وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے ملے‘ یہ سکے کل اثاثہ تھے لیکن جب اسے اثاثے کا احساس ہوا تو اس وقت تک 86 ہزار چارسو سکے ضایع ہو چکے تھے اور چار لاکھ 32 ہزار باقی تھے‘ اس نے فیصلہ کیا وہ باقی سکے محفوظ رکھے گا مگر سوال یہ تھا وہ یہ سکے کہاں محفوظ رکھ سکتا ہے؟ مولوی صاحب نے مشورہ دیا آپ یہ سکے مسجد کے صحن میں دفن کر دیں‘ یہ محفوظ بھی رہیں گے‘ یہ آپ کے مرنے کے بعد بھی آپ اور آپ کی آل اولاد کے کام آئیں گے‘ بات اس کے دل کو لگی‘ اس نے مسجد کے صحن میں گڑھا کھودا اور سونے کے 43 ہزار 2 سو سکے اس گڑھے میں دبا دیے‘ وہ اس اچھی سرمایہ کاری پر خوش تھا لیکن یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی‘۔
وہ چند دن بعد مضطرب ہو گیا‘ محلے کی دوسری مسجدوں اور اماموں نے اسے یقین دلا دیا تم نے غلط مسجد کا انتخاب کیا‘ تمہارا سرمایہ ضایع ہو جائے گا‘ تم اس مسجد کو خیر باد کہو اور باقی سرمایہ ہمارے مدرسے‘ ہماری مسجد میں دفن کردو‘ تمہاری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی‘ وہ کنفیوژ ہو گیا‘ اس نے اس کنفیوژن میں ایک دن اپنی صندوقچی نکالی اور سر پیٹ لیا‘ اس کی صندوقچی واقعی خالی تھی‘ اس کے سونے کے 43ہزار دو سو سکے غائب ہو چکے تھے‘ وہ خالی صندوقچی لے کر بھاگا اور سیدھا بازار چلا گیا‘ اس نے اب باقی سرمایہ بازار کے محاجنوں کے پاس رکھنے کا فیصلہ کیا‘ یہ محاجن سرمایہ لیتے تھے‘ پانچ سال اپنے پاس رکھتے تھے اور پانچ سال بعد اصل زر کے ساتھ سود کی قسطیں ادا کرنے لگتے تھے۔
یہ اچھی اور محفوظ سرمایہ کاری تھی‘ آپ پیسہ لگائیں اور پانچ سال بعد پیسہ ریٹرن کے ساتھ واپس لینا شروع کر دیں‘ اس نے اپنے 43 ہزار دو سو سکے بازار کے محاجنوں کے پاس رکھوا دیے‘ وہ روز محاجن کے پاس جاتا سارا دن اس کے پاس بیٹھا رہتا‘ سرمائے کے محفوظ ہونے کا یقین کرتا اور شام کو واپس آجاتا‘ یہ روٹین پانچ سال جاری رہی‘ وہ اب مطمئن تھا‘ پانچ سال پورے ہو ئے‘ وہ محاجن کے پاس گیا اور سرمائے کی واپسی کا مطالبہ کر دیا‘ محاجن نے افسوس سے جواب دیا’’بھائی آپ کا سرمایہ محفوظ ہے لیکن بازار مندی کا شکار ہے‘ ہم آپ کو فوری طور پر روپیہ واپس نہیں کر سکتے‘ آپ کو انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔
اس کے دل کو دھچکا لگا‘ وہ پریشان ہوگیا لیکن مایوس نہ ہوا‘ اس نے سرمائے کی واپسی کے لیے محاجن کی دوکان کے پھیرے لگانا شروع کر دیے‘ وہ روز صبح آتا اور شام کو نا کام واپس چلا جاتا‘ یہ سلسلہ پانچ سال جاری رہا‘ محاجن کے پاس اس کے 43 ہزار دو سو سکے پڑے تھے جب کہ اس نے 43ہزار دو سو سکے محاجن کے دفتر آنے اور واپس جانے میں صرف کر دیے‘ آخر آنے جانے میں کرایہ بھی خرچ ہوتا ہے‘ انسان کو کھانا پینا بھی پڑتا ہے اور چائے سگریٹ کا خرچہ بھی ہوتا ہے‘ اس نے ایک دن بیٹھ کر حساب کیا تو پتا چلا وہ اب تک کل دو لاکھ سولہ ہزار طلائی سکے ضایع کر چکا ہے‘ وہ کف افسوس ملنے لگا۔
لیکن پھر اسے محسوس ہوا وہ نقصان کے باوجود ابھی دیوالیہ نہیں ہوا‘ وہ اب بھی تین لاکھ‘ دو ہزار‘ چار سو سکوں کا مالک ہے‘ یہ اگراچھی سرمایہ کاری کرے تو اس کا باقی سرمایہ بھی محفوظ ہو جائے گا اور اس کانقصان بھی پورا ہو جائے گا‘ وہ اٹھا‘ نقصان کا سیاپا بند کیا اور محفوظ سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے لگا‘ وہ تلاش کرتا رہا‘ تلاش کرتارہا یہاں تک کہ اسے معلوم ہوا شہر میں نیا مال کھلا ہے‘ مال میں سرمایہ کاری کی مشینیں ملتی ہیں آپ مشین میں ایک سکہ ڈالتے ہیں اور یہ مشین دو دو‘ تین تین اورچار چار سکے بنا کر باہر نکال دیتی ہے اور یوں آپ تھوڑا سرمایہ لگا کر رئیس ہو جاتے ہیں‘ وہ مال میں چلا گیا‘ مال میں واقعی مشینیں موجود تھیں‘ اس نے ایک خوب صورت اور نازک مشین خرید لی‘ مشین پر لکھا تھا ’’آپ روزانہ صرف 24 سکے ڈال سکتے ہیں‘ آپ کو 25واں سکہ ڈالنے کے لیے اگلے دن کا انتظار کرنا ہو گا،
وہ خوش ہو گیا کیوںکہ یہ مشین دن میں صرف 24 سکے کھاتی تھی اور یہ سرمایہ کاری اسے سوٹ کرتی تھی‘ اس نے بسم اللہ پڑھ کر مشین میں سکہ ڈالا اور چار سکے نکلنے کا انتظار کرنے لگا‘ مشین سے چار سکے نہ نکلے‘ اس نے اگلا سکہ ڈالا وہ سکہ بھی ضایع ہو گیا‘ وہ تین دن تک مشین میں سکے ڈالتا رہا لیکن مشین سے سکے نہ نکلے‘ وہ دکان دار کے پاس چلا گیا‘ دکان دار نے شکایت سنی اور مسکراکر جواب دیا’’جناب آ پ بے صبرے نہ ہوں‘ مشین سے سکے ضرور نکلیں گے‘ میں خود یہ مشین استعمال کر رہا ہوں‘ مجھے شروع میں چھ مہینے انتظار کرنا پڑا لیکن بالآخر مشین سے سکے نکلے‘ آپ تاولے نہ ہوں‘ آپ ضرور کام یاب ہوں گے‘‘ وہ دکان دار کی بات پر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن دوسرے گاہکوں نے بھی دکان دار کی تائید کر دی‘ ان سب کا کہنا تھا ’’ مشین بالآخر کام کرتی ہے‘‘
وہ گھر واپس آ گیا اور دوبارہ مشین میں سکے ڈالنا شروع کر دیے ‘وہ سکے ڈالتا رہا‘ سکے ڈالتا رہا لیکن مشین سے سکے نہ نکلے‘ اس نے ایک دن حساب کیا تو پتا چلا وہ اب تک مشین میں 86 ہزار 4 سو سکے ڈال چکا ہے اور اس کی وراثت اب دو لاکھ سولہ ہزار سکے رہ گئی ہے‘ وہ سخت پریشان ہو گیا اور مختلف ماہرین سے مشورے کرنے لگا‘ ماہرین نے اسے مشورہ دیا ’’تم مشین تبدیل کر لو‘ دکان میں اور بھی مشینیں موجود ہیں‘ تم ان پر ٹرائی کیوں نہیں کرتے؟‘‘ وہ بھاگتا ہوا دکان پر گیا اور ایک اور مشین خرید لی‘ یہ مشین جدید بھی تھی‘ ہلکی بھی اور گارنٹی یافتہ بھی۔ اس نے لمبا سانس لیا اور نئی مشین میں سکے ڈالنا شروع کر دیے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ یہ مشین بھی اس کے سکے کھا گئی‘ وہ تیسری بار دکان پر گیا‘ ایک اور مشین خرید لایا‘ وہ اس مشین کے بارے میں بھی مطمئن تھا‘ وہ کیوں مطمئن نہ ہوتا‘ پورا ملک اس مشین کی تعریفیں کر رہا تھا‘ اس نے اس مشین میں بھی سکے ڈالے
لیکن شاید اس کی قسمت خراب تھی‘ یہ مشین بھی اس کے سکے کھا گئی‘ وہ اب شدید مالیاتی بحران کا شکار ہو گیا‘ وہ اب دیوالیہ ہونے کے قریب تھا‘ وہ پریشان تھا‘ پریشانی کے عالم میں اسے کسی نے بتایا ’’ سرمایہ کاری کا بہترین طریقہ بہرحال مسجد کا صحن ہی تھا‘ تم اگر مسجد میں دفن خزانے کے سرہانے بیٹھے رہتے تو آج تم سے زیادہ مطمئن اور امیر شخص کوئی نہ ہوتا‘‘ اس نے کف افسوس ملا اور باقی سکے لے کر دوبارہ مسجد چلا گیا‘ امام صاحب نے دل کھول کر اس کی مذمت کی لیکن پھر اسے صحن میں باقی وراثت دفن کرنے کی اجازت دے دی‘ اس نے تھیلی کے سارے سکے مسجد کے صحن میں دفن کر دیے۔
اس بار اسے یقین تھا اس کی یہ سرمایہ کاری ضایع نہیں ہو گی لیکن یہ یقین بھی غلط ثابت ہوا‘ وہ دوبارہ اسی مخمصے کا شکار ہو گیا ’’کیا میں نے درست مسجد کا انتخاب کیا ؟‘‘ اس کا مخمصہ درست تھا کیوںکہ اس کی مسجد کے گرد درجنوں مسجدیں تھیں اور ان تمام مسجدوں سے روزانہ زیادہ منافع کے اعلانات ہوتے تھے‘ لوگ اسے اس کی مسجد کے بارے میں شکوک و شبہات میں بھی مبتلا کرتے رہتے تھے‘ وہ پریشان تھا لیکن اس کے پاس اب کوئی آپشن نہیں تھا‘ وہ اپنا سارا سرمایہ مسجد میں دفن کر چکا تھا مگر پھر اس نے ایک دن اپنا سرمایہ چیک کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ صحن میں گیا‘ پھاوڑا اٹھایا‘ اپنا خزانہ نکالا‘ صندوقچی کا دروازہ کھولا اور اس کے دل کو خوفناک دھچکا لگا‘ یہ صندوقچی بھی خالی تھی‘ اس کی ساری وراثت ضایع ہو چکی تھی‘ اس نے صندوقچی باہر رکھی اور گڑھے میں چھلانگ لگا دی‘ وہ مسجد کے صحن میں دفن ہو گیا۔
وہ شخص کون تھا؟ وہ شخص کوئی اور نہیں تھا‘ وہ آپ اور میں ہیں‘ ہمیں ساٹھ سال کی عملی زندگی ملتی ہے‘ یہ ساٹھ سال ایک ایک گھنٹے پر محیط ہوتے ہیں‘ ہم اگر ہر گھنٹے کو سونے کا ایک سکہ سمجھ لیں تو ہمارے پاس روزانہ 24 سکے ہوتے ہیں‘ ہم ان 24 سکوں کو مہینے کے تیس دنوں اور ان تیس دنوں کو سال کے بارہ ماہ اور ان سالوں کو 60 سال سے ضرب دیں تو پانچ لاکھ‘ 16 ہزار چار سو سکے ہماری کل وراثت بنتے ہیں‘ یہ سکے ہمارا کل اثاثہ ہوتے ہیں‘ ہم یہ اثاثہ زندگی اور بعداز مرگ زندگی پر خرچ کرتے ہیں‘ یہ سرمایہ ہماری کل سرمایہ کاری ہوتی ہے مگر ہم بدقسمتی سے یہ سارے سکے کنفیوژن کی نذر کر دیتے ہیں۔
ہمیں زندگی کے ابتدائی دس برسوں تک وقت کی قیمت کا احساس نہیں ہوتا‘ یوں ہمارے 86 ہزار 4 سو سکے ضایع ہو جاتے ہیں‘ ہمیں جب وقت کا احساس ہوتا ہے تو ہم دینی اور دنیاوی تعلیم میں کنفیوژ ہو جاتے ہیں‘ ہم پانچ سال مدرسے اور پانچ سال کالج میں ضایع کرتے ہیں‘ ہم وہاں سے بھاگ کر جاب میں پناہ لیتے ہیں‘ ہم وہاں بھی خالی ہاتھ رہتے ہیں‘ ہم پھر سکے کھانے والی مشینیں خریدنے لگتے ہیں‘ ایک مشین فیملی ہوتی ہے‘ ہمیں لوگ بتاتے ہیں آپ مشین میں ایک سکہ ڈالو گے تو یہ مشین تین چار سکے نکالے گی‘ ہم سکے ڈالتے جاتے ہیں‘ مشین سکے کھاتی جاتی ہے مگر ریٹرن میں کچھ نہیں نکلتا‘
ہم پھر مصروفیت کی مشین لے آتے ہیں‘ ہم اپنے دن رات اپنے کام‘ اپنے مشن کو دینے لگتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں ہماری مشین ایک کے بدلے تین چار سکے نکالے گی لیکن یہ مشین بھی ہمارے سکے کھا جاتی ہے‘ ہم پھر معاشرے‘ دوستوں اور نظام کی مشین لے آتے ہیں لیکن یہ مشینیں بھی ہمارے سکے کھا جاتی ہیں یہاں تک کہ ہم بے زار اور مایوس ہو کر عمر عزیز کا باقی حصہ مذہب کو دے دیتے ہیں مگر ہم وہاں بھی کنفیوژ ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہوتا ہم جس مذہب‘ جس فرقے اور جس امام کو مان رہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا غلط اور یوں ہم عمر عزیز کا آخری سکہ بھی ضایع کر دیتے ہیں‘ آپ اگر کسی دن میری طرح دھوپ یا سائے میں بیٹھ کر زندگی کے بارے میں غور کریں تو آپ کو بھی یقین آجائے گا انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کنفیوژن ہے اور یہ بیچارہ یہ مسئلہ حل کرتا کرتا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ یہ اس زندگی میں کوئی ایسی مشین تلاش نہیں کر پاتا جو اس کے سکے دوگنے کر دے‘ زندگی رائیگاں ہے اور یہ رائیگاں ہی چلی جاتی ہے۔