اگر ہم غلط زمین پر یا غلط موسم میں کوئی فصل کاشت کریں گے تو چاہے زمین اوربیج کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں اورکاشتکار کتنی ہی محنت کیوں نہ کرے، کھاد،پانی وغیرہ کتنے ہی زیادہ نہ دیے جائیں، وہ فصل ناکام ہی ثابت ہوگی جیسے ہم گرمیوں میں سردی کی فصلیں بوئیں اورسردیوں میں گرمی کی تو نتیجہ سوائے ناکامی کے اورکچھ نہیں نکلے گا، ساری محنت اورخرچہ عبث چلاجائے گا ، اسی طرح اگر غلط زمین میں بھی غلط زمین کی فصل بوئی جائے تو نقصان کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔
افغانستان میں دو مرتبہ ایسی غلط کوشش کی گئی تھی، غلط زمین میں غلط وقت پر اورغلط فصل بونے کی کوشش کی گئی جوہرہر لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہوئیں اوربہت زیادہ نقصان دہ بلکہ تباہ کن ثابت ہوئیں ، ایک وہ جب امان اللہ خان نے افغانستان کو کچھ سمجھے بغیر ایک دم ماڈرن کرنا چاہا تھا اوریہ بھول گیا کہ ترقی بتدریج قدم قدم اورزینہ بہ زینہ ہوتی ہے، چھلانگوں سے نہیں۔ ایک دم افغانستان کے پس ماندہ فرسودہ اورملا کی گرفت میں گرفتارافغانستان میں مرد وزن کو تعلیم کے لیے نکالا ، کوٹ پتلون اورٹائی کو مروج کرناچاہا ۔
اس کی سوچ اس کے ارادے اس کی خواہش اورتمنائیں غلط نہ تھیں، اپنے ملک سے اسے شدید محبت تھی اوراس کی بہت نہایت نیک اور کوشیشیں مخلصانہ ، حب الوطنی سے بھرپور تھیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پایا کہ اس کے پاس جو بیج تھا وہ اچھا تھا لیکن اس کے لیے موسم اورزمین دونوں سازگار نہ تھے چنانچہ اس کانتیجہ اس کی اپنی اورملک کی بربادی کے سوا کچھ نہیںنکلا زمین اورزیادہ بنجرہوگئی ۔
دوسری مرتبہ سوشلسٹوں اورنورمحمد ترکئی کی ٹیم نے بھی قبائلی اورملائی گرفت میں گرفتار افغانستان کو سیڑھیوں کے بغیر بام عروج پر چڑھاناچاہا تو افغانستان ایسی تباہی اوربربادی میں گرفتار ہوا جو ابھی تک جاری ہے اورنہ جانے کب تک جاری رہے گی۔
لوگ اس کی طرح طرح کی توجیحات کرتے ہیں، کرتے رہیں گے لیکن وجہ وہی ہے غلط موسم میں غلط زمین غلط بیج کاشت کرنے کی غلطیاں۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی ہورہا ہے لیکن ذرا مختلف انداز میں۔ آپ نے اکثر تعلیم نسواں، اعلیٰ تعلیم ، لٹریسی جیسے عامی لوگ تعلیم کہتے ہیں ذرا اونچے لوگ ایجوکیشن اوران سے بھی اونچے لوگ لٹریسی کانام دیتے ہیں اورسب کو یہ غلط فہمی ہے کہ یہ ’’علم‘‘ ہے جب کہ علم قطعی الگ چیز ہے۔
علم انسان کو انسان بناتا ہے اورتعلیم انسان کو صرف نوکر بننا، نوکر ہونا اورنوکری کرنا سکھاتی ہے یہ بھی دوسرے پیشوں کی طرح ایک پیشہ ہی ہے جیسے لوہاری کا پیشہ، ترکھانی کاپیشہ ، جولاہے کاپیشہ، مستریوں کاپیشہ ، ڈرائیور، راج معماری ، موچی گیری، ویلڈنگ وغیرہ کے پیشے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اس میں چھوٹائی بڑائی ہوتی ہے، اونچی یااعلیٰ نوکری اورعام یامعمولی نوکری اور وہ تو دوسرے پیشوں میں ہوتا ہے کہ ماہراورتجربہ کار زیادہ کماتے ہیں جب کہ مبتدی اورنالائق کم کماتے ہیں ۔دراصل یہ بھی اشرافیہ کے بہت سارے ہتھیاروں میں سے ایک ہتھیار ہے ،عوامیہ کو اپنا غلام یاتابعدار بنانے کا ، اس مروجہ تعلیم کی ایجاد اورمروج کرنے کاسہرا ایک انگریز لارڈ میکالے کے سرہے ۔
جب دنیا کے بیشتر ممالک پر انگریزی راج قائم یامسلط ہوگیا تو ہمیشہ کی طرح حکمرانوں کی تعداد کم اورمحکوموں کی زیادہ تھی ، اگلے زمانوں میں تو اقلیتی حکمران صرف ہتھیار لہرا کر حکمرانی کرتے تھے جس سے صرف جسم کو قابو کیاجاسکتا تھا لیکن اس جسم میں ایک اورغیر مادی چیزذہن بھی پیداہورہا تھا جسے قابو میں کرنے کے لیے کسی اورغیر مادی ہتھیار کی ضرورت تھی، پرانے وقتوں میں تو اس غرض کے لیے حکمران نے مذہبی پروہیت کو ساجھے دار بنایا ، صدیوں تک محل اورمندر، تاج پر ساجھے داری چلتی رہی ، لیکن وہ ہتھیار اتناموثر نہیں رہا تھا کہ لوگوں پر مذہبی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی اس لیے اس ہتھیار کو مزید تیز کرنے کی ضرورت تھی ، حکمرانیہ کو مزید ساجھے داروں اورتابعداروں کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ لارڈ میکالے نے یہ تعلیم اورایجوکشن کانسخہ ایجاد کیا جس کے ذریعے غلاموں کو اپنے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا، غلاموں ہی سے اپنے مددگار پیدا کرناتھے اور پیداکرلیے گئے۔
اس تعلیم کے ذریعے نوکر بنائے جانے لگے ، نوکروں میں درجہ بندی ضروری تھی، کچھ کو افسر بھی بنایا جاتا تھا ، درجے بنائے گئے ،گروپ اور گریڈ بنائے گئے لیکن نوکر تو سب ہوتے تھے اور ہوتے ہیں ، سر کے اوپر سرکاسلسلہ ہے لیکن سب سے اوپر کاسر بھی کسی اورسر کے نیچے ہوتا ہے پابند ہوتا ہے، محدود ہوتا ہے کیوں کہ حکمران نہیں ہوتا ۔وہ تو چلے گئے لیکن تعلیم چھوڑگئے جو صرف نوکری سکھاتی اورجو علم نہیں ایک پیشہ ہے جسے دوسری چیزوں کی طرح جوں کا توں اپنایا گیا ۔
(جاری ہے)