روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان میں پیدا ہوئے‘ 1949میں سول سروس جوائن کی اورملک کے تمام اہم ترین عہدوں پر تعینات رہے‘ انتہائی پڑھے لکھے‘ زیرک اور خوش شکل تھے‘ 21 اپریل 2024 کو سو سال کی عمر میں فوت ہوئے‘ 1971 میں جب پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو یہ وفاقی سیکریٹری اطلاعات تھے‘ صدر یحییٰ خان اور ان کی وسکی پارٹی سے ان کی روزانہ ملاقات ہوتی تھی‘ مشرقی پاکستان کے سرینڈر کا معاہدہ اور ملک ٹوٹنے کی انوائسمنٹ بھی روئیداد خان نے تیار کی تھی‘ مجھے 2000کے بعد ان سے متعدد مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔
ان کے انتقال سے قبل بھی ان سے ملاقاتیں رہیں‘ وہ آخری سال تک خوب صورت‘ صاف ستھرا سوٹ پہنتے تھے‘ جوتے بھی صاف اور چمک دار ہوتے تھے تاہم انھیں بولنے میں دقت ہوتی تھی‘ لفظ زبان پر اٹک جاتے تھے اور انھیں ادائیگی میں زور لگانا پڑتا تھا لیکن اس کے باوجود ان کی یادداشت بے انتہا اچھی تھی‘ انھیں دوسری جنگ کے واقعات تک یاد تھے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کرپشن کی کہانیاں بھی سناتے تھے اور جنرل مشرف اور عمران خان کی حماقتوں کے قصے بھی‘ آخری دنوں میں عمران خان سے بہت مایوس تھے۔
ان کا کہنا تھا قدرت نے اسے پاکستان کو تبدیل کرنے کا موقع دیا مگر اس نے اسے بری طرح برباد کر دیا‘ یہ پاکستانی تاریخ کا پہلا سیاست دان تھا جسے فوج میں زبردست پذیرائی حاصل تھی‘ یہ اسے استعمال کر کے ملک کی سمت درست کر سکتا تھا مگر اس نے چن چن کر بے وقوف اپنے گرد جمع کر لیے اور ان سب نے مل کر ملک کا بیڑا غرق کر دیا‘ وہ 1971کے سانحے کی خفیہ داستانیں بھی سنایا کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا مشرقی پاکستان نے ہم سے جلد یا بدیر الگ ہونا ہی تھا لیکن یہ اس خوف ناک طریقے سے الگ ہو گا اور جاتے جاتے پاکستان کے گلے میں جنگ کے ہار کا طوق ڈال جائے گا‘یہ کسی نے نہیں سوچا تھا چناں چہ جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی خبر آئی تو ملک میں ایک بھی ایسا شخص نہیں تھا جس کی آنکھوں میں آنسو اور حلق میں بین نہ ہو‘ لوگ گلیوں میں لیٹ لیٹ کر رو رہے تھے‘ وہ صدمہ آج تک ہماری نسل کے سینے کا داغ ہے‘ میں نے ان سے پوچھا ’’سر 1970 میں ملک میں آپ جیسے سیکڑوں سمجھ دار‘ تجربہ کار اور ذہین لوگ تھے‘ فوج میں بھی عقل مند اور بہادر لوگ تھے‘ جنرل یحییٰ خان بھی شراب نوشی اور عیاشی کے باوجود بریلینٹ جرنیل تھے اور ان پر مالی کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا۔
ان کے جونیئر آفیسرز میں بھی پانچ وقت کے نمازی اور شوق شہادت سے لبریز جنرلز موجود تھے مگر اس کے باوجود 1971 کا سانحہ آپ لوگوں کے سامنے وقوع پذیر ہورہا تھا اور آپ لوگ خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے‘ آپ میں سے کسی کو توفیق نہیں ہوئی وہ درمیان میں آئے اور جنرل یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایک میز پر بٹھا دے اور ان تینوں کے درمیان موجود دیواریں گرا دے‘ جنرل یحییٰ خان نے جب مشرقی پاکستان میں آپریشن کا فیصلہ کیا تو کیا فوج میں اس وقت ایک بھی ایسا جنرل موجود نہیں تھا جو آرمی چیف کو اس کے بھیانک نتائج کے بارے میں بتا سکے یا جب ذوالفقار علی بھٹو نے مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر اعلان کیا تھا میرا جو ایم این اے ڈھاکا جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا (اس دور میں قومی اسمبلی ڈھاکا میں ہوتی تھی اور وفاقی حکومت اسلام آباد میں) اور کیا پورے ملک میں کوئی ایک بھی ایسا سمجھ دار سیاست دان‘ بزنس مین اور بیوروکریٹ نہیں تھا جو شیخ مجیب الرحمن کو سمجھا سکتا‘آپ لوگ اگر اس وقت ایکٹو ہوتے تو شاید پاکستان ٹوٹنے سے بچ جاتا‘ آپ لوگوں کی معمولی سی کوشش سے ہمارے 92 ہزار فوجی اور سویلین بھارتی جیلوں سے بچ سکتے تھے‘ ہماری فوج پلٹن میدان میں ہتھیار پھینکنے کی بے عزتی سے بھی محفوظ رہ سکتی تھی اور بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان نفرت کی دیوار بھی کھڑی نہ ہوتی‘ ہم الگ الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے بھائی بھائی رہتے‘‘۔
میرا لمبا سوال سن کر روئیداد خان نے لمبی سی آہ بھری اور فرمایا ’’ہم ریٹائرڈ لوگ پچاس سال سے ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ رہے ہیں‘ میں آج صبح بھی اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا روئیداد تمہارے سامنے ملک ٹوٹ رہا تھا اور تم اپنی نوکری بچا رہے تھے‘ مشرقی پاکستان میں لوگ مر رہے تھے اور تم ریڈیو پاکستان‘ پاکستان ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے جھوٹی خبریں پھیلا رہے تھے‘ تم اپنے عوام اور خود کو دھوکا دے رہے تھے‘ تم خدا کو کیا منہ دکھاؤ گئے‘ میں روز اپنے ضمیر کی عدالت میں پیش ہوتا ہوں اور میرے اندر سے میرے حق میں کوئی دلیل نہیں نکلتی‘ ہاں البتہ مجھے کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے قدرت نے شاید اس وقت ہماری عقل پر تالے ڈال دیے تھے۔
اس نے ہماری سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت سلب کر دی تھی‘ ہمیں نظر آ رہا تھا لیکن دکھائی نہیں دے رہا تھا‘ ہمیں آوازیں آ رہی تھیں لیکن سنائی نہیں دے رہا تھا چناں چہ اصل پاکستان ہم سے الگ ہو گیا‘‘ وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ’’پاکستان ہم مغربی پاکستانیوں نے نہیں بنایا تھا‘ پنجاب‘ فرنٹیئر‘ سندھ اور بلوچستان کا تشکیل پاکستان میں کوئی اہم کردار نہیں تھا‘ لاہور کا صرف اتنا کنٹری بیوشن تھا قرارداد پاکستان منٹو پارک میں پاس ہوئی تھی اور بس‘ ہم سب پاکستان کے بینی فشری ہیں‘ اصل کمال بنگالیوں کا تھا۔
انھوں نے مسلم لیگ بھی بنائی تھی اور ملک کے لیے مالی‘ سماجی اور جانی قربانی بھی دی تھی‘ وہ لوگ اخلاقی‘ سماجی اور علمی لحاظ سے بھی ہم سے بہتر تھے اور آبادی میں بھی ہم سے زیادہ تھے‘ تاریخ میں پہلی مرتبہ اکثریت نے اقلیت سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا‘ اکثریت نے اقلیت کے خلاف موومنٹ چلائی اور اقلیت نے اکثریت کے خلاف ملٹری آپریشن کیا‘ مجھے آج محسوس ہوتا ہے بنگالیوں نے ہم سے الگ ہو کر ٹھیک ہی کیا تھا ورنہ آج تک وہاں دھرنے چل رہے ہوتے یا پھر مارشل لاء ہوتا‘‘۔
مجھے روئیداد خان کے الفاظ نے ہلا کر رکھ دیا‘ یہ ایک ایسے سو سالہ بزرگ کے الفاظ تھے جس نے بڑی شان دار زندگی گزاری تھی‘ جو ملک کے اہم ترین واقعات کا عینی شاہد بھی تھا‘ وہ اس وقت زندگی کی ہوس سے آزاد ہو چکے تھے‘ وہ جانتے تھے آج یا کل زندگی کی ڈور ان کے ہاتھ سے پھسل جائے گی لہٰذا ماضی کے بارے میں ان کا تجزیہ بے لاگ اور قیمتی تھا‘ ان کا کہنا تھا قدرت جب کسی قوم کو برباد کرنا چاہتی ہے تو یہ ان کے صاحبان اقتدار کی عقل ماؤف کر دیتی ہے‘ یہ ان کے سمجھنے بوجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے‘ 1971میں بھی یہی ہوا اور اب 2024میں بھی وہی ہو رہا ہے‘ ملک میں اس وقت بھی ایک الجھا ہوا ٹرائیکا ہے‘ عمران خان جیل میں بیٹھ کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں اقتدار بھی دیا تھا اور فوج کا غیر مشروط ساتھ بھی لیکن یہ اقتدار سنبھال سکا اور نہ ساتھ برقرار رکھ سکا‘ عوام اس کی تمام تر حماقتوں کے باوجود آج بھی اس کے ساتھ کھڑے ہیں‘ 8 فروری کے الیکشن میں عمران خان کو اندھی عوامی حمایت ملی لیکن اس نے اپنی سخت گیر طبیعت اور بے لچک رویے کی وجہ سے اسے مٹی میں ملا دیا چناں چہ یہ 2024 کا شیخ مجیب الرحمن بن چکا ہے جب کہ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی 1971 کی ذوالفقار علی بھٹو ہیں‘ یہ جانتے ہیں عوام نے انھیں الیکشن میں مسترد کر دیا ہے اور اقتدار ان کا حق نہیں لیکن یہ اس کے باوجود کرسی کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور یہ اس ’’چپکاؤ‘‘ کی ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ اخلاقی میدان بہت پہلے کھو چکے ہیں‘ یہ اب سچ دیکھنے اور محسوس کرنے کی نعمت سے بھی فارغ ہو رہے ہیں‘ یہ جانتے ہیں یہ شریف فیملی کی آخری ٹرم ہے‘ اس کے بعد یہ کہاں ہوں گے اور کیسے ہوں گے کوئی نہیں جانتا‘ اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو ہو گا‘ کیوں؟ کیوں کہ پاکستان کو اب ایک ایسا سندھی وزیراعظم چاہیے جسے ایران بھی پسند کرتا ہو اور بلاول بھٹو اس کے لیے انتہائی سوٹ ایبل امیدوار ہیں اور یہ اس کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں اور تیسری طرف ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ ہے جس نے فیصلہ کر لیا ہے کچھ بھی ہو جائے عمران خان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے۔
یہ جو کرنا چاہتا ہے کر لے لیکن اس کے لیے دروازے نہیں کھلیں گے‘ یہ بھی اس فیصلے کی ہر قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں لہٰذا ملک 50سال بعد ایک بار پھر اس موڑ پر کھڑا ہے جہاں آگے جانے کا راستہ ہے اور نہ پیچھے ہٹنے کا جب کہ ہمارے سارے مسئلے صرف تھوڑی سی لچک سے حل ہو سکتے ہیں‘ ہم سب نے ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہے اور سانس آنا شروع ہو جائے گی‘ عمران خان بلاوجہ احتجاج کی کالز دینا بند کر دیں‘ یہ پارٹی کی سیاسی کمیٹی کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کی اجازت دے دیں یا پھر مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کو مذاکرات کا مینڈیٹ دے دیں‘ نواز شریف اور آصف علی زرداری بھی تھوڑی سی قربانی دے دیں‘ یہ پانچ سال کے بجائے اڑھائی سال پر اتفاق کر لیں‘ گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ کریں۔
آئین میں جو ترامیم کرنی ہیں ایک ہی بار کر دیں اس کے بعد آئین کو لاک کر دیا جائے اور دو سال بعد الیکشن ہو جائیں اور جو جیتے اسے اقتدار دے دیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی سیاسی سپیس کی گنجائش پیدا کر دے اور عدلیہ بھی خود کو ذرا سا سائیڈ پر کر لے‘ یہ سارا بحران ایک ہفتے میں ختم ہو جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ فساد بے شمار لوگوں کے سر اور ملک کا رہا سہا بھرم بھی کھا جائے گا اور دس پندرہ برس بعد آج کے روئیداد خان بھی سر پکڑ کر کہہ رہے ہوں گے اللہ تعالیٰ نے ہم سے بھی سمجھ بوجھ کی صلاحیت چھین لی تھی‘ ہمارے سامنے ملک ٹوٹ رہا تھا اور ہم دیکھتے رہ گئے‘ ہماری بھی مت ماری گئی تھی۔