وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے یونائیٹڈ نیشن فنڈ فار پاپولیشن ایکٹوٹیز کے وفد کی ملاقات 

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے یونائیٹڈ نیشن فنڈ فار پاپولیشن ایکٹوٹیز کے وفد کی ملاقات 


وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ  نے یونائیٹڈ نیشن فنڈ فار پاپولیشن ایکٹوٹیز (UNFPA) کے وفد سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی ترقی اور عوام کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کا فارمولہ طے ہونا چاہئے۔

ترجمان وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق وفد کی سربراہی UNFPA کے ملکی نمائندہ  ڈاکٹر لوئے شبانے کر رہے ہیں، ملاقات میں ڈی جی NUST ڈاکٹر اشفاق خان، UNFPA سندھ کے سربراہ مقدر شاہ اور  رینوکا سوامی شریک تھے، صوبائی وزیر پاپولیشن ڈاکٹر عذرا پیچوہو، پرنسپل سیکریٹری آغا واصف، سیکریٹری پاپولیشن حفیظ اللہ عباسی اور دیگر بھی موجود تھے۔ 

ملاقات میں این ایف سی ایوارڈ پر تبادلہ خیال، وسائل کی تقسیم اور اس کے اثرات پر گفتگو کی گئی، این ایف سی ایوارڈ کے فارمولے اور ملکی ترقی میں کردار پر وزیراعلیٰ سندھ کو ڈی جی NUST ڈاکٹر اشفاق خان نے بریفنگ دی، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایک آئینی ادارہ ہے جو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا تعین کرتا ہے۔

ڈاکٹر اشفاق خان  نے کہا کہ آئین کے مطابق صدر پاکستان ہر پانچ سال بعد این ایف سی تشکیل دیتا ہے، کمیشن وفاق اور صوبوں میں مالیاتی تقسیم کا طریقہ کار  طئے کر تا ہے، پاکستان میں دو اقسام کے مالیاتی عدم توازن ہیں، ایک عمودی (vertical) اور دوسرا افقی (horizotan) مالیاتی عدم توازن موجود ہیں، پاکستان میں 90 فیصد سے زائد ٹیکس وفاقی سطح پر جمع کیا جاتا ہے۔   

انہوں نے بتایا کہ صوبائی سطح پر صرف 10 فیصد ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، وفاقی سطح پر کلیکشن کی وجہ سے صوبے وفاق پر انحصار کرتے ہیں، سنہ 1947 سے پہلے برطانوی ہندوستان میں 1935 کے ایکٹ کے تحت نی میئر ایوارڈ کے ذریعے وسائل کی تقسیم کی جاتی تھی، پاکستان کے قیام کے بعد پہلا این ایف سی ایوارڈ 1951 میں تیار کیا گیا، جو “ریئزمین ایوارڈ” کے نام سے مشہور تھا۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ سنہ 1971 سے پہلے وسائل کی تقسیم جی ڈی پی کارکردگی اور ٹیکس وصولی کی بنیاد پر ہوتی تھی، جبکہ آبادی کو شامل نہیں کیا گیا تھا، سنہ 1971 کے بعد سے چھٹے این ایف سی ایوارڈ تک آبادی وسائل کی تقسیم کا بنیادی معیار رہا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بھی جی ڈی پی پرفارمنس اور ٹیکس کلیکشن کی بنیاد پر ہوتی تھی، ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں پہلی بار وسائل کی تقسیم کے لیے مختلف معیارات اپنائے گئے۔

ڈاکٹر اشفاق خان نے کہا کہ ان معیارات میں آبادی 82 فیصد ، پسماندگی 10.3 فیصد، ریونیو جنریشن 5 فیصد، آئی ڈی پی 2.7 فیصد رکھا گیا، دنیا کے بڑے ممالک جیسا کہ امریکا، جرمنی، کینڈا اور آسٹریلیا میں آبادی کو کوئی ترجیح نہیں، ساؤتھ افریکا آبادی کو 7 فیصد، نائیجیریا  30فیصد اور انڈیا 15 فیصد ترجیح دیتا ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ  نے کہا کہ سنہ 2008ء سےپاکستان پیپلز پارٹی کا مؤقف رہا ہے کہ سیلز ٹیکس مکمل طور پر صوبوں کو وصول کرنے دیا جائے، صوبے صارف کے قریب ہیں اس لیے ٹیکس کلیکشن بہتر ہوگی۔

اجلاس میں تجویز دی گئی کہ پاکستان کے نیشنل فنانس کمیشن کو غیر سیاسی کیا جائے، فنانس کمیشن میں صرف ٹیکنوکریٹس کو ہی رکھا جائے۔

بریفنگ  میں کہا گیا کہ انڈیا کے نیشنل فنانس کمیشن کے تمام ریاستوں کو نمائندگی نہیں ہے صرف پانچ ریاستیں نمائندہ ہیں ،انڈیا میں ہر فنانس کمیشن میں وسائل کی تقسیم کے معیار تبدیل ہوتا ہے، انڈیا میں زیادہ تر توجہ گرین انڈیا جس میں جنگلات، ماحولیات کے پیرامیٹرز این ایف سی کا حصہ ہوتے ہیں، انڈیا کی تمام فاریسٹ کوریج 24.6 فیصد ہے، جبکہ پاکستان کی 4.8 فیصد ہے۔

تجویز دی گئی کہ  این ایف سی کے معیار میں آمدن گیپ 30 فیصد، آبادی 15 فیصد، ڈیموگرافک 17.5 فیصد، ہیومن ڈولپمینٹ 10، ایریا 7.5 ، ٹیکس کلیکشن 5 فیصد اور فاریسٹ کوریج 5 فیصد رکھی جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ این ایف سی پرمزید گفتگو شنید جاری رکھی جائے تاکہ اچھا فارمولہ طے ہوسکے،  ایسا فارمولہ ہونا چاہئے کہ ملک میں مساوی وسائل کی تقسیم، غربت کا خاتمہ اور ترقی کو یقینی بنایا جاسکے، ملکی ترقی اور عوام کی بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کا فارمولہ طے ہونا چاہئے۔





Source link