title>Urdu News - Latest live Breaking News updates today in Urdu, Livestream & online Videos - 092 News Urdu مخملی آواز کا مالک، طلعت محمود (پہلا حصہ) – 092 News

مخملی آواز کا مالک، طلعت محمود (پہلا حصہ)

مخملی آواز کا مالک، طلعت محمود (پہلا حصہ)


لرزتی اور پرسکون آوازکے مالک طلعت محمود کا جنم 24 فروری1924 کو لکھنو کے ایک قدامت پسند گھرانے میں ہوا۔ ابتدائی تعلیم لکھنو ہی میں حاصل کی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ طلعت کو بہت چھوٹی عمر ہی سے نیم کلاسیکی موسیقی سے لگاؤ تھا، جہاں کہیں بھی کوئی سنگیت کی محفل ہوتی طلعت فوراً وہاں جا پہنچتے۔ والد منظور محمد کو بیٹے کا سنگیت کی طرف رجحان پسند نہیں تھا لیکن طلعت نے موسیقی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔ والد نے جب یہ دیکھا کہ ان کا بیٹا موسیقی کی دنیا سے ہٹنے کو تیار نہیں تو انھوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ طلعت کو اگر گھر میں رہنا ہے تو اسے دونوں میں سے ایک کو چننا ہوگا، سنگیت یا گھر۔ بیٹے نے گھر چھوڑ دیا اور سنگیت کو چن لیا۔ گھر میں صرف ان کی پھوپھی ہی تھیں جنھیں ان کی آواز کی لرزش پسند تھی۔ انھوں نے جب طلعت کا رجحان سنگیت کی طرف دیکھا تو اپنے بھائی سے کہا کہ ’’ بچے کا رجحان اگر موسیقی کی طرف ہے تو اس کو کرنے دو۔‘‘ پھوپھی نے ضد کرکے طلعت کے لیے ایک گراموفون منگوا دیا جس پر وہ سہگل کے گیت سنتے۔

 ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلعت نے لکھنو کے مارس کالج آف میوزک میں داخلہ لیا۔ اس کالج میں داخلہ انھی کو ملتا ہے جنھیں واقعی سنگیت کا شوق ہوتا تھا۔ انٹرویو کے دوران جب طلعت نے ایک لمبی تان لی تو اساتذہ حیران رہ گئے اور انھیں داخلہ مل گیا۔ یہاں انھوں نے ایس سی آربٹ سے موسیقی کی تربیت حاصل کی اور پھر بات جب فیوچر کی پلاننگ کی آئی تو انھوں نے گھر چھوڑ دیا۔

طلعت محمود نے اپنے کیریئر کا آغاز 1939 میں کیا۔ وہ آل انڈیا ریڈیو پر بھی باقاعدہ گانے لگا۔ مارس کالج میں انھوں نے تین سال تک گائیکی کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ابتدا ہی میں داغ، جگر، غالب اور میر کی غزلیں گانی شروع کیں۔ طلعت کی آواز میں جو مٹھاس اور لرزش تھی وہ آج تک کسی دوسرے گائیک کے گلے میں نہیں۔ سہگل کی نقل بہت سے گلوکاروں نے کی جس میں سرفہرست مکیش کا نام آتا ہے۔ ان کا فلم ’’آگ‘‘ کے اس گیت کو سبھی سہگل کا سمجھتے تھے:

دل جلتا ہے تو جلنے دے

آنسو نہ بہا فریاد نہ کر

طلعت بھی سہگل کے دیوانے تھے، ابتدا میں انھوں نے بھی سہگل کے انداز میں گانے کی کوشش کی لیکن نامور موسیقار انل بسواس کی بدولت انھوں نے اپنی آواز میں گیت گائے۔ انھی دنوں ایچ ایم وی کمپنی نئے گلوکاروں کی تلاش میں تھی، انھوں نے طلعت کے گانے سنے تو اس کی گائیکی سے حد درجہ متاثر ہوئے اور فوراً ہی تین گانوں کا معاہدہ کر لیا اور ان تین غزلوں میں سے ایک غزل ’’ تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘‘ اس قدر مشہور ہوئی کہ فلمی دنیا کے بیشتر موسیقار اس آواز کی طرف متوجہ ہوگئے۔ یہ گیت بعد میں فلم ’’بارہ دری‘‘ میں اداکار سریش پر فلم بند کیا گیا۔ اسی دوران جب طلعت لکھنو سے کلکتہ پہنچا تو مشہور موسیقار اورگائیک پنکج ملک سے ملاقات ہوئی انھوں نے فوراً ہی طلعت کو ملازمت پر رکھ لیا۔ نیوتھیٹرز کی ملازمت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ طلعت کی ملاقات سہگل سے ہوگئی جوکہ اس کا آئیڈیل تھا۔

طلعت محمود نے تپن کمار کے نام سے بنگالی گیت بھی گائے جن کی تعداد تقریباً چالیس سے زیادہ ہے۔ آہستہ آہستہ فلمی دنیا کلکتہ سے بمبئی شفٹ ہونے لگی تو طلعت محمود بھی بمبئی آگیا۔ یہاں انل بسواس نے اسے بلوایا کیونکہ وہ اس کی غزل ’’تصویر تیری دل میرا بہلا نہ سکے گی‘‘ سن چکے تھے لیکن طلعت انل بسواس کے پاس نہیں گئے، کیونکہ دوستوں نے بہکا دیا تھا کہ انل بسواس تمہیں ریجیکٹ کردیں گے کیونکہ تمہاری آواز میں ایک لرزش ہے۔ پھر ایک دن انل بسواس خود طلعت محمود کے پاس چلے گئے اور بولے ’’کیا تم بہت بڑے گائیک بن گئے جو میرے دو بار بلانے پر بھی نہ آئے؟‘‘ طلعت نے گھبرا کر کہا کہ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ آپ اسے ریجیکٹ کر دیں گے‘‘ انل بسواس طلعت کی قیمتی آواز کو پہچان گئے تھے ان دنوں وہ دلیپ کمار اور کامنی کوشل کو لے کر فلم ’’آرزو‘‘ بنا رہے تھے۔ انھوں نے طلعت محمود کو دھن سمجھائی اور کاغذ پہ بول لکھ کر اس کے حوالے کیے۔ وہ بول تھے ’’اے دل مجھے ایسی جگہ لے چل جہاں کوئی نہ ہو۔‘‘ طلعت کو اپنے دوستوں کی بات یاد تھی، اس نے اپنی آواز کی لرزش کو چھپا کر گانا ریکارڈ کروانا شروع کیا تو انل بسواس نے ریکارڈنگ روک دی اور طلعت کو بلا کر کہا ’’ تمہاری آواز میں جو لرزش ہے وہی تمہاری خوبی ہے، مجھے اسی لرزش کے ساتھ گانا ریکارڈ کروانا ہے۔‘‘ دلیپ صاحب پر طلعت محمود کی آواز بہت سوٹ کرتی تھی، طلعت نے کئی اداکاروں کے لیے گانے گائے۔ ’’آرزو‘‘ 1950میں ریلیز ہوئی۔ فلم ’’جوگن‘‘ کا گیت ’’سندرتا کے سبھی شکاری‘‘ بھی 1950 میں ریلیز ہوئی۔

(جاری ہے)





Source link