Jan Van Hooff‘ پوری زندگی جانوروں پر سائنسی تحقیق کرتا رہا۔ ہالینڈ کا مشہور ترین Biologist تھا۔ حد درجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان جو خصوصی طور پر چیمپئزChimpanzees اور ان کے رویوں پر حد درجہ دقیق تحقیق کرنے میں مصروف رہا ۔ 1971 میں ایک مادہ گوریلا چڑیا گھر میں لائی گئی۔ اس کا نام ’’ماما‘‘ رکھا گیا ۔
پروفیسر وون کی سربراہی میں‘سائنسدانوںنے گوریلوں کے گروہ کی عادات و سکنات کو پرکھناشروع کر دیا ۔ جین کو احساس ہوا کہ ’’ماما‘‘ حد درجہ مختلف ہے اور اسے انسانوں سے رابطہ کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ جس چڑیا گھر میں یہ تحقیق جاری تھی اس کا نام Royal Burgers Zooتھا جو ایک سو دس ایکڑ پر محیط تھا۔ اور ہالینڈ کے شہر ARNHEM َمیںواقع ہے۔ وقت گزرتا گیا اور ڈاکٹر جین اپنی تحقیق کو مستند ترین کتابوں میں منتقل کرتا گیا۔ان کتابوں میں سب سے زیادہ متاثر کن تاثرات ‘ ماما کے متعلق تھے ۔
جیسے ہی ہوف گوریلوں کے پنجروں میں جاتا‘ ماما دور سے دوڑتی ہوئی آتی اور اس کے ساتھ لپٹ جاتی ۔ سائنسدان کئی کئی گھنٹے اس مادہ گوریلا کے ساتھ گھومتا رہتا اور اس کی حرکات و سکنات کو سائنسی نظر سے پرکھتا رہتا۔ ماما کے رویہ نے ہوف کو جانوروں کے متعلق بہت کچھ نیا سکھایا۔ اسے علم ہوا کہ گوریلے آپس میں کس طرح بولتے ہیں ۔ ان کے باہمی سماجی رویے کیسے ہیں۔ وہ گروہی سطح پر ایک دوسرے کی بھرپور مدد کب اور کس طرح کرتے ہیں ۔ اور ان میں باہمی یگانگت ‘ محبت اور نفرت کا تعلق کیا ہے۔
جب یہ تحقیقاتی رپورٹ شایع ہوئی تو اس نے دنیا میں سائنسی اعتبار سے تہلکہ مچا دیا۔ انسان اور جانور کے ربط کو پہلی بار اس طرح محسوس کیا گیا۔ پروفیسر وان ہوف ریٹائرمنٹ کے بعد کتابیں لکھنے میں مصروف ہو گیا ۔ ایک دن چڑیا گھر سے منسلک ایک شخص کا فون آیا کہ ماما کی عمر اب انسٹھ برس کی ہو چکی ہے ۔ اس نے تین ہفتے سے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔ اور وہ ایک کونے میں لیٹی ہوئی موت کا انتظار کر رہی ہے ۔ پروفیسر ہوف کو ماما سے حد درجہ انسیت تھی ۔ اسے یقین نا آیا کہ اتنی ذہین اور فعال مادہ گوریلا یکدم زندگی سے اتنی لا تعلق ہو جائے گی ۔
اگلے ہی دن وہ برگر زوو پہنچا اور ماما کے پنجرے میں چلا گیا ۔ اس کی تشویشناک حالت دیکھ کر پروفیسر وون کے آنسو نکل آئے ۔ ماما ایک ڈھانچہ بن چکی تھی اور آنکھیں بند کیے ہوئے موت کا انتظار کر رہی تھی ۔ پروفیسر نے بڑی محبت سے ماما کا نام لیا مگر اس نے کسی قسم کی توجہ نہ دی ۔ لگتا تھا کہ ماما ‘ پروفیسر کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کو فراموش کر چکی ہے۔ اچانک وون کے ذہن میں وہ گانا آیا جو کبھی کبھی وہ ماما کو سنایا کرتا تھا ۔ وون نے بلند آواز میں وہی گانا گانا شروع کر دیا ۔ جیسے ہی اس نغمے کی آواز ما ما کے کانوں میں پہنچی تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور محبت سے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا۔
پروفیسر وون کی موجودگی اس کے لیے ایک نعمت سے کم نہ تھی۔ماما نے بڑی مشکل سے اپنا دایاں بازو اٹھایا ۔ پروفیسرنے اس کا بازو تھام لیا اور اسے آہستہ آہستہ سہلانا شروع کر دیا۔ ماما کچھ بھی نہیں بھولی تھی۔ چند گھنٹوں میں وہ تھوڑی سی بہتر ہو گئی۔ ایک پورا دن گزر گیا ۔ اگلے دن پروفیسر وون دوبارہ ماما کے پاس گیا تو ماما اپنی انگلی سے پنجرے کے آخری کونے کی طرف اشارہ کر رہی تھی ۔ پروفیسر اس طرف گیا ۔ سوکھی گھاس کو اٹھایا تو حیران رہ گیا کہ ماما نے چڑیا گھر سے ملنے والے کھانے کو محفوظ طریقے سے جمع کر رکھا ہے۔
ایسے لگتا تھا وہ صرف انتظار کر رہی تھی کہ کب اس کا دوست آئے اور وہ کھانا کھانا شروع کر دے ۔ پروفیسروون نے اس کھانے میں سے چند اشیا اٹھائیں اور بڑی احتیاط سے بوڑھی ماما کو کھلانی شروع کر دیں۔ ساتھ ساتھ وہ گانا بھی گاتا جاتا تھا جو ماما کو پسند تھا ۔ چڑیا گھر کے عملے کی حیرت انتہا تک پہنچ گئی جب انھوںنے نحیف ماما کو رغبت سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا ۔انھیں بھرپور اندازہ ہوا کہ جانور کتنے حساس اور عقل مند ہوتے ہیں۔وہ کس طرح اپنے پیاروں کا انتظار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مشکل حالات میں ‘ انھی شناسا ہاتھوں سے کھانا کھائیں۔ تحقیق کا یہ عنصر حیران کن تھا ۔
پروفیسروون کئی دن تک روز ‘ ماما کے پنجرے میں آ جاتا تھا۔ ماما اس کے ہاتھ سے خوشی سے کھانا کھاتی تھی۔ جیسے ہی پروفیسر پنجرے میں آتا تو ماما کے چہرے پر مسکراہٹ آ جاتی ۔ اس کی ہنسنے والی یہ تصویریں کروڑوں لوگوں نے سوشل میڈیا پر دیکھیں ۔موت کا ایک دن اور وقت متعین ہے ۔ ماما ایک دن بڑے آرام سے جہان فانی سے کوچ کر گئی۔ اس کے کمزور سے بازو اور ہاتھ پروفیسر وون کے ہاتھوں میں تھے ۔ چڑیا گھر کے سائنسدان اور اسٹاف ‘ آخری وقت میں اردگرد موجود تھے ۔ ڈاکٹر وون کے لیے یہ لمحہ بڑا مشکل تھا ۔ ماما کی موت پر زارو قطار رو رہا تھا۔انسان اور جنگل کے جانور کے درمیان محبت اور انسیت کا یہ لگاؤ ‘ سائنسی دنیا میں ایک مثال بن کر رہ گیا۔ ڈاکٹر وون کے مطابق اس نے ماما سے زیادہ عقل مند اور مردم شناس گوریلا پوری زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس کی لکھی ہوئی کتابوں میں اکثر ماما کا ذکر ملتا ہے۔
دنیا میں انسان ‘ حیوان ‘ کیڑے مکوڑے اور نباتات ایک خاص توازن سے زندہ رہتے ہیں۔ یہ خوبصورت ترین عدل انسانی زندگی کے لیے امرت دھارا ہے۔ اور یہی صورتحال معروضی طور پر دیگر عناصر کی ہے ۔ ایک سائنسی تحقیق کے مطابق اگر دنیا سے انسانی زندگی معدوم ہو جائے تو اس میں دیگر عناصر بڑے اطمینان سے زندہ رہ سکتے ہیں ۔ مگر اس کے برعکس اگر دنیا سے حیوانات ‘ پرندے اور کیڑے مکوڑے ختم ہوجائیں تو انسانی نسل بہت تھوڑے عرصے میں ختم ہو جائے گی۔مطلب یہ کہ ہماری اپنی زندگی کے لیے ان سب کا ہونا حد درجے ضروری ہے۔ آپ کے سامنے ایک مثال رکھنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو اس عنصرکی اہمیت کا اندازہ ہو۔
انقلاب چین کے لیڈر ماؤزے تنگ نے 1958میں فیصلہ کیا کہ انسان کو ‘ نیچر کو فتح کر لینا چاہے۔ اسے دریاؤں کو مفتوح کرنا چاہیے اور پہاڑوں کو انسان کے سامنے سرجھکانا چاہیے ۔ اس کے اعلان کے بعد پورے چین میں قدرتی اشیاء کے خلاف جنگ شروع ہو گئی۔ یہ مہم Great Leap Forwardکا حصہ بن گئی۔ماؤ کے احکامات کے تحت جنگلات کو ختم کرناشروع کر دیا گیا۔ ماؤ کے مطابق چڑیاں ‘ اس کی قوم کی دشمن ہیں کیونکہ وہ گندم کے ذخائر کو چٹ کر جاتی ہیں۔
حکومت کے احکامات کے زیر اثر مکھیاں‘ مچھر‘ چوہے اور چڑیوں کومارنے کی جارحانہ مہم شروع کی گئی۔ پورے ملک میں کروڑوں چڑیاں مار دی گئیں۔ مگر جب قدرتی توازن ‘ ختم ہوا تو انتقام ایک مختلف طریقے سے سامنے آیا ۔ پورے چین کی فصلوں پر ٹڈی دلوں کے لشکروں نے حملہ کر دیا ۔ پورے ملک میں گندم کے ذخائر حد درجہ ناگفتہ بے حال میں چلے گئے۔ٹڈی دل کو کھانے والی چڑیاں وہ سپاہی تھیں جو گندم کو ٹڈی دلوں کے شر سے محفوظ رکھتی تھیں۔
نتیجہ کیا نکلا چین میں ایک خوفناک قحط آیا جس میں ساڑھے چار کروڑ لوگ غذائی قلت کی بدولت مر گئے۔ جب حکومت کو اپنی حماقت کا اندازہ ہوا تو وقت گزر چکا تھا۔ اس کے بعد ماؤ نے اپنے تمام احکامات واپس لیے اور لاکھوں کی تعداد میں چڑیاں بیرون ممالک سے منگوا کر چین میں چھوڑیں گئیں۔ جنگل دوبارہ لگائے گئے ۔ اس کے بعد بڑی تگ و دو سے دہائیوں بعد چین اس قابل ہوا کہ اپنی غذائی قلت پر قابو پا لے ۔
عرض کرنے کا مقصد بالکل سادہ سے ہے ۔ انسانی زندگی اور اس کے اردگردکے ماحول کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے ۔ اس تعلق کو حد درجہ غور سے پہچاننے کی ضرورت ہے ۔ اپنے معاشرے سے متعدد شکایات ہیں۔ اس میں ایک بہت بڑی شکایت یہ بھی ہے کہ ہم نے قدرتی توازن کو اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ جنگل کے جنگل انسانی لالچ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں نئے پودے لگانے کی رفتار حد درجے کم ہے ۔ اکثریت پرندوں اور جانوروں سے دور بھاگتی ہے ۔
بلکہ ان کی نسل کشی میں لذت محسوس کرتی ہے۔ اندازہ ہی نہیں کہ ہماری زندگی کی خوبصورتی ان تمام چیزوں سے منسلک ہے ۔ درخت لگانے کی سرکاری مہم بے جان سی ہوتی ہے جس میں نمائشی طور پر کسی وزیراعظم ‘ وزیراعلیٰ یا بابو سے درخت لگوایا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ ہم اس غیر متوازن رویے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ جو موسمیاتی تبدیلی کی تباہ کاریوں کی صورت میں ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی ہے۔ خیر وقت تو گزر چکا ہے لیکن اگر اب بھی ہوش کے ناخن نا لیے۔ تو نا تو یہ چار موسم رہیں گے ‘ نا خوفناک سیلابوں سے نجات ملے گی اور نہ ہی انسانی زندگی محفوظ رہے گی۔ کوشش کیجیے کہ اپنے اردگرد شجر کاری سے لے کر ‘ پرندوں کی محبت تک‘ ہرقدرتی چیز کی آبیاری کریں ۔ شاید قدرت ہم پر دوبارہ مہربان ہو جائے!