تاجروں اور دکانداروں کے لیے پہلے رمضان المبارک اور عیدالاضحی کمائی کا ذریعہ ہوتے تھے۔مہنگائی بڑھنے کے ذمے دار تاجر اور دکاندار حکومت کو ٹھہراتے ہی ہیں مگر ریٹیلر خود نرخ بڑھا کر بڑی ہول سیل مارکیٹوں کے مالکان اور تاجروں کو مہنگائی کا ذمے دار قرار دیتے ہیں کہ حکومتی افسران ان برے ہول سیلرز کو نہیں پوچھتے بلکہ جرمانے، چھاپے اور برائے نام گرفتاریاں صرف ہماری ہوتی ہیں۔
جب سے 18 ویں ترمیم کے بعد وفاق کے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے ہیں تو مہنگائی پر کنٹرول کا اختیار بھی صوبوں کو مل گیا ہے جنھوں نے یہ اختیار ضلعی انتظامیہ کو دے دیا ہے جس کو حکومت کے سیاسی مفادات کے تحفظ، امن و امان برقرار رکھنے اور حکومتوں کے سیاسی مخالفین پر حکومت مخالف مقدمات بنانے اور دیگر معاملات میں ہی فرصت نہیں تو وہ عوام کے اہم مسئلے مہنگائی پرکیوں توجہ دیں گے؟
حکومت، ارکان پارلیمنٹ کی طرح مہنگائی بیوروکریٹس کا بھی مسئلہ نہیں ہوتا اور ہر قسم کے اختیارات کے حامل ان بڑے افسروں کو نہ آٹے دال کا پتا ہوتا ہے نہ ملاوٹی اشیا اور مہنگائی کا، نہ وہ خریداری کرنے جاتے ہیں اور سرکاری طور پر ان کے گھروں میں کام کرنے والوں کو متعلقہ دکاندار اچھی طرح پہچانتے ہیں کہ وہ فلاں صاحب کا سامان خریدتے ہیں۔ اس لیے دکاندار انھیں معیاری اشیا کم نرخوں پر اور بعض دفعہ مفت بھی دے دیتے ہیں جس کی وجہ سے صاحب لوگوں کو پتا ہی نہیں چلتا کہ ان کے علاقوں میں گراں فروشی، مضر صحت اشیا و دیگر چیزوں پر عوام کو کس طرح لوٹ رہے ہیں۔
ہر صوبے میں ضلعی انتظامیہ صرف رمضان المبارک میں متحرک ہوتی ہے۔ چھاپوں، جرمانوں کے ذریعے سرکاری آمدنی میں اضافہ کر کے متعلقہ حکام گیارہ مہینے اپنے دفاتر سے ہی نہیں نکلتے تو انھیں کیا پتا کہ عوام کو مہنگائی کے ذریعے کس طرح لوٹا جا رہا ہے۔
عید قرباں پر سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے بھی بڑے افسران خود مویشی منڈیوں میں نہیں جاتے بلکہ اب تو بڑے لوگوں اور افسروں کے لیے جانوروں کے فارم ہاؤس بن گئے ہیں جہاں صاف ستھری جگہوں پر ان کے مہنگے اور خوبصورت جانور شامیانوں کے سائے، روشنی اور پنکھوں میں خریداروں کو متوجہ کرتے ہیں۔ پہلے یہ فارموں والے بڑے مویشی منڈی میں خصوصی انتظام کے تحت جانور فروخت کرتے تھے مگر اب انھوں نے مویشی منڈیاں چھوڑ کر اپنے فارم پر ہی جانوروں کو پالنے اور فروخت کرنے کا کاروبار شروع کر رکھا ہے جہاں وی آئی پیز آ کر منہ مانگے داموں مہنگے جانور خرید کر لے جاتے ہیں۔
مویشی منڈیاں اب متوسط طبقے کے لیے ہر سال خاص طور پر خریداروں کو لوٹنے کے لیے لگائی جاتی ہیں جو انتظامیہ کی بھی کمائی کا بڑا ذریعہ بن گئی ہیں جب کہ عام دنوں میں لگی رہنے والی منڈیاں الگ ہیں اور جو بڑی منڈیاں شہر سے باہر خصوصی طور پر عید قرباں کے لیے لگائی جاتی ہیں وہ نہ صرف مہنگی ہوتی ہیں بلکہ لوگوں اور فیملیز کی تفریح کا بھی ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔
کراچی میں پہلے سپر ہائی وے پر ایشیا کی سب سے بڑی منڈی لگتی تھی جو اب ناردرن بائی پاس کے ویران علاقے میں لگتی ہے اور ڈاکوؤں کے لیے سیزن ہوتا ہے جہاں لوٹ مار، ڈکیتی بلکہ اب جانور چھین کر لے جانے کی بھی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ منڈیوں میں مہنگے جانوروں کی خریداری پر کراچی انتظامیہ مجبور کرتی ہے کہ قربانی کے لیے جانور خریدنے والے شہر کی کم قیمت منڈیوں سے جانور نہ خریدیں بلکہ خصوصی مہنگی منڈیوں میں جا کر مہنگے جانور خریدیں اور آتے جاتے ڈکیتوں کے ہاتھوں لٹیں اور قربانی کرنے کی سزا بھگتیں۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کورنگی میں برسوں سے لگنے والی مویشی منڈی کا اجازت نامہ انتظامیہ نے منسوخ کر دیا ہے جو مقررہ طریقہ کار کے تحت انتظامیہ نے باقاعدہ نیلامی کے ذریعے 70 لاکھ روپے ادائیگی پر دیا تھا جو بلدیہ عظمیٰ کراچی نے وصول کیا مگر ایک عدالتی حکم پر منسوخ کر دیا گیا۔ بڑی منڈی کی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ لوگ شہر میں جانور خریدیں اس لیے منڈی لگوا کر کمائی کرنے والے نہیں چاہتے کہ لوگ شہر سے کم قیمت پر جانور خریدیں۔ ہر مویشی ٹھیکیدار اور مویشی فروخت چاہتے ہیں کہ خریدار بڑی منڈی میں آ کر مہنگی خریداری کریں اور واپسی پر گائے خریداری پر بلدیہ عظمیٰ کو میونسپل ٹیکس کے پانچ سو روپے ادا کرے اور خریداری کے بعد ٹرانسپورٹ کا ہزاروں روپے کرایہ ادا کرکے جانور اپنے گھر لے جائے۔
منڈی میں جانور لانے والوں کو مختلف ٹیکس پہلے دینا پڑتا ہے اور وہ منڈی میں مقررہ ٹھیکیداروں سے ہر چیز مہنگی خرید کر وہ بھی خریداروں کو جانور مہنگا فروخت کرکے لوٹتے ہیں۔ اس طرح ہر ادارے نے عید قرباں کو کمائی کا ذریعہ بنا دیا ہے اور جانوروں کی خریداری بے حد مشکل بنا دی ہے تاکہ ضرورت مند قربانی ہی نہ کر سکیں یا لٹتے رہیں۔