ریزہ
اور ہم اُس کی توقّع سے علاوہ ٹوٹے
چار سُو بھیڑ ہے جسموں کی، میسّر آ جا!
یوں نہ ہو مجھ سے ترے ہجر کا روزہ ٹوٹے
جڑ بھی جائیں تو مکمّل نہیں ہوں گے ہاتفؔ
ہم تری آس میں امّید میں اتنا ٹوٹے
(اسیر ہاتف ۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
خدائی رو بہ رو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
شعوری گفتگو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
اب اِس ترکِ تعلّق پر کسی کو کیا دلائل دیں
یہ چادر جب رفو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
ابھی دشتِ جنوں دیکھا نہ ہی ہم نے محبت کی
کسی کی آرزو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
اداسی اوڑھ کر ہم آسماں کی سمت دیکھیں گے
صدائے حیلہ جُو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
حقیقت کو شعوری طرز سے تسلیم کرنے کی
جنہیں بھی جستجو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
کسی بھرپور عورت کے سہولت کار تھے ہم بھی
یہ نیکی سرخرو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
جہانِ خیر و شر میں تجربہ کیسا رہا اپنا
خدا سے گفتگو ہو گی دلوں کے راز کھولیں گے
(توحید زیب۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
سنپولے اس کی یادوں کے بدن میں پل گئے تو کیا 
جواں ناسور ہو ہو کر اگر سب گل گئے تو کیا
جدائی تو سنگِ مقسوم پر لکھی حقیقت تھی
جو جاتے آج تو پھر کیا اگر وہ کل گئے تو کیا
چلا خنجر جو قسمت کا تو گھائل دل ہوا میرا
کسی کی بے وفائی پر مجسم جل گئے تو کیا
نہیں پڑتی ذرا ہمت اٹھاتے ہاتھ یہ کیسے
ہمارے اشک کے موتی دعا میں ڈھل گئے تو کیا
بدن تیری جدائی کے زخم سے چور تھا پہلے
ترے الفاظ کے نشتر جو روح پر چل گئے تو کیا
بچا کر سب ہی دامن لے گئے جو یار تھے میرے
سیاہی سب گناہوں کی مرے منہ مل گئے تو کیا
انا قربان کر بیٹھے بس اک دیدار کی خاطر
ہم اس کے آستانے پر جو سر کے بل گئے تو کیا
(عامرمعان۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
خوابوں میں ہمیشہ ہی جو مطلوب رہا ہے
وہ شخص ہمیں جان سے محبوب رہا ہے
کچھ روز رہا عشق ہمارا بھی کسی سے
اور شہر میں چرچا بھی بڑا خوب رہا ہے
کچھ ایسے نبھایا ہے زمانے سے تعلق 
دشمن بھی مجھے دیکھ کے مرغوب رہا ہے 
اب اس کو مرا نام تلک یاد نہیں ہے
کل تک جو مرے نام سے منسوب رہا ہے
لے لے کے مزہ ہجر پئے خون جگر کا
اسکا تو پسندیدہ یہ مشروب رہا ہے
گو چند قدم کا ہی سفر تھا ترے ہمراہ
پر کیف رہا جانِ جگر خوب رہا ہے  
رائج ہے یہی رسم زمانے میں کہ مفلس
زردار کے ہاتھوں سدا مغلوب رہا ہے
نعرہ یہاں جس نے بھی انالحق کا لگایا
تاریخ ہے شاہد کہ وہ مصلوب رہا ہے
اپنوں کی عنایت کی برستی رہی بارش
ہر وقت ہی دیدہ مرا مرطوب رہا ہے
منہ پھیر کے گزرا ہے ابھی شخص جو راحلؔ 
چاہت بھرے لکھتا کبھی مکتوب رہا ہے
(علی راحل ۔ بورے والا، پنجاب)

۔۔۔
غزل
دور جب مجھ سے میری خوشی ہوگئی 
اور اک امتحاں زندگی ہو گئی
مجھ کو ہر گام پر غم کے دریا ملے
خواب جیسے خوشی کی گلی ہوگئی
اب نہیں ہوش باقی رہا یار سن 
لوگ کہتے ہیں سر عاشقی ہوگئی
وہ جو چاہے کریں خوب ظلم و ستم 
ظلم سہہ کرطبیعت ہری ہو گئی
ہنس کے دیکھا جو اس نے ہماری طرف 
لفظ آتے گئے شاعری ہو گئی
(مجید سومرو ۔پنو عاقل ، صوبۂ سندھ)

۔۔۔
غزل
اگر وہ شوخ دلبر رازِ حسنِ بے نہاں کیا ہے
نظر سے دل میں اترے، پردۂ رنگ و فغاں کیا ہے
پلادے ساقیا مجھ کو شرابِ عشق کے ساغر
کہ میخانے میں آ کر سود و سودا، رائگاں کیا ہے
نظر کی ایک جنبش نے مجھے بیگانہ کر ڈالا
کدھر جائے یہ دیوانہ، اسے دنیا جہاں کیا ہے
کبھی مستی، کبھی حسرت، کبھی آہوں کے طوفاں میں
یہ کیسا درد ہے دل میں یہ دل کا امتحاں کیا ہے
اگر وہ مل گیا مجھ کو، تو میں خود کو گنوا دوں گا
جو ہونا ہے، سو ہو جائے! رہا سود و زیاں کیا ہے
نظر کی شعلگی برسا رہی ہے ہر طرف آتش
کہ پروانے کی صورت میں، میں نالہ و فغاں کیا ہے
اگر سو شہر بھی دے دوں، مرا ارزاں ہو دیدارش
کہ اک ساعت کے درشن میں فلک کا آسماں کیا ہے
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
کس طرح دیکھ سکوں گا کسی انسان کا حال
مجھ میں ہر طور ہے ناقص حسِ وجدان کا حال 
دورِ حاضر میں بھلا کون سمجھ سکتا ہے؟
ایک انسان سے ڈرتے ہوئے حیوان کا حال
مجھے رونے کے سوا کچھ بھی نہ سوجھا اس وقت 
 مجھ سے پوچھا جو کسی نے مرے ایمان کا حال
تیری دنیا میں ترے غم سے بڑا کچھ بھی نہیں
تو نے دیکھا ہے کسی اور پریشان کا حال؟
ہم نے پہلے جو منافق کے تھے احوال پڑھے
آج ویسا ہی ہے ہر ایک مسلمان کا حال
الفتِ گل میں تو سرشار ہیں ہم سب لیکن 
کیوں نہ آئے ہے نظر ہم کو گلستان کا حال
تم نگہداشت کو آسان سمجھتے ہو مگر
اک نگہبان ہی جانے ہے نگہبان کا حال
ایک پاگل کو میں نے راہ دکھائی جوں ہی
قابلِ دید لگا پھر مجھے شیطان کا حال
تم روایت کی حقیقت کو کہاں سمجھو گے
تم نے اشعر ؔکہاں دیکھا ہے غزل خوان کا حال
(وسیم اشعر۔شجاع آباد ،ضلع ملتان)
 

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 





Source link