ہماری آج کل کی نوجوان نسل زندگی کے مفہوم اورمقصد کی تلاش سے محروم دکھائی دیتی ہے۔
بیشتر نوجوان اپنے آپ، حالات، معاشرے اور زندگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ لیکن کیا ہم ان کومورد الزام ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہوسکتے ہیں؟ اس مسئلے کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو وہ ماحول ہی نہیں دیاجو اْنہیں ایک ذمہ دارشہری اوربہترانسان بننے میں معاون ثابت ہوسکے۔ ہمیں نوجوانوں کوسمجھنے اورجدید دورکے تقاضوں کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی مایوسی، نفسیاتی اورذہنی مسائل کی وجوہات اور ان کا حل تلاش کرنا ضروری ہے ۔
معاشرے میں بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لیے کافی ہیںکہ اجتماعی طور پر معاشرے میں عدم برداشت اورناانصافی عام ہو چکی ہے۔ یہ معاشرتی مسائل بھی ان ذہنی امراض کوجنم دیتے ہیں جب کہ ان مسائل کی دیگرسماجی وجوہات میں گھریلوتشدد، بے روزگاری، بچوں کے ساتھ زیادتی اورتشدد، پدرشاہی نظام اورخواتین کے ساتھ ہراسگی وغیرہ بھی شامل ہیں، جو نہ صرف پہلے سے موجود عارضوں کوشدید کردیتے ہیں بلکہ نئے مسائل کو بھی جنم دیتے ہیں۔
بچے بڑے ہو کر نفسیاتی مسائل کاشکار یوں ہی نہیں ہوجاتے بلکہ ان کے بیج بچپن میں ہی ان کے اذہان میں بودیے جاتے ہیں۔ ان پرہونے والا تشدد، عدم مساوات، والدین کی غفلت، بے جا سختی اوردباو ٔان میں نفسیاتی مسائل کوجنم دیتا ہے۔ والدین کوچاہیے کہ آج کل کے جدید دورمیں جہاں بچوں کے مسائل کی نوعیت مختلف ہے، ان کی تربیت کے لیے بھی ماڈرن پیرینٹنگ کے طریقے سیکھیں تاکہ ان کا رویہ بچوں کے ساتھ دوستانہ ہو اوربچے ہرموضوع پر والدین سے گفتگوکرسکیں اوررہنمائی لے سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ ان نفسیاتی مسائل کی وجہ سے غلط دوستیوں کی صحبت اختیار کر لیں گے یا نشے وغیرہ کی لت میں پڑجائیں گے۔
نئی نسل میں مختلف قسم کے نشوں کی عادت بھی ذہنی بیماریوں کا سبب ہے چونکہ ان کونشہ ذہنی سکون کا ایک آسان حل نظرآتا ہے،اس وجہ سے نوجوان لڑکے لڑکیاں اس کی طرف راغب ہورہی ہیں۔ جس میں آج کل سب سے خطرناک نشہ آئس نوجوانوں میں عام ہوتا جا رہا ہے بلکہ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ لڑکیاں بھی اس خطرناک نشے میں مبتلاہورہی ہیں اور اس لعنت کا شکار کالجزاوریونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ ہو رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کوئی روک ٹوک نظر نہیں آ رہی اور یوں لگتا ہے کہ یہ نشہ آسانی سے نوجوانوں کی دسترس میں ہے۔ ارباب اختیار کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
اس حوالے سے معروف ماہرنفسیات ڈاکٹر میاں افتخارحسین بتاتے ہیں کہ پچھلے سات آٹھ سال میں دیگرمنشیات کی نسبت آئس کارحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے اورہمارے پاس روزانہ درجنوں ایسے کیسز لاتے جاتے ہیں جو افراد اس نشے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ویسے تواس خطرناک نشے کے بہت سے مضمرات ہیں لیکن اس کے پینے سے ذہنی صلاحیت مفلوج ہوجاتی ہے،پہلے پہل تو آئس کے نشے سے انسان خودکو کئی گنا زیادہ متحرک اورچست محسوس کرتا ہے، اس کے حواس اتنے متحرک ہوتے ہیں کہ جوچیزاور بات وجود نہیں بھی رکھتی، وہ اسے نظرآنے لگتی ہے۔ انہوں نے بتایاکہ چرس، ہیروئن وغیرہ جیسے دیگر نشے انسان پر غنودگی جیسی کیفیت طاری کر دیتے ہیں لیکن آئس ایسا نشہ ہے جو نشہ کرنے والے کوبظاہر توانائی دیتا ہے، جسم اوردماغ کواتنا متحرک کردیتا ہے کہ نشہ کے زیر اثرشخص وہ دیکھنے اورسوچنے لگتا ہے جو حقیقت میں موجود ہی نہیں ہوتا۔
ڈاکٹر میاں افتخارحسین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ آئس کے نشے میں مبتلا افرادکی تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے جس میں نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور بڑی عمرکے لوگ بھی شامل ہیں۔ نشے کا ذہن پر اثر ایسا ہوتا ہے جیسے سائیکوسس یا شیزوفرینیا۔ اسی طرح آئس استعمال کرنے والوں میں ڈیلیوژن پیدا ہوتے ہیں یعنی تخیلاتی حالت، اْسے ہر ایک پرشک ہونے لگتا ہے حتیٰ کہ اپنی بیوی، گھر والوں اوربچوں پر بھی، وقت کے ساتھ ساتھ دوستوں اورقریبی لوگوں کے بارے میں عجیب وغریب خیالات ذہن میں جگہ بنانے لگتے ہیں اورانہی بے سروپاخیالات کے زیراثر بعض اوقات نشہ میں مبتلا شخص اپنے پیاروں کونقصان اوریہاں تک کہ قتل تک کردینے سے گریزنہیں کرتا۔
طبی ماہرین کے مطابق آئس کا عادی شخص حقیقت سے دور ہوتاجاتا ہے اوراْس کی سوچ بتدریج انتہائی منفی ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کے رویے میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ آئس استعمال کرنے والے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں، بعض اوقات انہیں وہ آوازیں سْنائی دینے لگتی ہیں جوحقیقت میں وجود نہیں رکھتیں۔ وہ حالت شک میں رہتے ہیں جیساکہ گھرمیں دیے جانے والے کھانے کودیکھ کر انہیں لگتا ہے کہ کسی نے اس میں زہر ملا دیا ہو، بعض مریض اس کیفیت میں اپنی جان لینے سے بھی گریزنہیں کرتے کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مسائل کا حل اب صرف موت ہے۔ ماہرین کے مطابق بعض اوقات ڈیپریشن میں مبتلا لوگ نشے کا استعمال شروع کردیتے ہیں اورپھر وہ مزید ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں۔
ماہرنفسیات سندس پروین نے بتایاکہ انسانی دماغ کے اندرایک پاتھ وے ہے جس سے ڈوپامین پیدا ہوتاہے اوریہ ڈوپامین خوشی دینے والے ہارمونزہیں۔ نشے میں جب یہ ہارمونزریلیزہوتے ہیں تونشہ کرنے والاشخص وقتی خوشی محسوس کرتاہے، ڈوپامین کے زائد اخراج سے حواس اس حد تک تیزہوجاتے ہیں کہ وہ دکھائی دینے لگتاہے جوحقیقت میں موجود نہ ہو، وہ سنائی دینے لگتا ہے جوخیالی ہو۔
جب آپ ذہنی صحت کے مسائل اورنفسیاتی دباؤکاشکار ہوتے ہیں تویوں لگتاہے جیسے زندگی ختم ہوجائے گی، لیکن یہ یاد رکھیں کہ انسانی زندگی میں کوئی بھی حادثہ انسان کومکمل طور پرختم نہیںکر پاتا، ہاں یہ آپ کوتوڑضرورسکتا ہے لیکن مکمل تباہ نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت حال میں انسان کا ذہن مفلوج ہوجاتاہے۔ اس کی سوچنے،سمجھنے اورفیصلہ کرنے کی صلاحیت مدھم پڑجاتی ہے، انسان کو یوں لگتاہے جیسے وہ کسی بندگلی میں داخل ہوچکا ہے جہاں آگے دیکھنے کی بجائے وہ اردگرد مختلف سہاروں کی تلاش میں لگارہتا ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہم اندھیرے کمرے میں ٹٹولنا شروع کردیتے ہیں، ذہنی دباؤکی کیفیت میں انسان اپنی صلاحیتوں پرنہیں بلکہ اپنی کم زوریوں پرتوجہ دیتا ہے، اپنی کوششوں پرنہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پرتوجہ دیتاہے، اپنے حالات سے نکلنے کے لیے کسی مسیحاکی تلاش کرتاہے، بے یقینی، بے چینی اورہیجان کی کیفیت سے دوچاررہتا ہے۔
آج کل نوجوانوں میں ڈپریشن،خوف کے بہت سارے مسائل ہوتے ہیں جن پرکوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ نوجوانوں میں ڈپریشن کیوں بڑھ رہا ہے؟ جب ایک بچہ جوان ہوتا ہے تواس میں بہت ساری تبدیلیاں رونماہوتی ہیں،جسمانی اورذہنی تبدیلیاں بھی آتی ہیں،یہ سب نارمل چیزیں ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کو مناسب رہنمائی نہیں ملتی، اْس سے بہت سے نفسیاتی اورسماجی مسائل پیداہوتے ہیں۔
ذہنی صحت کی تعلیم کی بھی کمی ہے، ہم بچوں اوربالغ افرادکونہ جنس کی تعلیم اورنہ ذہنی صحت کی تعلیم دیتے ہیں جب اْن کوکوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ ڈپریشن ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے، کئی افراد تنگ ا کر خودکشی تک کر لیتے ہیں۔ نفسیاتی مسائل کو شدت کے اعتبار سے ادویات، کونسلنگ اورتھراپی سے ٹھیک کیاجاسکتاہے، نوجوانوں میں ذہنی صحت اورنفسیاتی مسائل کی بے شمار وجوہات ہیں، ان مسائل کی نشاندہی کرنا بہت ضروری ہے،
ان مسائل کے بارے میں آگہی فراہم کرنے کے لیے حکومتی سطح پراقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ماہر نفسیات کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پرہی نہیں بلکہ ٹی وی پرڈراموں اورفلموں کی صورت میں ان موضوعات کو زیربحث لاکرمعلومات فراہم کی جانی چاہیں۔ مزید یہ کہ ان بیماریوں کے سماجی اسباب کاسدباب کرنا بھی ناگزیر ہے، ان کونظر اندازکرنا اوران سے غفلت برتنا معاشرے کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے معاشرے میں بڑھتی ہوئی سماجی ناہمواریاں ختم کرائیں اوربڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، سیاسی اورمعاشی عدم استحکام کے پیش نظر نوجوانوں کوان کی صلاحیتوں سے بھرپوراستفادہ حاصل کرنے کی ہمت بندھائیں تاکہ وہ زندگی کے چیلنجزکا مقابلہ کرسکیں۔