میاں نواز شریف کو مسلم لیگ ن کی اصل سیاسی طاقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک بھی نواز شریف ہی کے گرد گھومتا ہے ۔وہی مسلم لیگ ن کے مسلمہ لیڈر ہیں اور پارٹی معاملات ہوں یا پارٹی کا سیاسی موقف سب ان ہی کی طرف دیکھتے ہیں ۔ لیکن جب سے مسلم لیگ دوبارہ اقتدار میں آئی ہے،میاں نواز شریف سیاسی امور پر محتاط اور کم گفتگو کرتے ہیں، ان کے سیاسی مخالفین کا کہنا تو ہے کہ میاں نواز شریف سیاسی تنہائی کا شکار ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ ان کے ہاتھ پاؤں کافی حد تک بندھے ہوئے ہیں بلکہ وہ سیاسی جکڑ بندیوں کا شکار ہیں۔
وہ سوچتے تو بہت ہیں اور بہت کچھ کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں مگر عملاً بے بس ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس وفاق میں وزارت عظمیٰ اور نائب وزیراعظم کا عہدہ ہے جب کہ پنجاب میں مسلم لیگ کلی اقتدار کی مالک ہے ، شاید اس وجہ سے وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں سیاست پر محتاط اور کم گفتگو کرنا چاہیے ۔ بہرحال ان کی اس حکمت عملی یا مجبوری پر کئی طرح کے سوالیہ نشان ہیں ۔
نواز شریف جانتے ہیں کہ ان کی وطن واپسی کیسے ممکن ہوئی اور مسلم لیگ ن کو اقتدار کیسے ملا ہے۔ اس اقتدار میں پیپلز پارٹی ، ایم کیوایم اور بلوچستان کی باپ پارٹی بھی سٹیک ہولڈرز ہیں۔موجودہ حالات میں اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ بھی معاملات بہتر چل رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں میاں نواز شریف پر جو مقدمات درج ہوئے تھے، ان سے بھی وہ بری ہوچکے ہیں۔
وہ اقتدار کے کھیل میں کم ازکم خود کو کئی دفعہ ایک سیاسی قیدی کے طور پر دیکھتے ہیں اور ان کو بخوبی اندازہ ہے کہ اس اقتدار کے کھیل میں ان کو سیاسی محاذ پر ایک بڑی سیاسی قربانی اپنی سیاست کی بھی ادا کرنا پڑی ہے ۔اگرچہ شریف خاندان مضبوط ہے اور ان میں آپس میں کوئی فیملی تنازعہ نہیں ہے اور نہ سیاسی حکمت عملی میں اختلافی نوعیت کا تنازعہ موجود ہے۔
البتہ موجودہ صورتحال میں مفاہمتی سیاست ، اقتدار کے کھیل اور اسٹبلیشمنٹ کے ساتھ تعلقات کی کہانی میں میاں نواز شریف کا سیاسی کردار محدود نظر آتا ہے ۔کئی دفعہ یہ اعلان کیا گیا کہ وہ جلد ہی چاروں صوبوں کا دورہ کرکے پارٹی کی سطح پر جو بھی تنظیمی معاملات ہیں اس کی خود براہ راست نگرانی کریں گے یا پارٹی کو فعال کرنے کی ذمے داری انھوں نے خود اپنے کندھوں پر ڈال لی ہے ۔لیکن عملاً ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، موجودہ حالات میں وہ کریز سے باہر نکل کر سیاست نہیں کرنا چاہتے ۔
میاں محمد نواز شریف کبھی کبھی جاتی عمرہ یا مری میں عام لوگوں میں کھڑے ملتے ہیں یا کبھی پنجاب کے حکومتی معاملات پر وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نوازکی سیاسی سرپرستی کرتے اور حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں ۔لیکن مسلم لیگ ن کی قومی سیاست اور وفاقی حکومت کے بہت سے سنجیدہ اور اہم معاملات پر مشاور ت میں ان کا کردار محدود نظر آتا ہے۔
مسلم لیگ ن کو جو تنظیمی چیلنجز درپیش ہیں یا وہ سیاسی چہرے جو مسلم لیگ ن کی عوامی ساکھ بحال کرسکتے ہیں، وہ کہیں گم ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا فورمز پر ان کے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ ان کے حامی بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پنجاب میں میاں نواز شریف کی گرفت ویسی نہیں جو ماضی میں تھی ۔ پنجاب میں پی ٹی آئی تاحال ایک مضبوط ووٹ بینک کی مالک ہے۔ 8فروری کے انتخابی نتائج اس کا ثبوت ہے ۔ مسلم لیگ ن تاحال پی ٹی آئی کے مقابلے میں کوئی ایسا سیاسی بیانیہ دینے میں کامیاب نہیں ہوئی جس کے نتیجے میں پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہوسکے ۔
اقتدار کے لیے سیاسی بندوبست کو قبول کرکے میاں نواز شریف نے اپنا سیاسی موقف کمزور کیا ہے ۔اقتدار کی راہ تو ہموار ہوگئی مگر سیاسی راستوں میں وہ تنہا ہوئے ہیں اور پارٹی کو بھی تنہا کیا ہے۔ اس وقت کیونکہ ان کی جماعت اقتدار میں ہے اس لیے بظاہر سب اچھا ہی نظر آتا ہے مگر جو سیاسی حرکیات کو سمجھتا ہے وہ جانتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کی سیاست کہاں کھڑی ہے۔
مسلم لیگ کا سیاسی کردار مثالی نہیں بلکہ مفاہمت پسندانہ اور جوڑ توڑ کی سیاست پر مبنی ہے۔ میاں شہباز شریف کی تقاریر سے بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انھیں اپنے دائیں بائیں دیکھ کر چلنا پڑتا ہے ۔ ایک جانب اسٹیبلیشمنٹ ہے تو دوسری جانب پیپلزپارٹی کی دو رخی سیاست ہے ۔ پیپلز پارٹی اقتدار کی سٹیک ہولڈر بھی ہے جب کہ مسلم لیگ ن کے مخالف کیمپ میں بھی کھڑی نظر آتی ہے۔
پیپلزپارٹی کی دوہری سیاست یا حمایت کے معیارات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ نے خود کوسیاسی عمل میں پنجاب تک محدود کرلیا ہے اور ان کی کوشش یہ ہے کہ پنجاب میں ان کا ووٹ بینک مزید بڑھے ۔یہ سب کچھ نواز شریف نے کیا ہے۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ یہ حکمت عملی صرف شہباز شریف کی ہے تو یہ درست تجزیہ نہیں ۔کیونکہ نواز شریف خاموش ضرور ہیں لیکن حالات پر ان کی نظر اور گرفت موجود ہے، شہباز شریف کے تمام فیصلوں میں نواز شریف کی حمایت اور تائید شامل ہوتی ہے۔
مسلم لیگ ن کے لیے موجودہ سیاسی بندوبست میں آپشن بہت محدود ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ وہ اقتدار کے کھیل میں کمزور پوزیشن پر ہے۔یعنی مسلم لیگ کو کھیل ختم ہونے تک لازمی کھیلنا ہے لیکن کس کھلاڑی کو کس پوزیشن پر کھیلانا ہے ، اس کا فیصلہ کرنا، اس کا کلی اختیار نہیں ہے ۔ اگر میاں نواز شریف یا شہباز شریف ریڈ لائن کراس کریں گے تو اس کا نقصان ان کے خاندان کے اقتدار کو ہوگا اور نہ ہی خاندان کے لوگ چاہیں گے کہ نواز شریف وہ کچھ کرنے کی کوشش کریں جو وہ ماضی میں کرتے آرہے ہیں۔
نواز شریف ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی بنیاد پر شاید سیاست نہ کرسکیں۔یہ بات بجا ہے کہ نواز شریف فطرتاً خاموش طبیعت کے مالک ہیں اور کم بولتے ہیں مگر یہ بوجھ جو انھوں نے اس وقت سیاسی بندوبست کے نام پر اٹھایا ہوا ہے، اسے کب تک اٹھائیں گے اور اگر وہ اس بوجھ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیسے باہر نکل سکیں گے ۔
بانی پی ٹی آئی کے تمام مخالفین کا یہ اندازہ بھی غلط ثابت ہوا کہ وہ جیل کی سختیوں کو برداشت نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی ان کی مقبولیت کا بھرم لمبے عرصہ تک قائم رہ سکے گا۔لیکن بانی پی ٹی آئی کی جو مزاحمت دیکھنے کو مل رہی ہے اس نے بھی مسلم لیگ ن کی سیاست کو بیک فٹ پر کھڑاکیا ہے۔
ادھر مقتدر حلقوں میں بھی یہ سوچ پیدا ہوئی ہے کہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے ۔کیونکہ پی ٹی آئی کی تنقید بڑھ رہی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اس پر قابو پانے کے لیے موثر فیصلے نہیں کر پا رہی ہے ۔ موجود حکومتی بندوبست تاحال بڑے فیصلے نہیں کرپا رہا ہے اور اس میں کسی اور سے زیادہ دخل ان کی اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا ہے ۔ وہ سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوگئے ہیں ، اس سیاست نے ان کو کمزور سیاسی وکٹ پر کھڑا کردیا ہے اور یہ عمل ان کی سیاسی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گا۔