شنگھائی تعاون تنظیم کا اعلامیہ پڑھ کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح یاد آ گیا۔ اس تاریخی موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح نے عالمی اقتصادی نظام سے انسانیت کو لاحق خطرات کی نشان دہی کی اور کہا کہ اس دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ایک ایسے اقتصادی نظام کی تشکیل نا گزیر ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے اصولوں سے ہم آہنگ ہو اور عہد حاضر کے تقاضوں پر بھی پورا اتر سکے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ قائد اعظم کی ہدایت کے مطابق اس نظام کی تشکیل کے لیے ایک تحقیقاتی ادارے قائم کرے گا۔ استاذ الاساتذہ پروفیسر فتح محمد ملک نے لکھا ہے کہ بابائے قوم کی وفات کے بعد اسٹیٹ بینک نے اعلان کیا کہ وہ وسائل کی کمی کا شکار ہے، اس لیے قائد اعظم کے افکار کے مطابق منصفانہ اقتصادی نظام کی تحقیق و تشکیل کے لیے ادارے کا قیام ممکن نہیں رہا۔ یوں بابائے قوم کے خواب کی تعبیر ادھوری رہ گئی۔
اب پون صدی گزرنے کے بعد ایس سی او کے مشترکہ اعلامیے میں بابائے قوم کے تصورات کی بازگشت سننے کو ملی ہے۔ اس اعلامیے میں کہا گیا ہے:
‘ بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹیں، سرمایہ کاری کے بہا ؤمیں کمی، سپلائی چینز میں خلل غیر یقینی صورت حال کا باعث ہے۔ اسی طرح تجارت پر یک طرفہ پابندیوں سے عالمی اقتصادی تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ایس سی او ایسے تمام امتیازی اقدامات سے پاک نظام کی حمایت کرتا ہے۔’
ایس سی او کے اعلامیے کے یہ نکات قائد اعظم کے تصورات کے عین مطابق ہیں جن میں اقوام عالم کو درپیش چیلنجوں کا ذکر بڑی وضاحت سے کر دیا گیا ہے۔ بات یہاں ختم ہو جاتی تو بھی کافی ہوتا لیکن اسی اعلامیے میں ایک ایسا نصب العین بھی شامل کر دیا گیا ہے جس کی حیثیت عالم گیر ہے اور دل کو چھو لینے والی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:
‘ ایک زمین، ایک خاندان اور یکساں مستقبل’
یہ نصب العین یا نعرہ بنی نوع انسان کی کسی امتیاز کے بغیر ترقی اور خوش حالی کو یقینی بنانے کا وعدہ کرتا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسلام آباد ایس سی او کا اعلامیہ تاریخی ہے جو پاکستان کا اعزاز ہے اور اقبال کے اس خواب کی تعبیر ہے جو انھوں نے ایشیا کے عظیم عالمی کردار کے بارے میں دیکھا تھا۔ اس صدی کو ایشیا کی صدی تو آج کہا جا رہا ہے اقبال نے یہ خواب ایک صدی پہلے دیکھ لیا تھا
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس شان دار کام یابی کے لیے حکومت پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف یقینی طور پر مبارک کے مستحق ہیں۔
اس کانفرنس کا دوسرا اہم ترین پہلو وہ حالات ہیں جن میں اس کا انعقاد ہوا ہے۔ اسلام آباد میں اس کا انعقاد چیلنج بن چکا تھا۔ اس چیلنج کی نوعیتیں دو تھیں۔ اس کا پہلا اور خطرناک ترین پہلو کراچی میں دہشت گردی کا واقعی تھا جس میں چینی انجینئر قتل کر دیے گئے۔ یہ اندوہ ناک واقعہ دوہرے اثرات رکھتا تھا۔ کانفرنس کے انعقاد سے دو روز قبل بین کے وزیر اعظم لی کی چیانگ پاکستان کے چار روزہ دورے پر پہنچنے والے تھے۔ اس طرح کے حالات میں اتنا ہائی پروفائل دورہ کا ملتوی یا منسوخ ہو جاتا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہ ہوتی۔ اس حملے کا دوسرا ہدف ایس سی او کانفرنس تھی۔ اتنے خطرناک حملے کے باوجود یہ دورہ بھی ہوا اور کانفرنس بھی پورے تزک احتشام کے ساتھ منعقد ہو گئی تو اس کا واحد سبب حکومت پاکستان کی سفارتی مہارت ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار چین اور دیگر تمام ایس سی او ممالک کا اعتماد حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین سمیت تمام دیگر ایس سی او ممالک ہر قسم کی سازشوں کے باوجود پاکستان پر اعتماد رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ نہ صرف ان بین الاقوامی سازشوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ ایس سی او برادری کی توقعات پر پورا اترنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
2018 ء میں بننے والی حکومت نے سی پیک کی طرح سے ایس سی او کی تنظیم کے ساتھ تعلقات کو بھی ڈاؤن گریڈ کر دیا تھا۔ اتنے مختصر عرصے میں رکن ممالک کے اعتماد کی بحالی ایک کارنامہ تھی۔ یہ کارنامہ اپنی نوعیت میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ایس سی او کے ساتھ تعلقات کو کمزور کر کے ملک کی سمت ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالتے ہی اس معاملے کا رخ نہ صرف ایک بار پھر درست کر دیا بلکہ وہ تنظیم کے رکن ممالک کا اعتماد حاصل کرنے میں بھی کام یاب رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد اجلاس کے بعد تنظیم ایک منصفانہ عالمی اقتصادی نظام کی جانب اعتماد سے پیش رفت کر سکے گی جس سے پاکستان سمیت تمام رکن ممالک استفادہ کر سکیں گے۔
ایس سی او کانفرنس کا تیسرا پہلو اس کی تیاری، اسلام آباد کی بیوٹیفکیش اور میڈیا سنٹر کا قیام تھا۔ وزیر اعظم نے یہ ذمے داری وفاقی وزارت اطلاعات کے سپرد کی تھی۔ یہ ذمہ داری وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ ، وزیر اعظم کے میڈیا کوآرڈینیٹر بدر شہباز وڑائچ، وفاقی سیکرٹری اطلاعات محترمہ عنبرین جان اور پرنسپل انفارمیشن افسوس مبشر حسن خان نے اس خوبی سے انجام دی کہ دیکھنے والے اش اش کر اٹھے۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں میڈیا سنٹر اب وینیو سے الگ ایک پورے کمپلیکس کی طرح سے ہوتا ہے جس میں ذرائع ابلاغ کے لیے درکار تمام سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔ ایس سی او اسلام آباد کے لیے جو میڈیا سنٹر قائم کیا گیا، اس نے ایک نیا معیار قائم کیا ہے، دنیا میں جس کی پیروی کی جائے گی۔ وزیر اعظم نے بجا طور پر اپنی میڈیا ٹیم کی تحسین کی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی صحافی یہ انتظامات دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ اس شان دار کارکردگی کے لیے وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ، بدر شہباز اور دیگر تمام ذمے داران بجا طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔
۔۔۔۔۔
ایک جماندرو مزاح نگار کا سفر نامہ حج
ڈاکٹر اشفاق احمد ورک سے ایک ملاقات تو ہے لیکن سرسری سی۔ اس ملاقات کا ہونا نہ ہونا برابر رہتا اگر بیچ میں علامہ عبد الستار عاصم نہ آ جاتے۔ یہ کریڈٹ صرف علامہ کو جاتا کہ ڈاکٹر صاحب کی جو کتاب بھی شائع ہوتی ہے، پہلی فرصت میں مجھے ارسال کرتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں کہ کتاب بھیجی تھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس پریشانی میں مصنف شریک نہیں ہوتے۔ خیر، اس وقت مصنف اور ناشر کا یاد آنا بے سبب نہیں ہے۔ مصنف یوں یاد آئے کہ انھوں نے حج کیا اور سوچا کہ اس مبارک سفر میں کیوں نہ اپنے احباب اور قارئین کو شریک کیا جائے تو خبر یہ ہے کہ ڈاکٹر ورک کے سفر حج کی روداد ‘ تیرے عفو بندہ نواز میں’ شائع ہو چکی ہے اور ان دنوں شہرت حاصل کر رہی ہے۔
عبادت اور خاص طور سفر حرمین انسان کا ذاتی معاملہ ہے کیوں کہ اس کا تعلق مالک اور بندے کے ساتھ ہے۔ بندے کے اپنے مالک کے ساتھ کیا راز و نیاز ہوتے ہیں، یہ سلسلہ عمومی عبادت میں بھی ہوتا ہے لیکن حرمین شریفین میں اس کی نوعیت اور ماہیت بدل جاتی ہے۔ گہرے لوگ اس کی خبر کسی اور کو تو کیا خود اپنے آپ کو بھی نہیں ہونے دیتے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ڈاکٹر ورک کا بھی ہے، وہ اپنے قاری کو ہوٹل کی لابی، کمرے، ریستوران زم زم کی ٹونٹیوں اور صاف دکھائی دینے والے دیگر مظاہر اور ان کی دل کشی میں الجھا کر چوری چوری اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
سرزمین حرمین کے سفر نامے لکھنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ خود بھی عقیدت میں ڈوبے دکھائی دیتے ہیں اور انھیں اپنے دائیں بائیں جو لوگ بھی ملتے ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس میں دیکھنے والی آنکھ کا قصور ہو یا لکھنے والے کے قلم کا لیکن ہمارے اس مصنف نے اپنا یہ سفر بہ قائمی ہوش و حواس کیا ہے اور اسے ملنے والے لوگ بھی اس کے مزاج سے ہم آہنگ ہیں۔ مثلآ یہ کہ انھیں اردو کے ادیب ملے، بھولے بسرے پاکستان یعنی مشرقی پاکستان کے باشندے ملے، یہاں تک کہ سرگودھا کے جاٹ زمیندار بھی ملے۔ مصنف کے مزاج کا کمال دیکھیے کہ ادیبوں سے وہ ادیبوں کی طرح ملے، مشرقی پاکستان والوں کی نصیحت کو پلے سے باندھا اور سرگودھا کے جاٹ سے یہ جانا کہ ہمارے سیاست دان عمران خان کو اگر شکست دے سکتے ہیں تو کیسے۔ اسی طرح اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے اور ملتے ملاتے ان کے اندر کا مزاح نگار چادر اوڑھ کر ہوٹل کے کمرے میں سویا نہیں رہ جاتا، ساتھ ساتھ چلتا ہے لہذا ان کا قاری اس مبارک سفر کے احوال ان کی آنکھ سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ ان کے مزاح سے بھی مسلسل فیض یاب ہوتا رہتا ہے۔ کسی جماندرو مزاح نگار کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔
چلتے چلتے آخری بات یہ کہ ڈاکٹر اشفاق احمد ورک اردو مزاح کی نئی دریافت ہیں لیکن اس تھوڑی سی مدت میں ان کی فتوحات بہت سی ہیں گویا ان کا سفر جاری ہے۔ سفر کا جاری رہنا زندگی کی علامت ہے۔ انھیں اس پاک سر زمین سے دو بار بلاوا آ چکا ہے اور دو بار ہی انھوں نے اپنے مشاہدات قلم بند کیے ہیں۔ اللہ کرے ان پر نوازشوں کا سلسلہ جاری رہے۔ ایسی صورت میں ممکن ہے کہ ان کی تحریر میں ہمیں اس مبارک سفر کچھ دوسرے رنگ بھی دیکھنے کو ملیں۔