مقابلے کا امتحان … (دوسرا حصہ )

مقابلے کا امتحان … (دوسرا حصہ )


خیر اب دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ جس کے متعلق مجھے کسی قسم کی کوئی معلومات نہیں تھیں۔ میڈیکل کالج کے نیو ہاسٹل میں اپنے کمرے میں خاموشی سے سی ایس ایس کا کتابچہ پڑھتا رہا۔ مگر ایک بھی مضمون نہیں تھا جس کے متعلق میری معلومات مناسب تھی ۔دراصل میڈیسن کی تعلیم بذات خود اتنی مشکل ہے کہ انسان پانچ سال تک کسی اور طرف دیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔سلیبیس سے اندازہ ہوا کہ کچھ مضامین لازمی ہیں اور کچھ مضامین منتخب کرنے پڑتے ہیں۔ پورے کتابچے میں صرف Every Day Science کاسبجیکٹ مانوس معلوم ہوا تھا۔

وجہ صرف یہ کہ پوری زندگی سائنس کا طالب علم رہا تھا۔ اب کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھاکہ اس مشکل کا اصل نکتہ کیا ہے اور کہاں سے کام شروع کیا جائے۔ یہ ایسا نازک مرحلہ تھا جس کا فیصلہ صرف میں نے اور میں نے ہی کرنا تھا کیونکہ میرے اردگرد کوئی بھی ایسا شخص نہیں تھا جس نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا ہو۔ میری زندگی میں چند دن اتنے کٹھن تھے کہ واقعی رات کو سو نہیں پاتا تھا ۔ لازم ہے کہ مقابلے کے امتحان میں پڑھنے کے لیے میڈیکل کالج کو عملی طور پر چھوڑنا پڑتا تھا۔ اور یہ مدت کوئی دو چار ہفتوں کی نہیں بلکہ آٹھ سے نو مہینے تک کی تھی ۔ کیونکہ امتحان کے منعقد ہونے میں آٹھ مہینے رہتے تھے ۔

 خود ہی چند مضامین منتخب کر لیے جس میں پولیٹیکل سائنس ‘ سائیکلوجی ‘جنرلزم اور دیگر دو سبجیکٹس تھے۔ ذہنی طور پر ہر درجے مشکل فیصلہ کیا کہ پورے آٹھ مہینے فائنل ایئر کی کوئی کلاس اٹینڈ نہیں کروں گا۔ اور اپنے ہاسٹل سے بھی باہر منتقل ہو جاؤں گا۔اس کی وجہ یہ کہ اگر میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں رہوں گا اور میرے سارے کلاس فیلوز‘ کلاسیں اور وارڈ اٹینڈ کرتے رہیں گے تو میں شدید نقصان کے احساس میں تقابلی طور پر ڈوبا رہوں گا اور اتنے ذہنی دباؤ میں رہوں گا جو میری برداشت سے باہر ہو گا۔ یہ چند دن میری زندگی کے فکری طور پر مشکل دن تھے۔ مگر خدا نے مجھے اتنی ہمت دی کہ میں ڈولے بغیر امتحان کی تیاری کے راستے پر گامزن ہو گیا۔ لہٰذا تمام فیصلے بغیر کسی مشورے کے خود ہی کرنے شروع کر دیے ۔

شادمان مارکیٹ لاہور میں تیسری منزل پر ایک فلیٹ کرایہ پر لے لیا ۔ جس میں ایک میز‘ کرسی اور ایک سادہ سی چارپائی تھی ۔ کرایہ شاید ڈھائی سو یا تین سو روپے تھا۔ یہ 1983کا ذکر ہے ۔ ایک دن پنجاب یونیورسٹی کا رخ کیا اور پولیٹیکل سائنس کے ڈیپارٹمنٹ میں چلا گیا ۔ پنجاب یونیورسٹی کا نیو کیمپس میرے لیے حد درجہ اجنبی سی جگہ تھی۔ یقین فرمائیے کہ کسی قسم کے تعارف کے بغیراس شعبے کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کے کمرے میں چلا گیا ۔گزارش کی کہ میڈیکل کالج سے آیا ہوں ۔ سی ایس ایس کرنا چاہتا ہوں اور آپ سے رہنمائی کی درخواست کرنی ہے۔ اس فرشتہ سیرت اسسٹنٹ پروفیسر کا نام میں بھول چکا ہوں۔ لیکن ان کی شکل آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ ان کے نام کے آخر میں شاہ کا لفظ آتا تھا اور وہ کسی غیر ملکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے ۔

میری باتیں سن کر حیران ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ آپ میرے پاس کس طرح پہنچے ہیں۔ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میرا سپاٹ چہرہ دیکھ کر وہ مسکرائے اور کہا کہ میں ہر طریقے سے آپ کی مدد کروں گا۔ لیکن پولیٹیکل سائنس میں نمبر کم آتے ہیں ۔ اور سی ایس ایس کا امتحان صرف نمبروں کا امتحان ہے ۔

میرے ساتھ اٹھ کر وہ شعبے کی لائبریری میں آ گئے اور ایک ضخیم کتاب دکھائی کہ اسے پڑھوتاکہ کچھ چیزیں سمجھ آ سکیں ۔ یہ Sabine کی لکھی ہوئی کتاب تھی ۔ اگر میں نام غلط لے رہا ہوں تو یہ حافظے کی کمزوری ہے۔ کیونکہ یہ تقریباً چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ یہ تو محض ایک مضمون تھا باقی کیا کیا جائے ۔ میرے سامنے مکمل اندھیرا تھا ۔سچی بات یہ ہے کہ خدا ‘ اندھیرے ہی میں سے روشنی برآمد کرتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی ہی کے سائیکلوجی کے ڈیپارٹمنٹ میں گیا تو وہاں بھی ایک خاتون پروفیسر نے میری بہت مدد کی۔ اس اثناء میں تمام دوستوں کے حلقے میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ میں نے امتحان کی تیاری شروع کر دی ہے۔

اس سے پہلے کہ میں آگے چلوں ایک چیز کا شدت سے احساس تھا کہ میڈیکل کالج میں انگریزی حد درجے ٹیکنیکل سطح کی ہے ۔ اور مجھے چار سال سے سائنسی انگریزی کا ادراک تو بخوبی ہے مگر عام فہم انگریزی لکھنا قدرے مشکل ہے ۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ کیا کروں اولڈ کیمپس گیا ۔ زاہد کو ساتھ لیا اور انگلش ڈیپارٹمنٹ میں چلے گئے۔ وہاں پروفیسر افتخار صاحب سے ملاقات ہوئی۔

موٹی سی عینک لگائے ہوئے حد درجہ زیرک انسان معلوم ہو رہے تھے ۔ عرض کی کہ امتحان کے لیے essay کی تیاری کے لیے آپ کو زحمت دینا چاہتا ہوں۔ اتنے باکمال انسان تھے کہ بڑی شفقت سے کہنے لگے کہ مضمون لکھ کر مجھے دے دیا کرو اور چیک کر کے تمہیں واپس کر دیا کروں گا ۔ پوچھنے لگے کہ کہاں رہتے ہو۔ انھیں شادمان کا بتایا ۔ تو کہا کہ بے شک تم شام کو میرے گھر آ کر اپنا انگری کا مضمون چیک کروا لیا کرو۔ ان کا گھر پنجاب یونیورسٹی کے اندر تھا ۔ ساتھ ہی یہ بھی حکم نامہ جاری ہوا کہ ایک اچھے انگلش کے اخبار کے ایڈیٹوریل کو اپنے لفظوں میں لکھنا شروع کر دو۔ خیر میں نے مسلم اخبار کا انتخاب کیا۔ اس کے ایڈیٹر اس زمانے میں مشاہد حسین صاحب تھے اور ان کی انگریزی کے ایڈیٹوریل حد درجے اعلیٰ ہوتے تھے ۔

ایک دن شکیل فلیٹ پر آیا اور مضامین کی سلیکشن کے متعلق پوچھا ۔جب میں نے پولیٹیکل سائنس اور سائیکلوجی کا ذکر کیا تو حکم نامہ جاری ہوا کہ اس میں شاید نمبر اچھے نہیں آئیں گے۔ میرے لیے یہ بھی خبر تھی مگر ذہن میں یہ سوال گونجنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ اسی اثناء میں، میں اردو بازار لاہور سے سیاسیات اور نفسیات کی متعدد کتابیں خرید چکا تھا ۔ دوبارہ سی ایس ایس کے سلیبیس کو غور سے پڑھنا شروع کیا ۔ سوال کیا کہ اپنے علاقے کی پاک و ہند کی تاریخ کو کیوں نہ بطور مضمون منتخب کروں ۔ کیونکہ بہر حال یہ ہمارے اپنے خطے کی تاریخ ہے۔ اگر کوئی مجھ سے آج پوچھے کہ آپ نے برصغیر کی تاریخ ‘ کیوں سلیکٹ کی تو میرے پاس آج بھی اس کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔

 باقی مضامین کے ساتھ کیا کیا جائے۔ میری بے بسی کا اندازہ لگائیے کہ میرے اردگرد ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جو مجھے اس مشکل سے باہر نکال سکے ۔ میں نے بذات خود جنرلزم ‘ پنجابی اور اسلامک لاء کا انتخاب کر لیا ۔ یعنی کہاں پولیٹیکل سائنس اور کہاں برصغیر کی تاریخ ۔ میں نے پولیٹیکل سائنس کا مضمون لینے کا فیصلہ خود ہی ختم کر دیا۔ جنرلزم کی کونسی کتابیں پڑھی جائیں۔ کس سے پوچھا جائے ۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

ایک دن موٹر سائیکل اٹھائی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں چلا گیا۔ وہاں ایک اسسٹنٹ پروفیسر صاحب کے دفتر کا دروازہ ہلکا سا کھلا ہوا تھا اور باہر سے ان کی جھلک نظر آ رہی تھی۔ اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور ان سے پوچھا کہ مقابلے کے امتحان کے لیے کونسی کتابیں پڑھنی چاہئیں۔ کمال شفقت سے انھوںنے مجھے کرسی پر بٹھایا ۔ پوچھا کہاں سے آئے ہو ۔ میڈیکل کالج کا بتایا تو وہ بھی حیران رہ گئے کہ میں کیوں میڈیکل کو چھوڑ کر سی ایس ایس کرنا چاہتا ہوں۔یہ عظیم شخص شفیق جالندھری تھے۔ یقین فرمائیے۔ انھوں نے اس شعبے میں کتابوں کے حصول کے لیے مجھ پر اتنی مہربانی کی کہ اپنے گھر سے بھی کتابیں لا کر مجھے دیتے رہے ۔ ان کا یہ احسان میں مرتے دم تک نہیں بھول سکتا۔

(جاری ہے)





Source link