اسلام آباد:
رہنما تحریک انصاف نعیم حیدرپنجوتا نے کہا کہ ہم پہلے دن سے عدلیہ کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں.
رہنما مسلم لیگ (ن) رانا احسان افضل کا کہنا ہے کہ ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے ابھی جو ترا میم ہوئیں اس میں سے پی ٹی آئی کو علحیدہ کر دیں تو باقی سب جماعتیں اس کا حصہ بنیں، حکومت نے پہلے تیزی کرنے کی کوشش کی ناکام ہو گئی لیکن پھر ایک وسیع البنیاد اتفاق رائے ہوا۔
سب جماعتیں آپس میں ملیں، پی ٹی آئی بھی بیٹھی تو میرے خیال میں جب تک یہ چیز حتمی شکل اختیار نہیں کر لیتی اس پر واویلا مچانے کی کوئی تک نہیں بنتی، ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا الیکشن سے پہلے کا مطالبہ ہے کہ بلدیاتی حکومتوں کو آئینی تحفظ ملنا چاہیے ان کا تسلسل برقرار رہنا چاہیے۔
رہنما تحریک انصاف نعیم حیدرپنجوتا نے کہا کہ ہم پہلے دن سے اپنا موقف رکھتے ہیں کہ کسی غلط کام کو ووٹ نہیں کریں گے، ان کا مقصد یہ تھا کہ عدلیہ کو کمپرومائز کیا جائے، ہم پہلے دن سے عدلیہ کی آزادی کی حمایت کرتے ہیں، جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے جو سارا عمل کیا گیا ہے جو ترامیم کی گئی ہیں ہم ان کے خلاف ہیں۔
ماہر قانون حسن رضا پاشا نے کہا کہ 26ویں ترمیم میں حکومت کے کچھ نہیں بہت سارے کام رہ گئے تھے یقیناً جو ابتدائی مسودہ تھا اس میں سے بہت ساری چیزیں آخری مسودے میں سے کاٹ دی گئیں لیکن ابھی تک کوئی چیز سامنے نہیں آ رہی کہ ستائیسویں ترمیم کیا ہے، اس کے بارے میں قیاس آرائیاں ہیں، ابھی تک کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی تو ہم کس پربات کریں؟
کیا ہم یہ بات کریں کہ ستائیسویں ترمیم جو ہونے جا رہی ہے وہ نہیں ہونی چاہیے ،تجزیہ کار قیوم صدیقی نے کہا کہ نئی اسٹیبلشمنٹ تو نہیں ہے پرانی اسٹیبلشمنٹ ہے، یحیٰی آفریدی ان ججوں میں شامل ہیں جو پرانا جوڈیشل کمیشن تھا اس میں ججوںکی تقرری کے حوالے سے وہ موجود رہے ہیں پھر جے سی پی کے اجلاس میں ترامیم کے حوالے سے بات ہوئی تھی تو جسٹس یحیٰی آفریدی کے ہی کہنے پر ہی جوڈیشل کمیشن پاکستان کا اجلاس موخر کیا گیا تھا تو یہ کہنا کہ وہ اس عمل کا حصہ نہیں ہیں اور نئی اسٹیبلشمنٹ آگئی ہے میرے خیال میں عجیب سی بات لگتی ہے۔