تیئس اپریل کو کتب کا عالمی دم گزرا ہے جس حوالے سے میں ذکر کروں گا ریاست بہاول پور کے سب سے بڑے اور قدیمی نجی کتب خانے کا جو صادق آباد کے ایک دیہات میں واقع ہے۔
یہ مبارک اردو لائبریری ہے جس کی بنیاد مبارک شاہ جیلانی مرحوم نے 1926 میں صادق آباد کے علاقے پیر دا گوٹھ میں رکھی تھی۔ پیر دا گوٹھ، صادق آباد کے علاقے سنجرپور کے نواح میں واقع ایک بستی ہے جسے اب محمد آباد کہا جاتا ہے۔
مبارک شاہ جیلانی صاحب خود بھی ایک شاعر تھے جو ’’لالہ صحرا‘‘ نامی سہ ماہی رسالہ نکالا کرتے تھے۔ 1933 میں شروع ہونے والا یہ رسالہ، ریاست بہاولپور میں اردو کا پہلا ادبی رسالہ شمار کیا جاتا ہے۔
چوںکہ انہیں کتابیں، رسالے، مجلے اور قلمی مخطوطات اکٹھے کرنے کا شوق تھا سو انہی کے ذخیرے سے اس کتب خانے کی بنیاد پڑی جسے ان کے بیٹے سید انیس شاہ جیلانی صاحب نے اور آگے بڑھایا۔
اکتوبر 1937 میں پیدا ہونے والے سید انیس شاہ جیلانی مرحوم، خود بھی ایک بہترین مصنف، محقق، سفرنامہ نگار اور خاکہ نگار تھے۔ آپ نے لکھنؤ میں مشہور لکھاری نیاز فتح پوری کے زیرِسایہ رہ کر اردو لکھنے اور انشاء پردازی کی تربیت لی۔
خاکہ نگاری کے حوالے سے آپ کا تقابل کسی بھی بہترین خاکہ نگار سے کیا جا سکتا ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں کئی کتابیں لکھیں جن میں نوازش نامے، آدمی غنیمت ہے (شخصی خاکے)، محفل دیدم، بیاض مبارک، سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان، آدمی آدمی انتر، غالب کی دشنام طرازیاں، معاصرین مبارک، قاضی صاحب و دیگر شامل ہیں جب کہ ایک کتاب ’’سید انیس شاہ جیلانی کے خطوط‘‘ بھی منظرعام پر آچکی ہے۔
آپ نے جب اردو لکھی تو کمال اور جب سرائیکی لکھی تو وہ بھی کمال۔
محترمہ زاہدہ حنا ان کے بارے ایک جگہ لکھتی ہیں؛
’’انیس شاہ کی ذات میں مجھے ہر لمحہ ایک پشتینی جاگیردار اور ادیب کے وجود کی کشمکش نظر آئی ہے۔ ان کی ادب دوستی اور علم نوازی نے ان کی جاگیر کو ٹھپ کیا اور ان کی جاگیرداری نے ان کے اندر کے ادیب کو بے دعویٰ رکھا۔ ہر لمحہ ادب کے مسائل میں گم اور ہر ساعت اچھی کتابوں اور نادر مخطوطوں کی تلاش میں سر گرداں۔ ان کے والد کو اردو اور بعض اردو ادیبوں سے عشق تھا۔ وہ بیٹے کو ’اردوداں‘ نہیں ’’اردو والا‘ بنانا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھیں رئیس احمد جعفری کے سپرد کیا۔ وہ اس گھرانے میں رہے۔ بہت کچھ سیکھا لیکن بہت کچھ کھودیا۔ وہ جنھیں چاہتے انھیں آم کے موسم میں اپنے باغات کے آم بھیجتے۔ ایک دو نہیں، درجن سے زیادہ پیٹیاں ہر شخص کے گھر پہنچتیں۔ لیکن اسی شخص کے بارے میں لکھنے کے لیے دوات میں قلم ڈبوتے تو مزاج کی تمام تلخی اس روشنائی میں حل ہوجاتی۔وہ اپنے علاقے کے اچھے بھلے زمیندار تھے لیکن شوق اس کا تھا کہ ادیب کی حیثیت سے پہچانے جائیں۔ ان کے والد سید مبارک شاہ نے 1926 میں جو لائبریری قائم کی تھی اسے انیس شاہ نے چار چاند لگائے۔ سنا ہے کہ اب اس میں 26 ہزار سے زیادہ کتابیں اور نادر مخطوطات ہیں۔ غالب کے عاشق تھے، عاشقِ صادق تھے۔ دورجدید کے ادیبوں میں وہ نیاز فتح پوری، رئیس احمد جعفری اور رئیس امروہوی کو مرشد جانتے تھے۔ اپنے محترم والد سید مبارک شاہ جیلانی کی قائم کردہ لائبریری کو اتنا بڑھایا اور پھیلایا کہ اب اس میں 26000 سے زیادہ کتابیں اور مخطوطے ہیں۔ وہ علاقہ کہ جہاں اردو بولنے، سمجھنے اور پڑھنے والے ڈھونڈے سے نہیں ملتے تھے، وہاں سید مبارک شاہ نے 1926 میں ایک اردو لائبریری قائم کی جس میں موجود کتابوں کی خوشبو نافۂ مشک کی طرح پھیلی۔ سید مبارک شاہ کے بیٹے سید انیس شاہ نے اپنے کھیتوں کی سوندھی مٹی سے ذرا کم ہی رشتہ جوڑا، وہ ساتویں جماعت میں ناکام ہوئے اور پھر اردو اور سرائیکی ادب کے عشق میں یوں ڈوبے کہ آج بہاء الدین ذکریا یونیورسٹی میں ایم اے سرائیکی کے نصاب میں ان کی کتابیں شامل ہیں۔‘‘
آپ کی وفات 26 جون 2017 میں ہوئی تھی۔
لائبریری کی طرف واپس آتے ہیں۔۔۔۔
چند سال پہلے جاڑوں کے ایک اتوار میں نے بستہ کمر پر لادا اور صادق آباد کے لیے ٹرین پکڑی۔ میرا مقصد صرف اور صرف ریاست کا یہ اولین کتب خانہ دیکھنا تھا۔ وہاں پہنچا تو انیس شاہ جیلانی مرحوم کے صاحب زادے اور میرے ادبی دوست محترم جناب ڈاکٹر ابوالحسن شاہ جیلانی صاحب نے استقبال کیا۔ آپ آج کل صادق آباد کے سول اسپتال میں ڈینٹل سرجن تعینات ہیں اور اعلیٰ پائے کا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں آپ کے بڑے بھائی ابوالکلام شاہ جی، ابو الفضل شاہ صاحب اور چھوٹے بھائی ابوالبشر شاہ صاحب بھی تشریف لے آئے (ان بھائیوں کے نام بھی کیا کمال رکھے گئے ہیں، اردو زبان کا چلتا پھرتا نمونہ)۔ کچھ دیر گپ شپ کے بعد کتب خانے کا دورہ کروایا گیا۔
درختوں اور خوب صورت پودوں سے مزین ایک لان سے گزر کر ہم مرکزی عمارت تک پہنچے۔ لال رنگ سے ڈھکی کسی دلہن کی طرح ملبوس ایک خوب صورت عمارت جس کی محراب پر ’’مبارک اردو لائبریری، محمد آباد تحصیل صادق آباد‘‘ لکھا تھا۔ برآمدے کی دیواروں پر کچھ پرانی تصویریں لٹکی ہوئی تھیں جب کہ یہاں رکھا پرانا اور روایتی فرنیچر گزرے دنوں کی یاد دلا رہا تھا۔ لائبریری کے مختلف کمروں میں کتابیں رکھنے کے لیے کنکریٹ کے شیلف بنائے گئے ہیں۔
یہاں عربی، فارسی، اردو، سرائیکی، پنجابی اور سندھی کی کئی کتابیں موجود تھیں (ایک اندازے کے مطابق ستائیس ہزار) رکھی ہیں۔
خطوط کی بات کریں تو انیس شاہ جیلانی صاحب نے اپنی زندگی میں کئی خاص و عام کو ہزاروں خطوط لکھے جو احباب کے پاس آج بھی محفوظ ہیں۔ انہوں نے سرائیکی کے محقق جناب شوکت مغل کو لگ بھگ 290 خطوط لکھے تھے جن میں سے 27 اردو جب کہ باقی سرائیکی میں تھے۔ ان خطوط کو 2019 میں ’’انیسِ علم بنام جلیسِ ادب‘‘ کے نام سے چھاپا گیا تھا۔
اس کتب خانے میں جون ایلیا، صادقین، صدیق سالک، محمد طفیل اور مشفق خواجہ جیسے اپنے عہد کے نام ور لوگوں کے مختلف خطوط بھی محفوظ کیے گئے ہیں جو میرے نزدیک اس کتب خانے کا خصوصی امتیاز ہیں۔
مجھے یہاں قرآنِ کریم کے قدیم نسخے اور روزنامہ جنگ و نوائے وقت کے پرانے شمارے بھی دکھائے گئے جن کا تسلسل تاریخ کے حوالے سے کئی سال تک محیط تھا۔ اس کے علاوہ بھی یہاں بہت کچھ موجود ہے جو علم کے پیاسوں کا منتظر ہے۔
وقتاً فوقتاً یہاں کئی شعراء، مصنف، محقق، دانش ور اور ادیب ان کتابوں سے فیض یاب ہونے تشریف لاتے رہتے ہیں جن کے لیے ابوالحسن شاہ صاحب نے ایک جدید اور خوب صورت ڈیرہ بنوا رکھا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کتب خانے میں ان بھائیوں نے بھی خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔
لائبریری کے ساتھ دوسری طرف انیس شاہ جیلانی مرحوم کا مزار بھی زیرتعمیر تھا جو اب تک مکمل ہو چکا ہو گا۔
اگر آپ بھی کتابوں سے محبت رکھتے ہیں اور کچھ منفرد دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کتب خانے کا کم از کم ایک چکر ضرور لگائیں۔