یکم مئی کو ہر سال دنیا بھر میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
اس اہم دن کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، مزدور اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
فیصل ایوب کھوکھر
صوبائی وزیر برائے لیبر و ہیومن ریسورس پنجاب
مسلمان، وزیر اور ایک ذمہ داری شہری ہونے کے ناطے خواتین کا حقوق و تحفظ میرا فرض ہے۔ جو شخص اپنی ماں، بہن، بیوی، بیٹی اور معاشرے کی خواتین کے حقوق کی بات نہیں کرتا وہ اپنے فرائض میں غفلت برتتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اس معاملے میں سنجیدہ ہیں اور ان کی زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔
مرد اور خاتون کی زندگی اور کام میں امتیاز ہے۔ ہمارے کلچر میں مرد صبح اٹھتا ہے، تیار ہوکر ناشتہ کرکے دفتر چلا جاتا ہے جبکہ خاتون سب سے پہلے اٹھتی ہے، خاوند اور بچوں کے کپڑے تیار کرتی ہے، ناشتہ بناتی ہے، انہیں سکول ، کالج، دفتر بھیجتی ہے، پھر خود ناشتہ کرتی ہے اور گھر کے کاموں میں لگ جاتی ہے اور رات کو سارے کام نمٹا کر سب کے بعد آرام کرتی ہے۔ جو خواتین ملازمت کرتی ہیں، وہ گھر والوں کو بھیجنے کے بعد آفس جاتی ہے ۔
اگر بچے چھوٹے ہیں تو انہیں اپنی ماں یا پڑوسن کے پاس چھوڑتی ہے اور دھیان بچوں کی طرف ہی رہتا ہے۔ میں نے ملازمت پیشہ خواتین کی سہولت کیلئے ہر فیکٹری میں ڈے کیئر سینٹر کا قیام لازمی قرار دیا ہے۔ پنجاب میں 297 ڈے کیئر سینٹرز بن چکے ہیں، یہ تعداد کم ہے، قانون کے مطابق ہر فیکٹری میں خواتین کی تعداد کے لحاظ سے ڈے کیئر سینٹر ہونا چاہیے۔ میں جلد ان سینٹرز کا معائنہ کروں گا اور ان کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جائے گا۔ مرد و خواتین کے درمیان امتیازی سلوک کے خاتمے کیلئے بھی کام کیا جارہا ہے۔
کابینہ نے ایک ہی روز 26 قوانین میں ترامیم کی منظوری دی ہے، انہیں جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ ان میں امتیازی سلوک، ملازمت سے فارغ کرنا و دیگر شامل ہیں۔ اب نجی شعبے میں کسی کو بلاوجہ ملازمت سے نہیں نکالا جاسکے گا۔ اسی طرح شعبہ زراعت اور کنسٹرکشن کے شعبوں میں بھی لیبر قوانین کا اطلاق ہوگا۔ چائلڈ لیبر کے خاتمے کیلئے ملازمت کی کم از کم عمر 16 برس کر دی گئی ہے۔
اس طرح سینکڑوں مزید بچوں کو چائلڈ لیبر سے بچا لیا جائے گا۔ امریکا اور کینیڈا میں بھی عمر کی حد 16 برس ہے، ہم عالمی معیار کے مطابق قوانین میں بہتری لا رہے ہیں، یقین ہے اس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پر مزدوروں کی کم از کم اجرت پر سختی سے عملدرآمد کرایا جا رہا ہے۔ میرے لیے سب جگہ پہنچنامشکل ہے۔ میں نے ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈی جی لیبر، کمشنر پیسی، سیکٹری لیبر، سیکرٹری محکمہ ویلفیئر اور ڈائریکٹرز سمیت محکمے کے 40 افسران کے ساتھ آن لائن کھلی کچہری لگائی۔ مجھے کہا گیا کہ فیس بک پر عجیب کمنٹس آئیں گے، میں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کی تنقید برداشت کرتے ہوئے دلیری کے ساتھ عوامی مسائل حل کرنا ہوں گے۔ ہمیں ایک گھنٹے میں ساڑھے پانچ ہزار شکایات موصول ہوئیں اور ایک لاکھ لائیو ویوز آئے۔ لوگوں نے فیکٹریوں کے ساتھ ساتھ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے نام بھی لیے ہیں۔
ہم اگلی کچہری دو ہفتے بعد لگائیں گے، پہلے 15 منٹ عوامی شکایات پر ایکشن کے بارے میں رپورٹ شیئر کی جائے گی۔ میں ایکشن پر یقین رکھتا ہوں اور کام کو پسند کرتا ہوں، اگر ہم ڈیلور ہی نہیں کریں گے تو معاملات کیسے بہتر ہوں گے۔ میں نے سرمایہ داروں اور کاروباری طبقہ کو بتا دیا ہے کہ اگر مزدوروں کے ساتھ زیادتی ہوئی تو انہیں نہ صرف میڈیا پر ایکسپوز کیا جائے گا بلکہ عوام سے ان کے بائیکاٹ کی اپیل بھی کروں گا۔مزدور کی کم از کم اجرت اب نقد نہیں دی جا سکے گی بلکہ بذریعہ بینک مزدور کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کی جائے گی۔
اس طرح مزدور کی کم از کم اجرت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ فیکٹر ی میں کام کرنے والے مزدوروں کی درست تعداد بھی معلوم ہو جائے گی، ان کی سوشل سکیورٹی و دیگر معاملات حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ یہاں لیونگ ویج کی بات ہوئی، ہمارے افسوسناک رویے تو یہ ہیں کہ مزدور کی کم از کم اجرت دینے میں بھی تکلیف ہوتی ہے۔ مجھے مالدار افراد کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ یہ50ہزار کا سوٹ پہن لیتے ہیں لیکن ورکر کو 37 ہزار روپے اجرت نہیں دیتے۔ ہم مزدور کی کم از کم اجرت یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کام کریں گے۔ چیف منسٹر راشن کارڈ اس سال کا سب سے بڑا منصوبہ ہے ۔ یہ اربوں روپے کا منصوبہ ہے جس سے مزدوروں کی زندگی میں آسانی پیدا کی جائے گی۔ محکمہ لیبر کے زیر انتظام پیسی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ، دونوں آتے ہیں۔ پیسی کی کولیکشن محکمہ خود کرتا ہے جبکہ ورکرز ویلفیئر فنڈ ، پی آر اے اکٹھا کرتا ہے۔
میں نے وزیراعلیٰ سے منظوری لی کہ ہم خود یہ کولیکشن کریں گے، اب کابینہ نے بھی اس کی منظوری دے دی ہے۔ ہم ایک سال میں یہ کولیکشن تین گنا بڑھائیں گے۔ گزشتہ برس محکمہ کی کولیکشن 24 ارب روپے تھی، میں نے پیسی کو پہلے 30 ارب اور اب 32 ارب روپے کا ٹارگٹ دیا ہے، ہم اسے ہر حال میں حاصل کریں گے۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ کی کولیکشن 17 ارب ہے، اس میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔ پی آر اے کے بعد محکمہ لیبر فنڈز کولیکشن میں پنجاب کا دوسرا بڑا ادارہ بن جائے گا۔ اس رقم سے لیبر کالونیاں، سوشل سکیورٹی ہسپتال و مزدوروں کی ویلفیئر کے دیگر کام با آسانی جاری رکھیں جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے لیبر کالونیوں کا افتتاح کیا ہے، ہم مزدوروں کے لیے پہلے مرحلے میں 5 ہزار اپارٹمنٹ بنا رہے ہیں۔
میں نے اپنے محکمے کو ہدایت جاری کی ہے کہ فنڈز کولیکشن میں سختی نہیں کرنی بلکہ لوگوں کو آگاہی دینی ہے اور انہیں بتانا ہے کہ اس میں ان کا فائدہ کیا ہے۔ مجھے محکمہ لیبر میں آنے سے پہلے معلوم ہی نہیں تھا کہ سوشل سکیورٹی اور اس کے فوائد کیا ہیں۔ اب میں سب کو آگاہ کر رہا ہوںجس کیی وجہ سے ہمیں پیسے کی کمی نہیں آرہی بلکہ ریونیو میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوکان میں سلنڈر پھٹ جائے تو ورکر کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، ان کیلئے ورکنگ کنڈیشن ہی نہیں ہے۔ گوجرانوالہ میں سلنڈر پھٹنے کا واقعہ ہوا تو میں نے اس کی رپورٹ لی اور ڈائریکٹر لیبر کو فارغ کر دیا۔ انکوائری پر معلوم ہوا کہ ورکر، سوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ ہی نہیں تھا۔ قانون کے مطابق 5 یا اس سے زائد ملازم ہوں تو سوشل سکیورٹی میں رجسٹریشن لازم ہے،ا س سے کم پر لاگو نہیں ہوتی۔
میں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے بات کی اور ان کی ہدایت پر قانون کے ذریعے ورکر رجسٹریشن کی کم از کم تعداد 2 کر دی گئی ہے، جس دوکان یا کام کی جگہ پر دو یا دو سے زائد ورکرز ہوں گے، ان کی سوشل سکیورٹی میں رجسٹریشن لازمی ہوگی۔ ہم نے سوشل سکیورٹی ہسپتالوں کو اپ گریڈ کیا ہے، سٹیٹ آف دی آرٹ بنایا گیا ہے۔ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ یہ اتنے بہترین ہسپتال بن چکے ہیں کہ اگر مجھے بھی کوئی عارضہ لاحق ہواتو یہاں سے علاج کرایا جاسکتا ہے۔
ہم 1 بلین روپے کے آلات امپورٹ کررہے ہیں جو ان ہسپتالوں کو دیے جائیں گے۔ ڈومیسٹک ورکرز پر گھروں میں تشدد ہوتا ہے جو افسوسناک ہے۔ ہنجروال میں 12 سالہ بچی کو تشدد کے بعد قتل کر دیا گیا۔ میں نے ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے خود ڈی آئی جی پولیس سے رابطہ کیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے ہم کٹہرے میں کھڑے ہوتے ہیں، وہ ہر واقعہ پر محکمے کی کارکردگی کی رپورٹ سختی سے لیتی ہیں۔ ہم ہر سمت میں کا م کر رہے ہیں، یقین ہے کہ منزل تک پہنچیں گے اور مزدوروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کریں گے۔
بشریٰ خالق
نمائندہ سول سوسائٹی
میں سب سے پہلے تمام محنت کش مرد و خواتین کو سرخ سلام پیش کرتی ہوں جن کی جدوجہد اور قربانیوں سے دنیا بھر کے مزدوروں کے کام کے حالات اور اوقات کار بہتر ہوئے ، قانون سازی ہوئی اور انہیں حقوق ملے۔ مزدور تحریک کی تاریخ میں آئی ایل او، بین الاقوامی تنظیموں، این جی اوز اور سول سوسائٹی کا کردار انتہائی اہم ہے۔ عالمی ادارہ لیبر، کنونشن لاتا ہے جن کیلئے ممالک کے ساتھ طویل مشاورت ہوتی ہے اور اس میں کئی برس لگتے ہیں۔
پاکستان نے متعدد کنونشنز کی توثیق کر رکھی ہے اور انہیں آئین کا حصہ بھی بنایا گیا ہے، اس حوالے سے پاکستان کا کردار اچھا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے 17 اہداف ہیں جنہیں 15 برس میں 2030ء تک حاصل کرنا تھا، اب ہمارے پاس صرف 5 برس باقی ہیں لہٰذا کام تیز کرنا ہوگا۔ پاکستان میں 70 سے زائد لیبر قوانین موجود ہیں جن کا انضمام ضروری ہے۔
ان میں سے بعض قوانین پرانے ہیں، کچھ میں تصادم بھی ہے، کہیں عملدرآمد کا طریقہ کار بدلنے تو کہیں قانونی ڈھانچہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا لیبر قوانین کی اوور ہالنگ کرنا ہوگی۔ خواتین کی معاشی شمولیت کے حوالے سے پاکستان 146 ممالک میں 143 ویں پوزیشن پر ہے۔ کیا ہماری خواتین گھروں میں بلامعاوضہ کیئر ورک کر رہی ہیں یا غیر رسمی شعبے سے منسلک ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ملکی معاشی دھارے میں ان کی شمولیت ہونی چاہیے اور ان کے کام کو تحفظ دینا چاہیے۔
مجموعی طور پر مزدور طبقے میں بے چینی ہے۔ ہماری خواتین ایسا کام کر رہی ہیں جس سے یہ کہا جاسکتا ہے وہ نہ صرف ہمارے معاشی بلکہ خاندانی نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ جو خاتون گھر پر کیئر ورک کرتی ہے اسے نہ معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی اس کا کردار تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسی سازی کی ضرورت ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت پنجاب کا شکریہ جس نے ڈومیسٹک ورکرز کو باقاعدہ طور پر ورکر تسلیم کیا۔
یہ مزدوروں کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء موجود ہے ، ہم عالمی فورمز پر بھی یہ مثال پیش کرتے ہیں۔ یہ ایسا قانون ہے جو ڈومیسٹک ورکرز کو حقوق و تحفظ دیتا ہے، ان کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کرتا ہے اور انہیں معاشرے میں عزت و وقار دیتا ہے۔ اس قانون میں ملازمت کی کم از کم حد 15 برس رکھی گئی ہے، اسے مزید بڑھانا چاہیے کیونکہ یہ آئین سے متصادم ہے۔
آئین پاکستان 16 برس کی عمر تک ہر شہری کی مفت تعلیم کی گارنٹی دیتا ہے۔ اس قانون کے تحت ڈومیسٹک ورکرز کو تنظیم سازی کا حق دیا گیا، اب ان کی یونینز بھی بن رہی ہیں۔ اسی طرح مزدور کی کم از کم اجرت مقرر کرنے کے ساتھ ساتھ اب حکومت پنجاب نے ڈومیسٹک لیبر کے کام کے اوقات کار کو مدنظر رکھتے ہوئے گھنٹوں کے حساب سے کم از کم اجرت کا نوٹیفکیشن جاری کیا جو خوش آئند ہے۔ محکمہ لیبر نے ہیلپ لائن بھی قائم کی ہے جس سے مزدوروں کو رہنمائی مل رہی ہے۔ ملک میں قوانین موجود ہیں، ان کے رولز آف بزنس بنانے چاہئیں تاکہ عملدرآمد میں بہتری لائی جاسکے۔
سوشل سکیورٹی کے ادارے ’پیسی‘ کو ڈومیسٹک ورکرز کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے، یہ ورکرز کنٹری بیوشن نہیں دے سکتے، ان کی آمدن انتہائی کم ہے لہٰذا ان کیلئے انڈومنٹ فنڈ قائم کرنا چاہیے۔ ہم روزانہ 15 اخبارات اور ویب سائٹس سے ڈیٹا حاصل کرتے ہیں۔ یکم اپریل سے 13 اپریل تک صرف پنجاب میں 3 ڈومیسٹک ورکرز چھوٹی بچیاں ہلاک ہوئی ہیں۔ ان کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے واقعات رونما ہوئے۔ گزشتہ 4 برسوں میں پنجاب میں 150 سے زائد بچے اور بچیاں ہلاک ہوئی ہیں۔ چائلڈ لیبر اور ڈومیسٹک ورکرز کے خلاف ظالمانہ اقدامات اور جرائم پر سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
روبینہ جمیل
جنرل سیکرٹری، آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن
پاکستان اور دنیا بھر کے محنت کشوں کو سرخ سلام! میں ان خواتین کو بھی سیلوٹ کرتی ہوں جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں اور حقوق کی جدوجہد کا حصہ بھی ہیں۔ میرے نزدیک خواتین کی شمولیت کے بغیر ہر جدوجہد ادھوری ہے۔ وزیر لیبر نے آن لائن کھلی کچہری کا اہتمام کیا جو قابل تعریف ہے ۔ اس وقت مجموعی طور پر مزدوروں کی صورتحال مایوس کن ہے۔ تنظیم سازی مزدوروں کا بنیادی حق ہے جو انہیں آئی ایل او کنونشن، آئین پاکستان اور لیبر قوانین کے تحت ملا ہے لیکن عملی طور پر انہیں یونین سازی کا حق نہیں مل رہا بلکہ ملازمت سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔
مزدوروں کی کم از کم اجرت کو ’’لیونگ ویج‘‘ بنانا چاہیے تاکہ وہ اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات باآسانی پوری کر سکیں۔ مزدوروں کا موجودہ حالات میں گزارہ انتہائی مشکل ہے۔ مزدوروں کے حوالے سے موجود قوانین میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، انہیں بہتر کرنے اور اصلاحات لانے کیلئے سول سوسائٹی اور مزدوروں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مقامی و بین الاقوامی صنعت ترقی کرے۔ ہمارے ہاں ٹھیکیدارانہ نظام ہے، 89، 90 دن بعد قانون کے مطابق مزدوروں کو نکال دیا جاتا ہے اور دوبارہ ملازمت پر رکھ دیا جاتا ہے، اس استحصالی نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا۔
کنٹریکٹ ملازمین کو سوشل سکیورٹی کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس میں 7 لیبر قوانین ہیں، اگر ان پر عملدرآمد کر لیاجائے تو انڈسٹری کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ مزدوروں کو اپنے حق کیلئے احتجاج کرنا پڑتا ہے، حکومت کو خود بھی مسائل حل کرنے کیلئے کام کرنا چاہیے۔ وزیر لیبر نے سپورٹس بورڈ کے ملازمین کو چار ماہ سے نہ ملنے والی تنخواہ دلوائی، یہ قابل تعریف ہے۔ پاکستان ریلوے اور واپڈا جیسے اداروں کی نجکاری نہیں کرنی چاہیے، بلکہ انہیں بہتر کرنا چاہیے ۔ مزدوروں اور خواتین کو راشن کارڈ دیا جا رہا ہے۔
یہ رقم ورکرز ویلفیئر فنڈ سے خرچ کی جا رہی ہے، حکومت کو اس کے بجائے خود فنڈز دینے چاہئیں اور ان اداروں کو مضبوط اور خودمختار ہی رکھنا چاہیے۔ آج بھی مرد اور خواتین ورکرز کے معاوضہ میں امتیاز برتا جاتا ہے، اس کے خاتمے کیلئے کام کرناہوگا۔ حکومت نے پنشن میں 15 فیصد اضافہ کیا جو صرف 1500 روپے بنتا ہے ، پنشن کو کم از کم اجرت کے برابر کرنا چاہیے۔ ڈومیسٹک ورکرز کی سوشل سکیورٹی پر کام کرنا چاہیے، وہ خود کنٹری بیوشن نہیں دے سکتے ، ان کیلئے حکومت کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ جنسی تشدد، زیادتی جیسے مسائل فیکٹریوں میں بھی ہو رہے ہیں۔
ہراسمنٹ کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، انہیں فیکٹریوں میں آویزاں کرنا اور ہراسمنٹ کمیٹیاں بنانا قانونی فرض ہے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، حکومت کو اس پر توجہ دینا ہوگی۔ حکومت نے کم از کم اجرت پر عملدرآمد کے حوالے سے سختی کا آغاز کیا ہے۔ باقاعدہ طور پر فیکٹریوں کی انسپکشن ہو رہی ہے لیبر انسپکٹرز کی مالکان کے ساتھ ڈیل سے ورکرز کا استحصال ہورہا ہے۔ اس پر ایکشن لینا ہوگا۔