قومی مفادات اور سیاسی ترجیحات

قومی مفادات اور سیاسی ترجیحات


وزیراعظم شہباز شریف نے دنیا کو پاکستانی موقف اور بھارت سے جنگ کے دوران ملکی تحفظات سے آگاہی کے لیے پی پی چیئرمین کی سربراہی میں جو پیس ڈیلی گیشن بنایا ہے، اس میں شامل نہ کرنے پر پی ٹی آئی نے اعتراض کیا ہے اور بھارت کی مثال دی ہے کہ وہاں مودی حکومت نے اپوزیشن کو اہمیت دی اور وہاں بھارتی حکومت نے جو سات کمیٹیاں بنائی ہیں۔

ان میں حکومتی پارٹی بی جے پی نے صرف دو کمیٹیوں کی سربراہی اپنے پاس رکھی ہے اور بھارتی اپوزیشن کو پانچ کمیٹیوں کی سربراہی دی گئی ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان کو پی ٹی آئی کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ یہ قومی مسئلہ ہے۔

 پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی کا تو یہ کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو خود اڈیالہ جیل جا کر سزا یافتہ بانی سے ملاقات کر کے موجودہ حالات پر مشاورت کرنی چاہیے تھی جو قومی مفادات کا تقاضا تھا جس سے بھارت کو بھی پیغام جاتا کہ ملک کی تمام جماعتیں بھارت کے خلاف قومی سوچ رکھتی ہیں اور وہاں سب بھارت کے خلاف ایک زبان ہیں۔

وزیر اعظم کے امن وفد میں شامل مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں پیش کی گئی جن حکومتی قراردادوں کی پی ٹی آئی نے حمایت کی وہ نیم دلانہ تھیں کیونکہ چار مئی کو ڈی جی آئی ایس پی آر نے جس بریفنگ کا اہتمام کیا تھا وہ فوج کی طرف سے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے تھی مگر پی ٹی آئی نے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ اس وقت پاکستان بہت تناؤ کا شکار تھا اور اس وقت قومی مفاد پی ٹی آئی کی ترجیح ہونا چاہیے تھا مگر وہ نہیں آئے اور آنے والی جماعتوں کو فوجی ترجمان نے بریفنگ دی جو قومی مفادات کا تقاضا تھا مگر پی ٹی آئی نے اس نازک موقعے کو خود ضایع کیا ۔

پی ٹی آئی اب بیرونی دورے پر جانے والے امن وفد میں شریک نہ کیے جانے پر برہم ہے اور اس کے بعض رہنما وزیر اعظم کو بانی کے پاس جانے کا مشورہ بھی دے رہے ہیں مگر انھیں نہیں پتا کہ اگر وزیر اعظم ایسا کر بھی لیتے تو اس بات کی کیا گارنٹی تھی کہ ضدی بانی اس وزیر اعظم سے ملنے پر راضی ہو جاتے جن کے وہ خلاف ہیں اور وہ حکومت کو تسلیم نہیں کر رہی ہیں۔

بانی پی ٹی آئی اور ان کے پارٹی عہدیداران تو اب بھی کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں ، اسی لیے پی ٹی آئی موجودہ حکومت سے مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی اور صرف فوج سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے ۔ ایسی صورت میں تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وزیر اعظم ملاقات کے لیے خود اڈیالہ جیل جاتے اور سیاسی مذاکرات پر یقین ہی نہ رکھنے والے بانی پی ٹی آئی اپنی سیاست چمکانے اور ذاتی مفاد کے لیے وزیر اعظم سے ملاقات سے انکار کر دیتے یا یہ پیشگی شرط عائد کرتے کہ حکومت پہلے انھیں رہا کرے۔ مقدمات واپس لے اور اے پی سی بلائے تو وہ شریک ہوں گے۔

وزیر اعظم شہباز شریف اسی نواز شریف کے بھائی ہیں جو 2013 کے الیکشن میں پولنگ سے قبل بانی پی ٹی آئی کے اسٹیج سے گر کر زخمی ہو جانے پر شوکت خانم اسپتال عیادت کے لیے گئے تھے جب کہ بانی کے ذاتی اخلاق کا یہ حال ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے جیل میں قید نواز شریف کو لندن میں بستر مرگ پر پڑی اپنی بیوی سے فون پر آخری گفتگو تک نہیں کرانے دی تھی اور کلثوم نواز کی وفات پر نواز شریف سے اظہار تعزیت گوارا نہ کیا تھا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے سانحہ اے پی ایس پر بانی پی ٹی آئی کو بھی مدعو کیا تھا جب وہ آزاد تھے اور نواز شریف کے خلاف طویل دھرنا دے کر سیاسی طور انھیں اقتدار سے ہٹانے میں ناکام رہے تھے اور انھیں نواز شریف نے اپنے برابر میں بٹھایا تھا اور بانی ان پر ذاتی حملے کیا کرتے تھے۔ تین بار اپنی برطرفی پر نواز شریف نے یہ ضرور کہا تھا کہ مجھے کیوں نکالا اور ان کی نااہلی پر پی ٹی آئی کے متعدد رہنما اب بھی کہہ رہے ہیں کہ ان کی عدالتی نااہلی غلط تھی مگر جب 2022 میں بانی کو اقتدار سے آئینی طور پر ہٹایا گیا تو انھوں نے کہا تھا کہ مجھے ہٹانے سے بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم پھینک دیا جاتا۔

بانی پی ٹی آئی، ان کی بہنوں اور پارٹی رہنماؤں کا واحد ایجنڈا بانی کی رہائی ہے جس کے لیے وہ دنیا بھر میں مہم بھی چلا رہے ہیں اور ان کے ایک رکن قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ حکومت نے امن وفد میں ہمیں شامل نہیں کیا تو ہم اپنے طور پر دنیا بھر میں جائیں اور بھارتی مہم جوئی کے خلاف بیانیہ کے ساتھ ساتھ بانی کی رہائی کا مطالبہ بھی کریں گے۔

پی ٹی آئی نے قومی مفاد کے بجائے سیاسی مفاد کے لیے آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض رکوانے کی بھی مذموم کوشش کی تھی جب کہ ان کی حکومت کے باعث شریف فیملی نہیں پاکستان معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور پی ٹی آئی نہیں چاہتی تھی کہ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستانی معیشت میں بہتری آئے۔

امن وفود کی تشکیل میں بھارت و پاکستان کا کوئی موازنہ نہیں ہے۔ بھارتی اپوزیشن لیڈر جیل میں نہیں اور ان کی پارٹی مودی حکومت کو جعلی کہتی ہے جب کہ بانی پی ٹی آئی ممبر پارلیمنٹ یا اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر خان اور اس کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب آزاد اور حکومت کے سخت خلاف ہیں۔ ایسے حالات میں حکومت پی ٹی آئی کو اپنے امن وفد میں کیسے شامل کرتی؟ اگر کر بھی لیتی تو وفد کے ارکان سرکاری طور پر بیرونی دورے پر جا کر اپنے بانی کی رہائی کا ضرور مطالبہ کرتے اور سیاسی مفاد حاصل کرتے۔ حکومت نے جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنا کر اور ایئرچیف کو مدت ملازمت میں توسیع دے کر پی ٹی آئی پر بجلیاں گرا دی ہیں اور اس کی بہت سی خواہشات بھی خاک میں ملا دی ہے۔





Source link