title>Urdu News - Latest live Breaking News updates today in Urdu, Livestream & online Videos - 092 News Urdu کرم ایجنسی – ایکسپریس اردو – 092 News

کرم ایجنسی – ایکسپریس اردو

کرم ایجنسی – ایکسپریس اردو


’’ہمارے رشتے کے چچا اپنے بچے کا یا کسی کے بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس جنگل سے گزر رہے تھے پھر وہ کہاں غائب ہوگئے کبھی پتا ہی نہیں چلا، سالہا سال گزر گئے پھر لوگ انھیں بھول گئے۔‘‘

’’کسی نے انھیں مار دیا ہوگا۔‘‘

’’ہاں ایسا ہی ہوا ہوگا، وہاں زمین کے تنازعے پر جھگڑے ہوتے تھے اور اتنے ہوتے کہ بس، بچہ ہی تھا تو یاد نہیں بس سنی سنائی تھی۔ ہمارے ابا پریشان رہتے تھے ان لڑائیوں سے، زمین تو کہیں نہیں جاتی وہیں رہتی ہے پر لوگ چلے جاتے ہیں تو انھوں نے بھی سب کچھ چھوڑا اور علاقے سے نکل آئے۔ اس زمانے میں لوگ پیدل افغانستان چلے جایا کرتے تھے۔ عزیز رشتے داروں سے ملنے ملانے، قریب ہی تو تھا۔‘‘

آج کتنے برس گزر گئے زمین وہیں ہے اور لوگ چلے گئے کچھ غیر منقسم انڈیا میں گھل مل گئے اور اب ان کی نسلیں وہاں آباد ہیں۔ لوگوں کا سفر چلتا رہتا ہے اور زمین کی پراسرار کشش انسان کو اپنے سے جڑا رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ بدقسمتی سے کرم ایجنسی میں بھی ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ہو رہا ہے۔ آج سے سو سال پہلے بھی اور آج بھی زمانے بدل گئے پر واقعات کچھ نوعیت کے ساتھ کم و بیش ویسے ہی ہیں۔

کرم ایجنسی کو امریکی ملٹری نے پیرٹ بیک یعنی طوطے کی چونچ کا نام دیا ہے اس کے جغرافیائی وقوع کی بنا پر اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے کچھ فاصلے پر ہی افغانستان ہے اور دارالحکومت کابل اس سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔

دلوں میں فاصلے بڑھے تو سرحدوں پر باڑیں لگ گئیں اس کی بڑی ٹھوس وجہ تھی لیکن ہوتے ہوتے معاملات رخ بدلتے گئے۔ اس خوب صورت خطے کو کسی نہ کسی بہانے چھیڑ خانی کا نشانہ بنایا گیا اور یہاں خون کا بازار گرم رہا۔

افغانستان پر سوویت یونین کے حملے نے کرم ایجنسی پر بھی اثر چھوڑا اور مجاہدین نے پارا چنار کو اپنا گڑھ بنا لیا اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ گویا آج بھی ویسی ہی صورت حال جاری ہے پر خدا خدا کرکے حالات نارمل ہو رہے ہیں، لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایک زمین کا چھوٹا سا قطعہ جھگڑے کا باعث بن جاتا ہے؟ لوگ ایک دوسرے کے سامنے تن کر کھڑے ہو جاتے ہیں، دہکے ہوئے کوئلوں کو جیسے سلگاتے سلگاتے بات بڑھتی ہی جاتی ہے اور نت نئے قسم کے ہتھیار امنڈ آتے ہیں۔ آخر کیوں؟

زمین کے معاملے ہمیشہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ پہلی بار 1901 میں کرم ایجنسی میں زمین کا تنازعہ حل کرایا گیا تھا یہ برطانیہ کے دور کا یادگار واقعہ تھا۔ اس کے بعد بھی تقسیم ہند سے پہلے دو بار اس طرح کے واقعات ہوئے البتہ فرقہ وارانہ حوالے سے یہ بات الگ ہی پہلو لیے ہوئے ہے، ایسا نہیں ہے کہ ہر جھگڑے لڑائی فساد کا شاخسانہ برطانیہ اور امریکا سے ہی جا کر ملتا ہے۔

لیکن تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کا فارمولا تو برطانوی راج کا پیدا کردہ تھا جس نے مختلف شکلیں نکالیں اس کی شاخیں دور دور تک پھیل جاتی ہیں جس میں زر، زمین کے ساتھ مذہب کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک صاحب جو امریکا سے وارد ہوئے تھے، مذہبی فرقوں کے حوالے سے بڑی دلچسپ بات کہہ گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ فلاں فلاں فرقے کیا تاریخ میں پہلے کہیں پڑھے گئے ہیں، یہ سب انگریزوں کی ایجادات ہیں، بات کچھ عجیب تھی لیکن با وزن تھی۔ بہرحال کرم ایجنسی کے غیور اور طاقتور لوگ جن کے پاس زرخیز زمینیں اور معدنیات ہیں کئی حوالے سے اپنا اثر تو رکھتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ اپنا حق چھوڑ کر وہ زمین صرف خون خرابے کی بنیاد پر چھوڑ گئے تھے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جس جان کی خاطر زمین کو بچا رہے ہیں وہ جان ہی نہ رہی تو کیا فائدہ؟ لہٰذا اپنے بیوی بچے لے کر ہجرت کر گئے۔

یہ خطہ فرقہ وارانہ فسادات کے لیے مشہور ہے اس طرح کے بیانات تاریخ میں تو نظر نہیں آئے لیکن 1938 میں لکھنو میں اس طرح کے فسادات ہوئے تو یہاں اپنے طبقے کی ہمنوائی کے لیے آواز بلند کی گئی تھی شاید یہی پہلی لہر رہی ہو لیکن یہاں اگر رک جائیں تو 1901 اور 1890 کے معاملات پر نظر ڈالیں تو انگریز سرکار نے پہلی بار اسے کرم ایجنسی کا نام دیا اور اپنے دائرہ عمل میں لیا، یہ ان کی حکمرانی کا پہلا عمل تھا پھر تقسیم کرنے کے لیے انھیں زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی، اس لیے کہ یہاں تعلیم کی شرح اس زمانے میں نہ ہونے کے برابر تھی۔ جذباتی لوگ ہر مسئلے پر اپنی غیرت کو شان سمجھنے والے سادہ لوح لوگ اور پھر سلسلے نکلتے گئے اور یوں شان حکمرانی بڑھتی گئی۔

وقت کے ساتھ افغانستان کے حالات خراب ہوئے اور روس نے پیش قدمی کی تو دنیائے سیاست کے لیے طاقتور اقوام کا ایک نیا ملاکھڑا شروع ہو گیا ، کیونکہ کرم ایجنسی کی شکل ایک ایسی مثلث کی سی ہے جس کے تینوں حصے بین الاقوامی لحاظ سے انتہائی اسٹرٹیجک ثابت ہوئے، تورہ بورہ کا پہاڑی سلسلہ ایک جانب افغانستان کے ننگر ہار تو پارا چنار کے گاؤں زیڑان سے دوسرا سلسلہ لگتا ہے۔

 یہ علاقہ طالبان تنظیموں کے علاوہ دیگر تنظیموں کے لیے مقبول رہا ہے اور آج بھی نہ صرف مختلف دہشت گرد تنظیمیں اور ممالک اس علاقے کو میدان جنگ بنانے پر جتے رہتے ہیں۔ کیا اس علاقے کے لوگوں کو کھل کر آزادی سے سانس لینے کا اختیار نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر تاریخ سے لے کر آج تک کے حالات پر نظر دوڑائی جائے تو کرم ایجنسی اور یہاں کے لوگ مظلوم نظر آتے ہیں جو بیرونی عوامل کی سیاست کا نشانہ بنتے آئے ہیں اور آج بھی بن رہے ہیں۔

ذرا تصور کریں کہ 1938 کے دور میں جب موبائل فون، انٹرنیٹ اور لینڈ لائن فون کی بھی سہولت پُر پیچ تھی تو کس طرح لکھنو کی آواز ایک دور دراز کم آبادی والے خطے تک پہنچی۔

 آخر ایسا کیسے ہوا شاید اس لیے کہ یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ آنے والے وقت میں اس طاقت کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا تو اسے دیمک کی نظر کر دیا جائے۔ ویسے بھی یہ تصور اب پرانا ہو چکا ہے کہ جھگڑے کرانا ہو تو فرقہ واریت پھیلا دو، پر کرم ایجنسی اس سحر انگیزی سے کیسے نکل پائے گی، ہم پرامید ہیں کہ زرخیز زمین اور زرخیز ذہن پھل پھول کر ہی رہیں گے۔





Source link