ڈونلڈ ٹرمپ کے برسر اقتدارآنے کے بعد اندازہ یہی ہے کہ امریکا اور چین کے درمیان تضادات میں اضافہ ہوگا اور یہ ہمارے لیے کوئی اچھی خبر نہیں۔ ماضی میں ہم امریکا اور مغربی یورپی ممالک خصوصاً برطانیہ کے قریبی اتحادی رہے۔ ہم نے اس اتحاد میں رہتے ہوئے وہ کام بھی کیے جو جغر افیائی اعتبار سے ہماری خواہش نہیں بلکہ مجبوری تھے۔
یہ کام ہم نے اس لیے بھی کیے کہ پاکستان کے اقتدار پر جو طبقہ قابض رہا، اس کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کا محور ہندوستان دشمنی تھا، اس دشمنی کو برقرار رکھنی کے لیے امریکا اور برطانیہ کا ساتھ دینا ضروری سمجھا گیا تھا۔
ہندوستان کو جواہر لعل نہرو، ولبھ بھائی پٹیل اور مولانا آزاد کی شکل میں ایک مضبوط سیاسی قیادت اور منظم سیاسی جماعت کانگریس ملی جب کہ مسلم لیگ آغاز سے ہی متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایک مخصوص مائنڈسیٹ رکھنے والے طبقے کی جماعت رہی ہے،اسی لیے قیام پاکستان کے بعد کوئی مضبوط حکومت قائم ہوئی نہ آئین سازی ہوئی اور نہ ہی اس ملک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو سکیں۔
آجکل پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات ٹھنڈے ہیں۔اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے بھی وفاقی حکومت پر تنقید کی ہے۔ہم امریکی بلاک میں نہیں اور چین سے ہماری دوستی بہرحال بہت پرانی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اس خارجہ پالیسی کی بنیادیں رکھیں اور مضبوط بنائیں،اس دور میں چین دنیا کی دوسری بڑی طاقت نہ تھا۔ان کی فی کس آمدنی لگ بھگ ہمار ے ہی جتنی تھی۔چین اور امریکا کی دوستی بھی سوویت یونین سے اختلافات کے تناظر میں ہوئی یا پھر ایسا کہیے کہ جو غلط فہمیاں چین اور سوویت یونین کے درمیان تھیں، امریکا نے ان غلط فہمیوں سے فائدہ اٹھایا۔
چین اور امریکا کے درمیان دوستی کی پہلی سیڑھی ہم تھے۔ 1971 میں ہینری کسنجر نے چین کا دورہ کیا۔جس میں پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں نے تاریخی سہولت کار کاکردار ادا کیا۔ ہینری کسنجر کو پاکستان میں ٹرانزٹ اسٹاپ فراہم کیا گیا ۔ہینری کسنجر کی چکلا لہ ایئر بیس سے بیجنگ روانگی کو انتہائی پوشید ہ رکھا گیا۔
اس کا ذکرسوویت یونین کے صدر خروشیف نے اقوامِ متحدہ کی تقریر میں بھی کیا تھا اور پاکستان کو دھمکیاں بھی دیں، پاکستان سیٹو ( ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ٹریٹی آرگنائزیشن )اور سینٹو ( سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن ) معاہدوں کا حصہ بنا۔
ہندوستان ان معاہدوں کے مقابلے میں غیروابستہ ممالک کی تنظیم کا فعال حصہ بن گیا۔ اب آیا ہے سی پیک! اس معاہدے کی خاطرکیا کیا مشکلات نہ جھیلیں ہم نے۔ پاکستان میں جو کسی بیرونی ایجنڈے سے منسلک تھے، سب سامنے آگئے۔
چین اور ہندوستان کے درمیان چپقلش امریکا کو اپنے مفادات کے حق میں نظر آئی تو وہ ہندوستان کے قریب ہونا شروع ہوا۔ پاکستان کے لیے مشکل یوں پیدا ہوئی کہ امریکا اور چین کے درمیان سرد جنگ بھارت کے لیے تو فائدہ رہی لیکن پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں سرد مہری در آئی۔
پاک چین دوستی نے بھارت کو امریکا کے قریب کردیا جب کہ ہمیں دور کردیا۔اب ہندوستان کا امریکا سے اتنا قریب ہونا کیاہمارے لیے سیکیور ٹی رسک ہے؟ایسا سوچنا بھی اس کلاسیکل سوچ کا حصہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس تیزی سے بدلتی دنیا کی مناسبت سے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک نئی خارجہ پالیسی تشکیل دیں۔
سی پیک ہمارے لیے ترقی کی ایک نئی راہ اور چین کے لیے نئے ٹریڈ پارٹنرز بننے کا راستہ ہے۔امریکا اور نیٹو ممالک ، چین کی بڑھتی ہوئی معاشی اور عسکری طاقت سے پریشان ہیں۔سوویت یونین کو توڑنے کے لیے امریکا، نیٹو اور دیگر اتحادی ممالک نے چین کے لیے اپنی منڈیاں کھول دیں ۔
سوویت یونین تحلیل ہوجانے کے بعد امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی پالیسی میں بتدریج تبدیلی آنا شروع ہوگئی اور اب یہی ممالک چین کو معاشی طور پر کمزور بنانا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈٹرمپ ان اشیاء پر 30 فیصد ڈیوٹی عائد کر یں گے جو چین سے د رآمد کی جائیں گی۔
تجارت کے لیے چین کی سب سے بڑی مارکیٹ اور سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر امریکا ہے۔چین جو پچھلے بیس سال سے 13فیصد شرح نمو سے آگے بڑھ رہا تھا،اب وہاں شرح نمو 4فیصد ہے۔ چین ان مشکل حا لات کی تیاری بھی کر رہا ہے کہ اگرامریکا سے چین کی تجارت ختم ہوئی تو ان کو نئی منڈیاں درکار ہوںگی۔
ادھر امریکا اور مغربی یورپ میں بھی تضادات بڑھ رہے ہیں۔یورپی قیادت ٹرمپ کے آنے سے نالاں ہے اور اپنے لیے ایک حکمت عملی ترتیب دے رہے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ وہ چین کے قریب ہو جائیں۔
حکمت عملی کے لحاظ سے ہم چین کے اتحادی ضرور ہیں لیکن ہماری تجارت اور ترسیلات امریکا اور یورپی مما لک سے وابستہ ہیں۔ہم بیرونی قرضہ جات کے بوجھ تلے ہیںاوران قرضہ جات کے لیے جس ادارے سے ہم بیل آؤٹ چاہتے ہیں یعنی آئی ایم ایف وہ بھی امریکا کے اثر و رسوخ میں ہے۔
اب ہم دو کشتیوں کے مسافر ہیں۔چین سے ہمارا اتحاد وہ نہیں جو ماضی میں امریکا سے تھا ۔پاکستان کی مجبوری یہ بھی ہے کہ چین اتنی بڑی طاقت نہیں کہ پاکستان کو بحرانوں سے نکال سکے۔پاکستان کی داخلی سیاست میں پریشر آچکا ہے، ایک کا جھکاؤ امریکا کی طرف ہے اور دوسرے کا چین کی طرف۔
امریکا کی طرف جھکاؤ ان لوگوں کا ہے جنھیںجنرل ایوب خان کے اقتدار میں مفت میں سرکاری زمینیں ملیں، بڑی ملازمتیں اور ترقیاں ملیں، یحی اقتدار میں پاکستان دولخت ہوگیا لیکن مغربی پاکستان میں ایوبی آمریت میں پروان چڑھنے والی اشرافیہ کی پانچوں گھی میں رہیں۔
جنرل ضیاء الحق کا دور تو ان کے لیے حیات جاوداں بن گیا، آج یہ طبقہ پاکستان میں طالبان کا سہولت کار بھی جب کہ زلمے خلیل زاد اور ان جیسے افغانستان کے شاہ پرست اور امریکا نوازطبقے کا حمایت یافتہ بھی ہے، ان لوگوں کی امریکا اور مغرب میں قبولیت کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ لوگ اسرائیل نواز بھی ہیں اور اس تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی معیشت اس وقت تمام ترتوجہ کا مرکز ہے اور وہ مضبوط بنانی ہے ۔جس افراط زر پر ہم نے مشکل سے قابو پایا ہے اور اسٹاک ایکس چینج جو اس وقت 94000 پوائنٹس پر کھڑی ہے وہ دوبارہ پستی میں چلی جائے گی۔
ہمارا آئی ایم ایف کے ساتھ سات ارب ڈالر کا معاہدہ ڈانوا ڈول ہو جا ئے گا۔اقتدار سنبھالنے کے بعد یقینا ٹرمپ صاحب اپنی کسی تقریر میں ، پاکستان کا نام غیر مثبت طریقے سے لیں گے، پاکستان کے خلاف کوئی منفی بات کریں گے جو ہماری معیشت کی بہتری کے عمل کو سست کردے گا۔ٹرمپ کی حکومت پاکستان کے لیے مشکل ضرور ہوگی اوریہ سفر ایک ایسے سمندر میں ہوگا جس کی لہریں اونچی ہوںگی اور طوفانوں کا سا منا ہوگا۔