کراچی:
کپاس کی کاشت و کھپت بڑھانے اور روئی و سوتی دھاگے کی درآمد کی بجائے کاٹن پراڈکٹس کی برآمدات میں ریکارڈ اضافے سے متعلق تجاویز پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث پورے کاٹن سیکٹر میں تشویش کی لہر پائی جارہی ہے, عیدالفطر کے بعد مزید ٹیکسٹائل اسپننگ ملیں بند ہونے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں.
جبکہ روئی، سوتی دھاگے اور خوردنی تیل کی درآمدات پر اربوں ڈالر کے قیمتی زرمبادلہ خرچ ہونے کی اطلاعات زیرگردش ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر تھرڈ پارٹی آڈٹ کے بعد متعلقہ معیار پر پورا نہ اترنے والی اور غیر فعال 392 نجی سیڈ کمپنیوں کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی۔
مزید پڑھیں: ٹیکسٹائل سیکٹر میں بہتری کے لیے حکومت کو تجاویز پیش
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے ایکسپریس کو بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اسلام آباد میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب،وفاقی وزیر تجارت جام کمال احمد اور وفاقی وزیر برائے پلاننگ و اسپیشل انشی ایٹوز احسن اقبال سمیت متعلقہ وفاقی سیکرٹریز اور چیئرمین ایف بی آر سمیت اہم متعلقہ سرکاری اتھارٹیز اور اپٹما و پی سی جی اے کے اعلیٰ عہدیداروں کے درمیان ایک گرینڈ میٹنگ ہوئی.
جس میں اپٹما اور پی سی جی اے کے عہدیداروں نے بڑی تفصیل سے انہیں بتایا کہ کس طرح ای ایف ایس کے تحت اربوں ڈالر مالیتی سیلز ٹیکس فری روئی اور سوتی دھاگے کی درآمدات کے باعث نہ صرف اربوں ڈالر زر مبادلہ ملک سے باہر جارہا ہے بلکہ اس سے ملکی کاٹن انڈسٹری بھی تباہی کی طرف گامزن ہے.
اس سے پاکستان میں کپاس کی کھپت میں غیر معمولی کمی واقع ہونے سے ایک دو سال کے اندر اندر پاکستان میں کپاس کی کاشت میں بھی ریکارڈ کمی واقع ہو گی.
مزید پڑھیں: حکومت ٹیکسٹائل سیکٹر سے مشاورت کے بغیر کوئی پالیسی نہیں بنائے گی، وفاقی وزیر خزانہ
لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت نے نہ تو ابھی تک ای ایف ایس ختم کی اور نہ ہی کاٹن ایکسپورٹ انڈسٹری کے لیے بجلی کے نرخوں میں کوئی کمی کی، جس سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان میں کاٹن جننگ فیکٹریاں اور ٹیکسٹائل اسپننگ یونٹس آئندہ کچھ عرصے کے دوران بڑی تعداد میں بند ہو جائیں گے.
جس سے پاکستان میں سالانہ کم از کم 10رب ڈالر مالیتی خوردنی تیل، سوتی دھاگہ اور روئی درآمد کرنا پڑے گی اور اس سے ملکی معیشت بڑی حد تک کمزور ہو جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ پچھلے کچھ سالوں کے دوران پاکستان میں نجی سیڈ کمپنیوں کو بڑی تعداد میں رجسٹرڈ کیا گیا تھا جس کے باعث بعض سیڈ کمپنیاں بیج بنانے کے بارے میں متعلقہ معیار قائم نہ رکھ سکیں تھیں ۔