سی پیک منصوبے کا ’’ہیرا‘‘گوادر پورٹ اور فری اکنامک زون پر پاکستان کی وعدہ خلافیوں کے باعث پوری طرح چمک نہیں پایا ہے۔
پاکستان کی جانب سے ضروری سہولیات ، اراضی کی بروقت فراہمی اور بندرگاہ کو باقی ملک سے منسلک کرنے کے وعدوں پر تاحال جامع پیشرفت نہیں ہو سکی۔
ذرائع کے مطابق سی پیک کے آغاز کو 10 سال گزرنے کے بعد بھی بندرگاہ کو بجلی کے نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں کیا گیا، گوادر فری اکنامک زون کی ترقی کے لیے جو زمین دینے کا وعدہ کیا گیا تھا وہ بھی فراہم نہیں کی گئی اور نہ ہی بندرگاہ کا سڑک یا ٹرین کے ذریعے ملک کے دیگر حصوں کیساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
سیکرٹریٹ کے اکتوبر کے جائزے کے مطابق سی پیک 7 ارب ڈالر کے آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں سے متضاد ہیں۔
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ وہ 2035 تک خصوصی اقتصادی اور برآمدی پروسیسنگ زونز کو دی گئی تمام مراعات ختم کر دے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ یہ معاملات حال ہی میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے دوران اٹھائے گئے۔ انہوں نے ان مسائل کے حل کے لیے ہدایات بھی جاری کیں ، ماضی میں کئی بار وزیر پلاننگ کی جانب سے ایسی درجنوں ہدایات دی جا چکی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ چین نے اس سال مئی میں ہونے والی 13ویں مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس کے دوران تمام تصفیہ طلب مسائل کو اٹھایا لیکن صورت حال جوں کی توں ہے۔ پاکستان نے40 سال کی مدت کے لیے گوادر پورٹ کا انتظام اور آپریشن چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی پرائیویٹ لمیٹڈ کے حوالے کر دیا تھا۔
پاکستان کیلئے یہ بندرگاہ سی پیک کی حب اور باقی دنیا کے لیے "گیٹ وے ہے۔ تاہم وعدوں کی آزادانہ تکیمل کیلئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے۔ 11 سالوں میں کسی بھی چینی وزیر اعظم کے پہلے دورے کے دوران، کرنسی کے تبادلے سے متعلق معاہدے کے علاوہ سی پیک کے تحت کسی بڑے نئے معاہدے پر دستخط نہیں کیے گئے۔ گوادر پورٹ اتھارٹی چائنہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کوفری زون اراضی دینے کا عہد کیا تھا تاہم دستاویزات کے مطابق زون اب بھی نیوی اور پاک کوسٹ گارڈ کے کنٹرول میں ہے۔
اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ماضی میں متعدد میٹنگز ہو چکی ہیں۔ پاکستان نے ٹیکسوں میں مکمل چھوٹ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن چائنہ اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کی تجارت اب بھی خام مال کی درآمد پر مختلف صوبائی ٹیکسز، سٹیمپ اور دیگر ڈیوٹیز سے مشروط ہے۔ ریلوے کی سہولت، ایم ایٹ روڈ لنک اور دیگر سڑکوں کی تکیمل پاکستان کی ذمہ داری تھی تاہم اہم کئی منصوبے، ایم 8 اور دیگر سڑکیں ابھی زیر تعمیر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گوادر میںگیس اور نقل و حمل کی سہولیات اور بجلی کی ترسیل کی کمی جسی سہولیات کا فقدان ہیے۔ جے سی سی میٹنگ کے دوران پاکستانی حکام نے بتایا کہ 1.2 ایم جی ڈی آر او ڈی پلانٹ سے پانی کی سپلائی لائنیں گوادر پورٹ اور نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے منسلک کر دی گئی ہیں۔
نارتھ فری زون کو بجلی فراہم کرنے کے لیے دو فیڈرز بھی لگائے گئے ہیں، جبکہ ساؤتھ فری زون کی الیکٹریفکیشن جون 2025 تک مکمل ہونے کی امید ہے۔ پاکستانی حکام نے بتایا کہ آر ایم بی انٹرنیشنلائزیشن کا معاملہ متعلقہ حکام کے ساتھ پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے، جس میں سفارش کی گئی ہے کہ گوادر فری زون (جی ایف زیڈ) کو پاکستان میں ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز اور اسپیشل اکنامک زونز کے قانونی فریم ورک کے مطابق سہولیات فراہم کی جا ئیں۔
Source link