مصطفٰی عامر کیس : گتھی پھر الجھ گئی، جامعہ کراچی نے مقتول کے نشہ نہ کرنےکے دعووں کی تردید کردی

مصطفٰی عامر کیس : گتھی پھر الجھ گئی، جامعہ کراچی نے مقتول کے نشہ نہ کرنےکے دعووں کی تردید کردی



کراچی:

کراچی کے علاقے ڈیفنس سے معروف مصطفٰی عامر قتل کیس کی ایک گتھی پھر الجھ گئی، جامعہ کراچی کے انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر نے مصطفیٰ عامر کے کسی نشہ آور شے کے استعمال نہ کرنے کے دعووں کی تردید کردی۔

 ذرائع ابلاغ یا سوشل میڈیا پر سندھ پولیس سے حاصل کی گئی جامعہ کراچی  کے انڈسٹریل اینالیٹکل سینٹر کی جس رپورٹ کی بنیاد پر یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ “مصطفیٰ عامر کی لاش سے لیے گئے نمونوں سے کسی نشہ و خواب آور یا زہریلی چیز کے استعمال کے ثبوت نہیں ملے ہیں”خود جامعہ کراچی کے انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر کے ریسرچ ذرائع میڈیا کے اس دعوی کی سختی سے تردید کررہے ہیں۔

 انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر کے سائنسدانوں کا یہ کہنا یے کہ پولیس کی جانب سے مصطفی عامر کی لاش کے جو اجزا انھیں کیمیائی تجزیے کے لیے فراہم کیے گئے تھے وہ اس قدر جلے ہوئے تھے کہ ان سے سائنسی بنیادوں پر کچھ بھی نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہی نہیں تھا، کیونکہ مصطفی عامر کی لاش کو جلائے جانے کے سبب اس کے جسم کے اندرونی اعضا ( جگر اورپھپیھڑے) اندر سے بھی جل چکے تھے اور ان کا سائنسی تجزیہ ممکن نہیں تھا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ لہذا انڈسٹریل اینالیٹیکل سینٹر نے یہ دعوی ہی نہیں کیا کہ مصطفی عامر کی قتل سے قبل نشے آور یا زہریلی چیز کا استعمال کرایا گیا ہے یا نہیں کرایا گیا۔ 

سائنسدانوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ ذرائع ابلاغ پر جو رپورٹ گردش کررہی یے اس رپورٹ کی محض دوسری سطر پڑھی جارہی ہے جبکہ اس رپورٹ کی پہلی سطر میں واضح لکھا ہے “اجزا مکمل جلے ہوئے تھے” لہذا مکمل جلے ہوئے اجزا کا سائنسی تجزیہ ممکن ہی نہیں ہے۔

فرانزک سے متعلق ایک ماہر نے بتایا کہ ڈی این اے کے لیے لیبارٹری میں انھیں پولیس کی جانب سے دانت کا نمونہ دیا گیا تھا اس کے pulp یا گودے کے نمونے سے ڈی این اے کیا گیا جو فیملی کے نمونوں سے میچ کرگیا جس کی بنیاد پر یہ دعوی کیا گیا کہ یہ لاش مصطفی عامر کی ہے۔ 

واضح رہے کہ مصطفی عامر کی قبر کشائی 21 فروری کو ایدھی قبرستان  مواچھ  گوٹھ میں ہوئی تھی اور ماہرین نے اس کی لاش سے نمونے حاصل کیے تھے۔
 

 





Source link