کالم کا مقصد بس ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی طرف توجہ دلانا ہے اور کچھ نہیں۔مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نا م محی الدین ا حمد تھا۔ان کے آبا ؤ اجداد مغل با د شاہ جلا ل الد ین اکبر کے دور میں ہندوستان آئے اور یہیں پر مستقل سکونت ا ختیا ر کر لی۔ 1857 کی جنگ آ زادی کے دوران مو لا نا کے والد محمد خیر ا لد ین ہندو ستان سے ہجر ت کر کے حجا ز مقد س چلے گئے تھے، مولا نا آ زاد 1888 میں مکہ معظمہ میں پید ا ہوئے۔
ان کا بچپن مکہ شہر میں گزرا۔ ا بتدائی تعلیم مکہ میں مکمل کی اور جا معہ ا لازہر (مصر) تشریف لے گئے۔ جامعہ از ہر سے د ین اور فقہ کی تعلیم مکمل کر نے کے بعد وہ ہندو ستان چلے آ ئے اور د ہلی میں قیا م کے دوران آ ل ا نڈ ین نیشنل کا نگرس سے منسلک ہو گئے۔ا نہیں کانگریس کا صد ر چنا گیا۔ مو لا نا آ زاد عمدہ ا نشا پر داز ،جا دو بیان مقر ر اور خطیب تھے ، اعلیٰ پائے کے انشاپرداز اور بے مثل صحا فی تھے۔ وہ مذ ہبی بنیاد پر ہند و ستان کی تقسیم کے مخالف تھے۔ 1944 سے1947 تک کے در میا ن عر صہ میں مو لا نا آ زاد نے اپنے علمی اور سیاسی ویژن کی بنیاد پر پاکستان کے مستقل کے با رے میں اپنے خدشات کا ا ظہا ر کیا تھا۔
ان کے بعض خدشات کسی حد تک درست ثابت ہوئے ہیں۔ بہرحال ہمیں کم ازکم یہ تسلیم کر لینا چا ہیے کہ کم از کم آج کا پا کستا ن قا ئد ا عظم کے وژن سے یکسر مختلف ہے ۔مو لا نا مر حو م کی سوانح حیات پڑ ھنے کی بعد محسوس ہو تا ہے کہ ا نہیں ا ند یشہ تھا کہ پا کستا ن کو ہندوستان میں رہ جانے والے مسلما نو ں کے خلا ف ا یک سیا سی اور نفسیا تی حر بے کے طور پر ا ستعمال کیا جا ئے گا۔ ہندوستان کے کئی مسلمان رہنما بھی ایسے خدشات محسوس کیا کرتے تھے حتی کہ قا ئد ا عظم بھی کسی حد تک ا حسا س ر کھتے تھے۔ ان ر ہنما ؤ ں کے یہ ا ند یشے اس طرزعمل کی بنا پر تھے جو ہند و مہا سبھا اور ا نڈ ین نیشنل کا نگر یس کے بعض لیڈ ر وں نے اختیا ر کر ر کھا تھا ۔د نیا کے مشا ہد ین یہ بھی د یکھ ر ہے تھے کہ انڈین نیشنل کانگریس کی لیڈرشپ دو قو می نظر یے اور مطا لبہ پاکستان کی مخا لفت میں مخلص نہیں ہے بلکہ در پر دہ اس کی حو صلہ ا فز ا ئی کر رہی ہے۔
ایچ ایم سیر وا ئی نے ا پنی مشہو ر کتا ب’’تقسیم ہند ، مفر و ضہ یا حقیقت‘‘ میں و ا ضح لکھا ہے کہ متحدہ ہندوستان کی جدوجہد میں ا نڈ ین نیشنل کا نگرس کا کو ئی لیڈ ر مخلص تھا تو وہ صر ف مو لا ناآزاد تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہند وستان کی تقسیم دراصل مسلمانوں کے لیے کوئی اچھا فارمولا نہیں بلکہ یہ ان کی فلا ح کے بجا ئے ان کے لیے زیادہ پر یشانیوںکا سبب بنے گا ۔ 1946 میں چٹا ن کے مد یر شور ش کا شمیری کو ا نٹر و یو دیتے ہو ئے مولانا آزاد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس کے چند نکات کا خلاصہ کچھ یوں ہے۔
برصغیر پاک وہند کی مسلم کاروباری قیادت اور پڑھے لکھے طبقے کو اپنی صلا حیتو ں، مہارت اور ہمت پر شکوک و شبہا ت ہیں،انھیں سرکاری سر پر ستی اور مہربانیوں کی عا دت پڑ چکی ہے لہٰذا وہ آزاد و خود مختارمتحدہ ہندوستان میں کاروباری اور صنعتی میدان میں کھلے مقابلے سے گھبراتے ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر ہندوستان تقسیم ہوجائے تو نئے ملک یعنی پاکستان میں وہ بغیر کسی مقا بلے کے معیشت اور سرکاری ملازمتوں پر اپنی اجا رہ داری قا ئم کر سکتے ہیں۔
یہ تو ہر پڑھے لکھے پاکستانی کو اچھی طرح پتہ ہے کہ مولانا آزاد نے پیش گوئی کی تھی کہ مشر قی پا کستان (مو جو د بنگلہ د یش)کے لیے طو یل مد ت تک مغربی پاکستان کے سا تھ ر ہنا ممکن نہیں ہو گا کیو نکہ دو نوں خطوں میں کو ئی بھی قد ر مشتر ک نہیں سو ا ئے مذہب کے۔ مشر قی پا کستا ن کی ز با ن ،ر سم ورواج اور ر ہن سہن مغر بی پا کستا ن کے لوگوںکی اقد ار، زبان اور کلچر سے مختلف ہے۔ محمد علی جنا ح اور لیا قت علی خا ن جب تک زند ہ ہیں ، مشر قی پا کستا ن کا ا عتما د متزلزل نہیں ہو گا ،لیکن ان دونو ں ر ہنما ؤ ں کی ر خصت کے بعد کو ئی چھو ٹا سا واقعہ بھی ا نتہا ئی نا را ضی اور ا ضطراب کا سبب بن سکتا ہے۔ عا لمی قو تو ں کے مفا دا ت کی جنگ میں یہ اختلافات شد ید سے شد ید تر ہو تے چلے جا ئیں گے ۔
اگر بفرض مشر قی پا کستا ن الگ ہو جاتا ہے تو با قی ما ندہ پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے عالمی قوتوں کی سا ز شیں بڑ ھیں گی ‘اس صو ر تحا ل میں پاکستا ن کا استحکام مسلسل د با ؤ کا شکا ر ر ہے گا۔ مسلم ممالک بھی بھرپور تعا و ن فر ا ہم کر نے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے، شر ا ئط کے بغیرد یگر ذرایع سے بھی مد د نہیں آئے گی، مجبو راً پا کستا ن سمجھوتو ں پر تیا ر ہو جا ئے گا۔کئی مسلم مما لک کی طر ح پاکستان بھی نااہل سیاسی قیا دت اور فو جی آمروںکی گرفت میں جانے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔پا کستا ن بیر ونی قرضو ں کے بھا ری بوجھ تلے دب جا ئے گا اور معیشت سسک سسک کر جئے گی۔
پاکستان کا ا پنے پڑ و سی ممالک سے دو ستا نہ تعلقا ت کا فقد ان ر ہے گا اور ہمیشہ جنگ کے با دل منڈلا تے ر ہیں گے۔ پاکستان کے ا ند ر د ا خلی شورشیںاور علا قائی تنا ز عا ت سر ا ٹھا نے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔پا کستا ن کے صنعت کاروں اور نو دولتیوں کے ہا تھو ں قو می دولت کی خوب لو ٹ ما ر ہو گی ان نودولتیو ںکے استحصال کے نتیجے میں طبقا تی جنگ پیدا ہو گی۔مغر بی پا کستان خطے میں مو جو د تضا دات اور ا ختلا فا ت کا میدان جنگ بن جا ئے گا پنجاب ، سندھ، سر حد اور بلوچستان کا قومی تشخص بیرونی مداخلت کے دروازے کھو ل دے گا اور وہ و قت دور نہیں ہو گا جب عا لمی قو تیں پا کستان کو بلقا ن اور عر ب ر یا ستو ں کی طرح تقسیم کرنے کی کوشش کریں۔ ان باتوں کو محض رد کرنے سے بات نہیں بنے گی بلکہ دیکھنا چاہیے اور خود احتسابی کرتے ہوئے جاننا چاہیے اورہم ا پنے آپ سے یہ سو ال کیا کریں کہ ہم نے اس کھیل میں کیا کھو یا اور کیا پایا؟‘‘۔
1946میں مو لا نا آ زاد نے ہندو ستا ن کی تقسیم سے قبل بننے و الے نو زا ئید ہ ملک پا کستا ن کا جو نقشہ کھینچا تھا،اسے اس و قت کے مسلم لیگی لیڈروں اور دانشوروں نے سختی سے رد کر د یا تھا لیکن ان میں سے کو ئی بھی نہیں جا نتا تھا کہ پاکستان کے اقتدار پر قابض گروہ پاکستان کو اسی انجام کی طر ف لے جا ئیں گی جس کی پیشین گو ئی مولانا آ ز اد کر ر ہے تھے مو لا نا نے صا ف لفظو ں میں بتا د یا تھا کہ تقسیم کے دوران ہر حالت میں خو ن خر ا بہ ہو گا اور اس تقسیم سے بر صغیر کے مسلما نوں کی قوت ختم ہو جائے گی جو مسلمان ہندوستان میں رہ جا ئیں گے،ان کی حا لت غلا مو ں سے بد تر ہو گی چا ہے۔
ان کا کو ئی پرسا ن حا ل نہیں ہوگا۔پاکستان پر مغرب کا تسلط قا ئم ہوجائے گا اور وہا ںپرانگریز سامراج کی با لو ا سطہ حکمرا نی ہو گی ۔کیاان کی یہ باتیں غلط ہیں یاانھیں نظرانداز کر کے مولانا آزاد کو پاکستان مخالف قرار دے کر خود کو مطمئن کرلیں۔ قیام پاکستان کے فور اً بعد مو لا نا آ زاد نے ا پنی ا یک تقریر میں کہا تھا کہ بر صغیر میں مسلمانوں کی قوت کمز ورہو کر رہ گئی ہے۔ ہندو ستان میں رہ جانے وا لے کروڑوں مسلما ن تو کمز ور ہو ہی گئے ہیںکیونکہ یہ مسلمان اب ہمیشہ پسما ندہ بھی ر ہیںگے دوسری طرف پا کستا ن میں بسنے و الے مسلما ن بظاہر اقتصادی، معا شی، ترقی کر لیں گے لیکن سیاسی پسما ند گی کا شکا ر رہیں گے۔
پاکستان کی مو جو د صورتحا ل یہی ہے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو کچھ مولا نا آ زاد کہہ گئے تھے‘ کیا اسے رد کرنا درست طرز عمل ہے۔کیا پا کستان قا ئد ا عظم کے زر یں اصولوں اور ان کے وژن کے مطا بق چل ر ہا ہے۔مولانا آزاداب ماضی بن چکے ہیں لیکن ان کے سیاسی تجزیے بہرحال اپنی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ متحدہ ہندوستان میں جس سطح کے سیاستدان تھے‘ انھیں بہت سی اندرونی باتوں کا پتہ تھا۔انگریزوں کے ساتھ ملاقاتیںاور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیوں کے وہ عینی شاہد تھے۔ انھیں محض پاکستان مخالف قرار دینے سے بہتر ہے کہ ان کی باتوں کو سامنے رکھ کر خود احتسابی کے عمل سے گزرا جائے۔آج بھی اگر پاکستان کے حکمران طبقات اور دانشورخود احتسابی کر کے آگے بڑھیں تو پاکستان ترقی بھی کر سکتا ہے اور دوسروں کے لیے مثال بھی ۔