’’ارشد ندیم نے گولڈ میڈل جیت لیا، واہ کیا بات ہے، پاکستان زندہ باد‘‘
میں اس وقت جدہ کے ’’البیک‘‘ میں موجود تھا جب وہاں ایک ٹیبل پر موجود پاکستانیوں کا گروپ اچانک خوشیاں منانے لگا،میں سوشل میڈیا کے ذریعے اس خبر سے واقف ہو چکا تھا، ان میں سے ایک پٹھان بھائی نے اپنے پشتو لہجے والی میٹھی سی اردو میں ساتھیوں نے کہا ’’ ماڈا یہ سعودی عرب ہے زیادہ شور نہ مچاؤ یہ نہ ہو شرطے (پولیس آ جائے) ایک پنجابی بھائی فخر سے کہنے لگا ارشد ساڈے میاں چنوں دا ہے،اس وقت مجھے جو فخر کا احساس ہوا اس سے چیمپئنز ٹرافی کی یاد تازہ ہو گئی جب اوول لندن میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے سرفراز احمد کی زیرقیادت ٹرافی جیتی تھی۔
خوش قسمتی سے اس وقت میں گراؤنڈ میں ہی موجود تھا، ان دنوں عمرے کی ادائیگی کیلیے سعودی عرب آیا ہوا ہوں ، ہم وطنوں کی خوشیاں دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا، سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا ہر طرف ارشد کا ہی چرچا ہے، بلاشبہ یہ کارنامہ ہی بہت بڑا ہے، کرکٹ چند ممالک تک محدود کھیل ہے، اس میں مخصوص افراد خصوصا جنوبی ایشیائی شائقین زیادہ دلچسپی لیتے ہیں، اولمپکس پر ہر کسی کی نظر ہوتی ہے، دنیا کا کوئی ایسا بڑا اخبار نہیں جس میں ارشد کے کارنامے کو سراہا نہ گیا ہو۔
ہم پاکستانی طویل عرصے سے کسی اچھی خبر کے منتظر تھے جو شکر ہے اب مل گئی، ہر بار ہم کرکٹ ٹیم سے کسی کارنامے کی توقع رکھتے ہیں جس نے حالیہ وقتوں میں مایوس ہی کیا، کرکٹرز جتنا ایک ماہ میں جتنا کماتے ہیں ارشد جیسے ایتھلیٹس شاید پورے سال اتنی رقم نہ دیکھ پاتے ہوں،آپ ارشد اور 10 میچز کھیلے ہوئے کسی کرکٹر کے گھروں کو دیکھیں لائف اسٹائل میں فرق کا اندازہ ہو جائے گا، جس وقت ہماری کرکٹ ٹیم دنیا بھر میں چھائی ہوئی تھی تب کھلاڑی پیسے نہیں ملک کا سوچتے تھے، پھر پیسہ حاوی ہو گیا، رہی سہی کسر لیگز نے پوری کر دی، بھارت میں ون ڈے ورلڈکپ ہونے والا تھا اور ہمارے کھلاڑی بورڈ سے پیسوں پر لڑ رہے تھے، کارکردگی سب کے سامنے ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں بھی قوم کیا کیا آس لگائے بیٹھی تھی لیکن مایوسی ہی ہاتھ آئی،ہم امریکا تک سے ہار گئے،11کرکٹرز جو کام نہ کر سکے اس سے بہت بڑا کارنامہ ایک ارشد ندیم نے کر دکھایا،کرکٹرز کو ان سے سبق سیکھنا چاہیے، یہاں اوسط درجے کا بھی انٹرنیشنل کرکٹر ہو تو اسے کرکٹ کا سامان مفت مل جاتا ہے، مجھے یاد ہے کچھ عرصے قبل ہم نے خبر شائع کی تھی کہ ارشد کے پاس جیولین تک خریدنے کے پیسے نہیں تھے، حکومت چاہے جس کی ہو ترجیحات میں کھیل سب سے آخری نمبر پر ہوتے ہیں، ایک اسپورٹسمین وزیر اعظم عمران خان نے ہی ڈپارٹمنٹل اسپورٹس ہی ختم کر دیے تھے۔
سہولتیں نہ ہونے کے باوجود ارشد نے گولڈ میڈل جیت لیا تو اس پر انھیں جتنا سراہا جائے کم ہے، ہم نے کرکٹ ٹیم کے حوالے سے خواب دیکھا تھا کہ وہ جیت کر آئے تو کھلاڑی کھلی بس میں شہر کا چکر لگائیں گے،افسوس وہ پورا نہ ہو سکا، جب بھارتی ٹیم کا چیمپئن بننے کے بعد استقبال دیکھا تو میں یہی سوچتا تھا کہ نجانے کب ہمیں یہ لمحات میسر آئیں لیکن شکر ہے انتظار ختم ہوا، کھیل نہ صرف نوجوان نسل کو تعمیری کاموں میں مصروف رکھتے ہیں بلکہ قومی یکجہتی کو بھی فروغ ملتا ہے،آج کل کے نوجوانوں کو ویسے بھی کسی اچھی مصروفیت کی ضرورت ہے تاکہ سوشل میڈیا سے نکل کر حقیقی دنیا میں آئیں۔
حکومت کو سنہری موقع ملا ہے، ایسا ماحول بنائیں جس سے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ہو، انھیں بھرپور سہولتیں دیں پھر دیکھیں کتنے میڈلز ملیں گے، میڈل سے نہ صرف ملک کا نام ہوتا ہے بلکہ دیگر پلیئرز کو بھی کچھ کر دکھانے کی تحریک ملتی ہے، ارشد کی کامیابی سے آپ دیکھیے گا کتنے نوجوان جیولین تھرو کی جانب آئیں گے،ڈپارٹمنٹل اسپورٹس کہنے کو تو بحال ہو گئے لیکن اب بھی ماضی کی طرح ٹیمیں نہیں بنائی گئیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے کچھ کرے، ملازمتیں ملیں گی تو نئی نسل کھیلوں کی جانب راغب بھی ہو گی۔
کرکٹ کی طرح جیولین تھرو میں بھی پاک بھارت مقابلے کی فضا زبردست ہوتی ہے، نیرج چوپڑا بڑے اسٹار ہیں، البتہ وہ پنجاب کا شیر اپنے کرکٹرز کی طرح ڈرتا نہیں ہے، پاکستانی سے دوستی ڈنکے کی چوٹ پر کی ، نیرج ہمیشہ ارشد کی حوصلہ افزائی ہی کرتے نظر آئے،مقابلے کے بعد ان کی والدہ نے ارشد کے بھی اپنے بیٹے جیسا ہونے کا جو بیان دیا اس پرایک گولڈ میڈل ان کو بھی دینا چاہیے، نفرت زدہ بھارتی معاشرے میں ایسے لوگ ہی دونوں ممالک میں دوستی کیلیے امید کی کرن ہیں۔
بھارتی کرکٹرزپاکستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، کوئی پاکستانی اچھا بھی کھیلے تو تعریف نہیں کرتے لیکن نیرج اور ان کی فیملی تنگ نظر نہیں لگتی، اس وقت ہمارے ملک میں جشن کا سماں ہے، ارشد ندیم سونے میں تولنے کے قابل ہیں لیکن افسوس ان دنوں کریڈٹ لینے کیلیے بھی دوڑ جاری ہے، اپوزیشن والے اسے اپنا کارنامہ قرار دیتے ہیں حکومت بھی اپنے سر سہرا باندھ رہی ہے، حقیقت میں اگر دیکھا جائے تو اس فتح کا تمام تر کریڈٹ صرف ارشد ندیم کو ہی ملنا چاہیے، انھوں نے ناکافی سہولتوں کے باوجود وہ کر دکھایا جو دنیا میں کروڑوں کے بجٹ لینے والے ایتھلیٹس بھی نہیں کر پائے۔
یہ میڈل ان کے خون پسینے کی کمائی ہے، ویسے بھی کریڈٹ کو چھوڑیں اب یہ سوچیں کہ ملک کو دوبارہ اسپورٹس لوونگ قوم کیسے بنانا ہے، آپ کھلاڑیوں کو بھرپور سہولتیں فراہم کریں، کھیلوں کا بجٹ بڑھائیں، ڈپارٹمنٹل اسپورٹس حقیقی طور پر بحال کریں پھر اگلے اولمپکس میں جو میڈلز آئیں ضرور اس کا کریڈٹ لیں، 25 کروڑ پاکستانیوں میں سے 7 اولمپکس میں گئے سب سے بڑی شرم کی بات تو ہمارے لیے یہ ہے، اس بات کو یقینی بنائیں کہ اگلی بار ایسا نہ ہو،ارشد کو بھول نہ جائیں بلکہ کچھ ایسا انتظام کریں جس سے تاحیات انھیں مالی تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، ویسے انھیں کروڑوں روپے بطور انعام مل تو رہے ہیں، شکریہ ارشد ندیم آپ نے ہم پاکستانیوں کو خوشی کے یہ لمحات مہیا کیے، پہلے اگر لوگ اپنے بچوں کو بابر اعظم بنانا چاہتے تھے تو شاید اب ان کی خواہش ارشد ندیم جیسی اولاد کی ہو۔
(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)