پاکستان جمہوری عمل کے ذریعے وجود میں آیا۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے 1947ء تک جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی۔ انھوں نے 11 اگست 1947کو آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے دن اپنی اساسی تقریر میں ایک جدید جمہوری ریاست کے خدوخال کو واضح کیا، ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے 1948میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی فوری توثیق کی۔
1973 میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے ایک متفقہ آئین منظور کیا۔ اس آئین میں انسانی حقوق کا باب شامل ہوا۔ اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے چارٹر کی دفعہ 20 میں شہریوں کے احتجاج کے حق کو تسلیم کیا ۔ اسی بنیاد پر پاکستان کے آئین کو شق 16میں اجتماع کی آزادی کی حق کی توثیق کی گئی اور اس کی شق 19میں ہر شہری کو آزادئ اظہار کا حق دیا گیا۔ اسی طرح بین الاقوامی کنونشنز اور پاکستان کے آئین میں شہریوں کے احتجاج کے حق کی بھی تسلیم کیا گیا ہے ۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں جدوجہد کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی بنیادی دستاویز میں عوام کے احتجاج کے حق کو یوں بیان کیا ہے۔
“People have a right to protest peacefully, and states have a duty to respect, facilitate and protect this right. This means they shouldn’t interfere with protests, unless there is a legitimate threat to the safety and rights of others.”
مگر قیام پاکستان کے بعد سے برسر اقتدار حکومتوں نے عوام کے اجتماع کرنے اور احتجاج کرنے کے حق کو تسلیم نہیں کیا ۔ صرف فوجی حکومتوں میں ہی نہیں بلکہ منتخب حکومتوں نے بھی عوام کے احتجاج کے حق کو غضب کرنے کی کوشش کی۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ایک وڈیو پیغام میں گزشتہ دنوں اسلام آباد کے ڈی چوک پر تحریک انصاف کے احتجاج کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ پیش کیا، جس میں بتایا گیا کہ اسلام آباد میں 4روز کے احتجاج سے 8لاکھ افراد متاثر ہوئے۔
اسلام آباد میں سرکاری املا ک کی توڑ پھوڑ سے 24کروڑ روپے کا نقصان ہوا،441 سیف کیمرے تباہ ہوگئے، پولیس کی 10گاڑیوں، 31 موٹر سائیکلوں، 51 گیس ماسک کو مظاہرین نے نقصان پہنچایا۔ پولیس نے جو آنسو گیس کے شیل استعمال کیے، ان کی مالیت لاکھوں روپے بتائی جاتی ہے۔
پولیس حکام نے ایک 58 سالہ کانسٹیبل کی موت کی ذمے داری مظاہرین پر عائد کی ہے۔مگر ایک معروف اینکر پرسن نے ایک پروگرام میں فرمایا ہے کہ کانسٹیبل پر دل کا دورہ پڑا تھا۔ بہرحال اسلام آباد کے شہری چار دنوں تک اپنے گھروں میں مقید رہے، انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل رہی، معاملہ صرف اسلام آباد تک محدود نہیں رہا بلکہ لاہور اور دیگر شہروں پر اس کے اثرات پڑے ۔ ڈی چوک کے مظاہرے میں خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا بھی مزاحیہ کردار سامنے آیا۔
موصوف ڈی چوک پہنچنے کے بجائے فرنٹیئر ہاؤس چلے گئے ، پھر 24 گھنٹوں کے لیے لاپتہ ہوئے۔اس سے پہلے سنگجانی ٹاؤن اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاجی جلسے کے بعد بھی وہ مختصر عرصے کے لیے لاپتہ رہے تھے۔ اسلام آباد پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا۔ بہت سے احتجاجیوں پر انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ ایک سینئر صحافی کے مطابق حکومت مجوزہ آئینی ترمیم میں آئین کی شق 8کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 8میں کہا گیا ہے کہ :
“Any laws that go against or violate the rights granted in the chapter are null and void. The chapter also states that all citizens are equal under the law and that discrimination based on sex is prohibited. However, the state can make special provisions to protect children and women.”
اگر اس شق کو ختم کیا گیا تو پھر آئین کھوکھلا ہو جائے گا۔ 80کی دہائی کے وسط میں جنرل ضیاء الحق نے ایک متنازع ریفرنڈم میں خود کو منتخب کرایا، پھر غیر جماعتی انتخابات کرائے، محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزد کیا۔ اگرچہ محمد خان جونیجو ایک آمر کے نامزد کردہ وزیر اعظم تھے مگر انھیں احساس تھا کہ سرد جنگ ختم ہورہی ہے اور اب دنیا میں ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ محمد خان جونیجو نے مارشل لاء کے خاتمے اور 1973کے آئین کی بحالی کا فیصلہ کیا، یوں آئین کی بحالی سے انسانی حقوق کا باب بھی عملی شکل اختیار کرگیا۔ جونیجو حکومت تمام سیاسی جماعتوں کو جلسے جلوس کی آزادی دیدی۔ پریس ایڈوائز کا سلسلہ ختم ہوا، یہ 1986کا سال تھا۔ پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی جلاوطنی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
وہ لندن سے اپنی ٹیم کے ہمراہ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور ایئرپورٹ پر اتریں۔ کہا جاتا ہے کہ لاکھوں افراد نے لاہور ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا اور انھوں نے مینار پاکستان کی گراؤنڈ میںایک عظیم الشان عوامی جلسے سے خطاب کیا۔ پھر بے نظیر بھٹو کا کراچی میں فقید المثال استقبال ہوا۔ بے نظیر بھٹو نے پورے ملک کا دورہ کیا۔ ہر جگہ عوام کے ہجوم نے ان کا خیرمقدم کیا اور کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ تک پیش نہ آیا۔
بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت اور میاں نواز شریف کے دورِ حکومت میں سیاسی جماعتوں، مزدور تنظیموں اور سول سوسائٹی کو جلسے جلوس کی آزادی حاصل رہی، جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ روایت برقرا ر رہی۔ جب وکلاء نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک شروع کی تو جسٹس افتخار چوہدری نے کئی شہروں کا دورہ کیا۔
صرف 12مئی کو کراچی میں خوفناک سانحہ کے علاوہ پورے ملک میں سکون رہا۔ 2014میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے تحریک انصاف اور پروفیسر طاہر القادری کے اسلام آباد دھرنا کے لیے کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی یہ بات درست ہے کہ تحریک انصاف کے اسلام آباد کے دھرنے سے چین کے صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور سی پیک کے معاہدے پر دستخط کا معاملہ التواء کا شکار ہوا۔ ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے قائد اپنی رہائی کے لیے شنگھائی کانفرنس کو حربہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہوں مگر پی ٹی آئی نے احتجاج ملتوی کردیا ہے ۔ بہرحال حکومت کو عوام کے احتجاج کا حق تسلیم کرنا چاہیے ۔ عوام ہی کو فیصلہ کرنے کا موقع دینا چاہیے۔