لاہور:
ایمریٹس اور سعودی ایئرلائن سمیت دنیا کی متعدد ایئرلائنز کی بنیادی تربیت کر کے انھیں پاؤں پر کھڑا کرنے والی پی آئی اے آج نہ صرف خود لڑکھڑاتے ہوئے خسارے میں چل رہی ہے بلکہ اس کو فروخت کرنے کیلیے بولی بھی محض کوڑیوں کے بھاؤ لگائی جا رہی ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بے شک پی آئی اے کی نجکاری ہونی چاہیے لیکن اگر پی آئی اے کو بحال کرنے کے لئے اس میں اصلاحات کرتے ہوئے اس ادارے کا بیڑہ غرق کرنے والوں کو پکڑا جائے اور اس کا خسارہ دیگر حکومتی اداروں کے خسارے کی طرح حکومت ایک بار خود برداشت کرتے ہوئے پی آئی اے کو سپورٹ کرے تو پی آئی اے آج بھی منافع بخش ادارہ بن سکتی ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے عام لوگوں میں بھی خاصی بے چینی ہے۔ عوام کے ذہنوں میں متعدد سوالات ہیں کہ پی آئی اے کے ساتھ یہ سلوک کس نے کیا، پی آئی اے کو کس کس نے لوٹا اور ان کیخلاف کیا کارروائی کی گئی؟
سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر آڈیٹر جنرل نے2007ء سے2017ء تک کا مکمل آڈٹ کروایا تو پی آئی اے کے موجودہ حالات تک پہنچنے کی بات سامنے آ گئی کہ کیسے سابقہ آڈٹ فرمز نے آڈٹ کے دوران پی آئی اے کے افسران کی ملی بھگت کر کے نہ صرف اس محکمے میں ہونے والے فراڈ کو پکڑا نہیں بلکہ سامنے آنے والے تمام فراڈ بھی دبا دیئے اور ان فراڈ کے ذمہ داروں کیخلاف کوئی کارروائی کرنے کی سفارش تک نہیں کی۔
اس حوالے سے پی آئی اے میں سب سے بڑا فراڈ ٹکٹنگ کی مد میں ہوا جو 44 ارب 50 کروڑ روپے کا تھا۔ اس کے بعد پی آئی اے کے لئے خریدے گئے آلات کی مد میں بھی فراڈ کیا گیا۔ 24 ہزار ڈالر کے آلات کی قیمت کو درج کرتے ہوئے اسے 3 لاکھ 40 ہزار ڈالر کر دیا گیا لیکن اس پر بھی کسی ذمہ د ار کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ٹکٹوں کی فروخت کے حوالے سے ایک نئی سافٹ ویئر کمپنی کو ڈیڑھ ڈالر فی ٹکٹ کنٹریکٹ دیا گیا حالانکہ سابقہ کمپنی یہی کام صرف 46 سینٹ فی ٹکٹ میں کر رہی تھی۔ اتنے بڑے بڑے فراڈ سامنے آنے کے باوجود حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا جس کی وجہ سے مزید گھپلے ہوتے رہے۔
اس کے علاوہ پی آئی اے میں ایسے افسران کو تعینات کیا جاتا رہا جن کا کوئی تعلق ایوی ایشن سے نہیں تھا بلکہ انہیں تو ایک ایئر بس اور بوئنگ طیارے میں فرق تک کا علم نہیں تھا لیکن انہیں بڑی بڑی سیٹوں پر بٹھا دیا گیا۔ پی آئی اے کے 11 بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے اکثریت کو پی آئی اے کی الف ب تک کا علم نہیں ہوتا تھا۔
اس کے علاوہ پی آئی اے کے کل 35 جہازوں میں سے صرف14 یا15 آپریشنل ہیں جو اس کے خسارے کی بڑی اور بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے کہ آپریشنل فضائی بیڑے میں جتنی زیادہ تعداد ہو گی، خسارہ اتنا ہی کم ہو گا۔
2011 میں پی آئی اے کے لئے پہلی بار50 سے 55 ارب روپے کا بیل آؤٹ پیکج مانگا گیا تاکہ پی آئی اے اپنا خسارہ پورا کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکے لیکن وہ بیل آؤٹ پیکج نہیں دیا گیا تو آنے والے چند سالوں میں پی آئی اے کا خسارہ 272 ارب روپے سے 400 اور آج 800 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اس خسارے کی ایک بڑی وجہ پی آئی اے کے انجیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی سستی اور نااہلی ہے جس نے ایئربس اور بوئنگ سمیت دیگر طیارہ ساز کمپنیوں کے ساتھ کنٹریکٹ موجود ہونے کے باوجود خراب طیارے ٹھیک نہیں کروائے جبکہ طیاروں کی دیکھ بھال، مرمت اور آلات کی خریداری کا معاہدہ فرانس ورلڈ ایوی ایشن کے ساتھ کرنا بھی پی آئی اے کے خسارے کی وجوہات بنا اور یہ سب کچھ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں لکھا ہوا ہے۔
پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شروع ہوا تو آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو اس کی ویب سائٹ سے بھی ہٹا دیا گیا۔ پی آئی اے کے کچھ سابقہ ملازمین نے ان حالات میں عدلیہ سے رجوع کیا تو ان کی شنوائی ہی نہیں ہو سکی۔
حکومت اگر چاہے تو پی آئی اے کو دوبارہ سے منافع بخش ادارہ بنا سکتی ہے لیکن اس کے لئے حکومت کو سخت فیصلے لینے کی بجائے ایسے پروفیشنل افراد جو نہ صرف پی آئی اے کو سمجھتے ہیں بلکہ دنیا کی مختلف ایئرلائنز کو کامیابی کے ساتھ چلا بھی رہے ہیں، کو واپس بلا کر فری ہینڈ دینا ہو گا جس سے اس ادارے کو بیچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔
پی آئی اے کے لندن اور فرینکفرٹ کے روٹس کی مالیت ساڑھے تین سو سے چار سو ملین ڈالر ہے جبکہ پی آئی اے دیگر ساڑھے تین سو سے زائد ایسے منافع بخش روٹس ہیں جن کی ری سٹرکچرنگ کی جائے تو حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ پی آئی اے سے دہائیوں سے وابستہ ملازمین کا بھی یہی موقف ہے کہ حکومت اگر بیل آؤٹ پیکج دے کرایماندار و پروفیشنل افسران کو واپس اہم سیٹوں پر تعینات کر کے انہیں ٹارگٹ دیئے جائیں تو صرف دو یا تین سالوں میں پی آئی اے دوبارہ منافع بخش ادارہ بن جائے گا۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پی آئی اے کو خریدنے کے لئے کوئی ایوی ایشن کمپنی نہیں بلکہ رئیل اسٹیٹ ڈویلپر سامنے آئے جس سے پی آئی اے ملازمین، عام عوام اور اوورسیز پاکستانیوں میں بڑا تذبذب پایا جاتا ہے جو بیرون ملک سے پاکستان آمد کا سفر کرنے کے لئے ہمیشہ پی آئی اے کو ترجیح دیتے رہے ہیں۔
اگر پی آئی اے کی بحالی کے لئے ان اوورسیز پاکستانیوں سے مدد مانگی جائے تو نہ صرف پی آئی اے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی بلکہ اس کو بیچنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔