پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے کمسن بچیوں کی شادی پر پابندی کا قانون آخرکار منظور کر لیا۔ اس قانون کے تحت اب 18 سال سے کم عمر لڑکے لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی۔ اس بل کی محرک پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی ہیں۔ اس بل کی اب صدر منظوری دے دیں گے تو پھر یہ قانون دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں نافذ العمل ہوگا۔
صوبہ سندھ میں یہ قانون 2013 میں نافذ ہوگیا تھا مگر پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ایسا قانون نافذ نہیں ہے۔ اس قانون کے تحت نکاح رجسٹرار کم عمر بچوں کی شادی کا اندراج نہ کرنے کے پابند ہوںگے۔ قانون کی ایک اور شق کے تحت نکاح پڑھانے والا شخص نکاح پڑھانے یا رجسٹرڈ کرنے سے قبل دونوں فریقین کے کمپیوٹر پر شناختی کارڈ کی موجودگی کو یقینی بنائے گا۔
بل میں بتایا گیا ہے کہ کمسن لڑکی سے شادی پر کم سے کم 2 سال اور زیادہ سے زیادہ 3 سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔ اس قانون کی ایک اور شق کے تحت کم عمر بچوں کی رضا مندی یا بغیر رضامندی شادی ’’ ریپ‘‘ تصور کیا جائے گا۔ نابالغ دلہن یا دولہا شادی کرنے پر 5 سے 7سال قید 10 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
شرمیلا فاروقی نے اس بل کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ جب 2013 میں سندھ اسمبلی نے یہ قانون منظور کیا تھا تو اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قانون کے خلاف رائے دی تھی۔ اس قانون کو فیڈرل شریعت کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو عدالت نے اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ ریاست عورت اور بچے کے حقوق کے لیے قانون سازی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
وزیر اعظم کے کوآرڈی نیٹر رانا احسان افضل نے اس بل کی منظوری کو خوش آیند قرار دیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی کی کم از کم عمر 18سال کرنا جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی شرط بھی ہے۔ اس لیے وہ تمام صوبوں سے رابطے میں ہیں تاکہ شادی کی عمر پورے ملک میں ایک جیسی ہی مقرر ہو۔
برصغیر ہندوستان میں مردوں اور عورتوں کو پسماندہ رکھنے کے لیے سب سے دقیانوسی کمیٹی رائج رہی ہے۔ ان میں مردوں اور عورتوں کو غلام بنانا، ہندو سماج میں شوہر کے انتقال پر بیوی کو ستی کرنا اور کم سن بچیوں کی شادیاں شامل ہیں۔ جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے اقتدار میں توسیع دی اور کمپنی کی حکومت نے اقتدار کو تحفظ دینے اور ہندوستان کو معاشی طور پر مجبور کرنے کے لیے بہت سی پالیسیاں نافذ کیں مگر جب کمپنی کا اقتدار مضبوط ہوتا گیا تو پھر جدید تعلیمی، عدالتی اور انتظامی اصلاحات کی گئیں۔ جب کمپنی کا اقتدار ہندوستان میں وسیع ہورہا تھا تو اس وقت برطانیہ میں انسانوں کو غلام بنانے پر پابندی لگادی گئی تھی۔
کمپنی کی حکومت نے ہندوستان میں بھی انسانوں کو غلام بنانے کو جرم قرار دیا۔ جن امراء کے پاس غلام موجود تھے انھیں مجبور کیا گیا کہ ان غلاموں کو بلا معاوضہ آزاد کر دیں۔ اسی طرح ستی کی رسم پر پابندی عائد کی گئی۔ ستی کی رسم ایک ظالمانہ رسم تھی مگر ہندو سماج میں شوہر کی چتا کے ساتھ زندہ بیوی کے جلنے کے واقعے کو بہادری اور عزت کے اسٹیٹس کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا، یوں قدامت پرست ہندوؤں نے اس قانون کی مخالفت کی۔ انگریز سرکاری نے کم سن بچوں کی شادی کی پابندی عائد کردی۔ اس قانون کے خلاف ہندو مذہبی پیشواؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے رہنما بھی متحد ہوگئے مگر نوجوان بیرسٹر محمد علی جناح واحد ہندوستانی رہنما تھے جنھوں نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کی بھرپور حمایت کی۔
بیرسٹر محمد علی جناح کی 1929کی ایک یادگاری تقریر تاریخ کا حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کم سن بچوں کی ابتدائی عمر میں شادیوں کے بے پناہ نقصانات ہیں۔ سابق صدر ایوب خان کے دور میں پہلی دفعہ نکاح اور طلاق کو دستاویزی شکل دینے کے لیے عائلی قانون نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت نکاح اور طلاق کا رجسٹر ڈ ہونا لازمی قرار دیا گیا اور لڑکی کی شادی کی عمر طے کی گئی۔ اس قانون میں یہ بھی تحریر کیا گیا کہ اگر شوہر دوسری شادی کرنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے پہلی بیوی سے تحریری رضامندی ضروری ہے اور بیوی کی رضامندی کے بغیر دوسری شادی کو فوجداری جرم قرار دیا گیا۔
فیملی فزیشن اور سماجی امور کے ماہرین نے اپنے اپنے شعبوں میں سماج میں پائے جانے والے مختلف تضادات اور اس کے ملک کی معیشت پر ہونے والے نقصانات کے بارے میں تحقیق کی۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی کے بہت سے نقصانات ہیں۔ ان ماہرین کی تحقیق کے مطابق ہمارے سماج میں مجموعی طور پر عورتوں کو مردوں کے بعد کھانا ملنے کی روایت بہت مستحکم ہے۔ عمومی طور پر لڑکیوں اور عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم کھانا ملتا ہے، یوں لڑکیاں پیدائش کے وقت سے کم غذائیت کی بناء پر مختلف امراض کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یوں عورتوں کو ورثے میں خوراک کی کمی کی بناء پر ملنے والی بیماریوں سے ان کا جسم کمزور ہوجاتا ہے۔ یوں ماں کے ساتھ پیٹ میں پلنے والا بچہ بھی کم غذائیت کا شکار ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں افغانستان کے بعد زچہ و بچہ کے مرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ عالمی ادارئہ صحت کی رپورٹ کے مطابق روزانہ ایک ماہ سے لے کر 27 ماہ کی عمر تک پیدا ہونے والے 675 بچے جاں بحق ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہر سال 9800 عورتیں اور پیدائش کے فورا بعد 246,300 نوزائیدہ بچے زندہ نہیں رہ پاتے۔ پاکستان میں ہر سال 190,000 بچے ماں کے پیٹ میں مرجاتے ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں بچوں اور عورتوں کا مرنا ایک جدید ریاست کے لیے ایک المیہ ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش ، سری لنکا اور ایران وغیرہ میں بھی ایک زمانے میں زچہ و بچہ سے مرنے کی شرح اس سے زیادہ تھی مگر ان ممالک میں حکومتوں نے کم سن بچوں کی شادیوں پر پابندی لگا دی اور صحت کی سہولتوں کو بہتر بنا کر بچوں اور عورتوں کے مرنے کی شرح کو کم کیا۔
ایک اہم مسئلہ ملک میں خواندگی کی شرح صد فی صد کرنے کا ہدف کرنا ہے۔ خواندگی کی شرح صد فی صد حاصل کیے بغیر سطح غربت کے خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد کم نہیں ہوسکتی اور ترقی کا پہیہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پانچویں جماعت تک نہ پہنچنے والے بچوں میں اکثریت لڑکیوں کی ہوتی ہے اور یہ لڑکیاں شادی ہونے کی بناء پر تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہوتی ہیں اور دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی شادی جلد کردی جاتی ہے تو اب لڑکیوں کی پہلی ترجیح تعلیم نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارئہ صحت کے علاوہ بچوں کی بہبود کے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف اور تعلیم کے عالمی ادارے یونیسکو کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 18سال تک بچوں کی شادیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس دفعہ یہ اچھا ہوا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کے علاوہ تحریک انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، نیشنل پارٹی وغیرہ نے بھی اس قانون کی مکمل حمایت کی۔
خیبر پختون خوا میں لڑکیوں کی تعلیم کا سب سے پہلے علم بلند کرنے والے خان عبدالغفار خان عرف باچا خان کے پوتے ایمل ولی خان نے ایک رجعت پسندانہ موقف اختیار کرکے اپنی جماعت کے سیکولر تشخص کو گہنا دیا ہے۔ اب مسلم لیگ ن کی وزیر اعلیٰ مریم نواز کا فرض ہے کہ وہ پنجاب میں یہ قانون نافذ کریں۔ یہی ذمے داری پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کی بھی ہے۔ اس قانون کے نفاذ سے عالمی منظر نامے میں پاکستان کا ایک مثبت لبرل چہرہ ابھرے گا۔