چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون بڑا پرانا ہے، مسعود خالد

چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون بڑا پرانا ہے، مسعود خالد



اسلام آباد:

دفاعی تجزیہ کار (ر) میجر جنرل طارق رشید خان کا کہنا ہے کہ فوجیں واپس ہونے کا مطلب ہی یہی ہے کہ دونوں پارٹیوں نے احساس کر لیا ہے کہ بات چیت ہونی چاہیے اور ٹینشن ڈیفیوز ہو رہی ہے، بٹ ایک کیپیبلیٹی ہوتی ہے دوسری انٹینشن ہوتی ہے تو انٹینشنز اوورنائٹ چینج ہو جاتی ہیں کہ فوجیں واپس چلی جائیں۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا کی جو اس وقت پریڈیکٹمنٹ ہے وہ یہ ہے کہ بیان ہی دے سکتے ہیں، اب اگر بیان بھی نہ دیں تو کیا دیں؟ کچھ تو فیس سیونگ کرنی ہے نہ۔ 

دفاعی تجزیہ کار (ر)ایئروائس مارشل اعجاز محمود نے کہا کہ جنگ کا جو نتیجہ ہے اب اس کے اوپر ہمیشہ یہ فوگ تو رہتی ہے، جیتنے والے کی اپنی سچائی ہوتی ہے جس کو وہ سبسٹینشی ایٹ کرتے ہیں، آجکل کے زمانے میں خاص طور پہ وڈیو ہر ویپن کے ساتھ، ہر پلیٹ فارم کے ساتھ بہترین ڈیجیٹل ریکارڈنگ ہوتی ہے، وہ دکھائی جا سکتی ہے لیکن ہارنے والا اتنی آسانی سے مانتا نہیں ہے، کیونکہ اس نے بھی تو فیس سیونگ کرنی ہے۔ 

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ فوجیوں کے دل بڑے ہوتے ہیں اور وہ ہار کو مانتے ہیں، پروفیشنل فورسز جو ہیں آرمیز ہوں ایئرفورسز ہوں ان میں یہ ٹریڈیشنز ہیں لیکن وہاں کا بیانیہ فوج تونہیں بنا رہی وہ تو ان کی پولیٹیکل لیڈر شپ بنا رہی ہے۔ 

سابق سفیر مسعود خالد نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون بڑا پرانا ہے، میں ری کال کروں گا یہاں پر کہ 65 کی وار ہوئی تھی انڈیا اور پاکستان کی تو اس وقت ہماری جو انوینٹری تھی وہ موسٹلی امریکن تھی، امریکا نے ہماری امداد روک دی، اس وقت جو یہاں قیادت تھی لیڈر شپ تھی انھوں نے چین سے رجوع کیا اور چین نے ہمیں ایمرجنسی سپلائز دیں، اس کے بعد سے ہی یہ سلسلہ چل رہا ہے۔

پھر میں ایک اور چیز بتانا چاہوں گا کہ لیٹ سکسٹیز میں چین نے ہمیں خاصا بڑا کریڈٹ دیا تھا تین سو ارب ڈالر کا۔ یہ قرضہ ہمارے کچھ اکنامک پراجیکٹس کیلیے اورڈیفنس ایکوپمنٹ کیلیے دیا گیا تھا اور اس وقت چین بڑا غریب تھا تو چین کے ساتھ ہمارا دفاعی تعاون پرانا چل رہا ہے، اس میں پچھلی چند دہایوں میں کہہ سکتے ہیں آپ کہ تعلق بہت مضبوط ہوا ہے۔





Source link