گزشتہ دنوں اہم واقعات منظرعام پر آئے، 31جولائی 2024ء کو حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے قتل کروا دیا، وہ ایران کے نو منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے خصوصی دعوت پر بطور مہمان تشریف لائے تھے اور تہران کے ایک محفوظ مہمان خانے میں مقیم تھے، اس ہی مقام پر انہیں نشانہ بنایا گیا اور وہ شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے ،اسرائیل کی شر انگیزیوں میں مسلسل اضافہ ہور ہا ہے ، اب تک وہ گزرے برس، سات اکتوبر سے جاری غزہ میں مسلسل بمباری و فائرنگ سے 40 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کرچکا ہے۔
یوں لگتا ہے وہ اپنے اوپر ماضی میں لگے زخم کو دھونا اور بدلہ لینا چاہتا ہے ، وہ سفاکی اور بے رحمی کی حدود کو وہ پار کرچکا ہے ، اس کے چہرے پر ان دنوں شیطانی مسکراہٹ قائم رہتی ہے ، اس کے دوست اس کی دیدہ دلیری اور بے غیرتی سے محظوظ ہوتے ہیں ، اسے شرم نہیں آتی کہ وہ معصوم بچوں پر بھی تشدد اور اغوا کرنے سے باز نہیں آتا ہے ، ایک وقت وہ بھی آنے والا ہے جب اسے چھپنے کے لیے ٹھکانہ نصیب نہیں ہوگا، پتھر اور درخت خود نشاندہی کریں گے کہ ہمارے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے۔
ایک طرف فلسطین میں روز شہادتیں ہورہی ہیں تو دوسری طرف بنگلہ دیش کے حالات اچانک بدلے ہیں۔ بنگلہ دیش میں انتشار اور طلبہ کی شہادت کے بعد طویل مظالم کا دور ختم ہوا اور بنگلہ دیش کی سابقہ وزیر اعظم حسینہ واجد اپنے انجام کو پہنچیں ، حسینہ واجد کا اقتدار 16سال کے عرصے پر محیط تھا ، وہ 2009ء سے حکومت میں تھیں، چوتھی بار وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔
لیکن طلبہ کی طرف سے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہروں نے اس قدر زور پکڑا کہ انہیں فرار ہونا پڑا، اور ان کے دوست ملک بھارت نے انہیں پناہ دی، جبکہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کو ایک طویل عرصہ قید کے بعد رہا کردیا گیا ، اس کے ساتھ ساتھ 500 قیدیوں کو بھی رہائی نصیب ہوئی ، پر تشدد مظاہروں کے بعد بنگلہ دیشی فوج نے صرف 45منٹ کا وقت دیا تھا کہ وہ اپنا استعفیٰ پیش کریں ، حسینہ واجد نے اپنی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لیے وزیراعظم ہاؤس ، شاہی محل اور جائیداد کو چھوڑ دیا، ان کے صاحبزادے سجیب واجد نے اپنی والدہ کی سیاسی زندگی کے بارے میں کہا کہ’’ وہ بہت مایوس ہیں اب وہ دوبارہ سیاست میں قدم نہیں رکھیں گی ‘‘ ایسے مفاد پرست لوگوں کو سیاست اور سماجی فلاحی کاموں سے دور ہی رہنا چاہیے اس لیے کہ انہیں نہ عوام سے محبت ہوتی ہے اور نہ ملک سے اپنی ذات اپنے خاندان کو اور اپنے احباب کو فائدہ پہنچانے میں پیش پیش رہتے ہیں۔
ہمارے ملک میں تو ایسے ہی حالات ہیں جبکہ بنگلہ دیش شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں ترقی کی راہ پر گامزن تھا ، لیکن حسینہ واجد کا عوام کے ساتھ ظالمانہ اور غیر منصفانہ سلوک ان کی حکومت کو لے ڈوبا، آفریں ہے بنگلہ دیش کے آرمی چیف کو کہ انہوں نے نہتے عوام کا ساتھ دیا، طلبہ کی امنگوں اور رعایا کے سکون کا خیال رکھا اور انہیں ان کی خوشی اور خواہش کے مطابق سڑکوں پر آزادانہ خوشیاں منانے کی اجازت دی، خوب جشن منایا گیا اور حسینہ واجد کے گھر اور وزیر اعظم ہاؤس سے استعمال کی چیزوں پر مظاہرین نے اپنا حق جتایا ہے، وہ گھر کے سازوسامان کے علاوہ سابق وزیر اعظم کی ساڑھیاں بھی ساتھ لے گئے ۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن عوام کو مشکلات سے بچانے کے لیے میدان عمل میں آئے اور جو کہا تھا وہ کر دکھایا،کمال بات یہ ہے کہ بجلی کے بلوں میں مختلف ٹیکسوں کی بھرمار ہے ، ان ٹیکسوں کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ حکومت اپنے صارفین کو سہولیات دینے کی بجائے ان سے وہ بل بھی وصول کرنا چاہتی ہے جس سے ان کا دور دور سے بھی واسطہ نہیں ہے اور اس ہی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں کے بلوں نے لوگوں کی جان لے لی ہے۔ شہناز نامی ایک غریب خاتون کو ڈیڑھ لاکھ کا بل بھیج دیا اس ہی طرح ان لوگوں کو بھی ایک بھاری رقم کے بل بھیجے گئے ہیں جو ریڑھی لگاتے اور معمولی کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس گھرکا کرایہ دینے کی بھی رقم نہیں ہوتی ہے مالک مکان بھی اس کے حالات کو دیکھتے ہوئے رحم کھانے کے قابل نہیں ہوتا کہ وہ خود بھی ایسے ہی معاشی حالات کا شکار ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے دھرنوں کے حوالے سے کہا کہ وہ اپنا حق لے کر رہیں گے، ان کے دھرنے کا مقصد عوام کو مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے جان چھڑانا ہے،کیونکہ کئی مہینوں سے بجلی کے بل ٹیکسز کی بھرمار کے ساتھ زیادہ بھیج رہے ہیں، اور ان میں ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافہ کیا جا رہا ہے، دھرنے میں ہزاروں لوگ شامل تھے، یہ خبر خوش آیند ہے کہ جماعت اسلامی اور حکومت کے درمیان ایک معاہدے طے پا جانے کے بعد دھرنے کا اختتام ہوگیا ہے اور جماعتِ اسلامی کے دھرنے کے شرکاء کی بڑی تعداد گھروں کو روانہ ہوگئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنے بیان میں کہا کہ جماعتِ اسلامی کے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے معاہدہ طے پا گیا ہے، دھرنا صرف مؤخرکیا ہے، معاہدے پر پہرہ دیں گے۔
اسی طرح پی ٹی آئی صوابی کے جلسے میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور 8فروری کی کامیابی کو دیکھ کر بھی حکمرانوں نے دانشمندی کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی شاہی خرچے ختم کیے، عوام کے ٹیکسوں پر حج و عمرہ اور سیر سپاٹے خود تو کرتے ہیں ساتھ میں اپنے ساتھیوں کو بھی جنت نظیر ملکوں اور شہروں میں لے جاتے ہیں۔ دوسرے سابقہ حکمرانوں کو دیکھ کر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے۔
یہاں کے لوگ بھی اپنے حقوق کی طلب کے لیے سڑکوں پر آسکتے ہیں، پھر بھاگنے کا راستہ بھی تنگ ہوجائے گا، اس لیے ماضی وحال کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی ساکھ کی حفاظت کریں اور پاکستانیوں کی بہتری کے لیے کام ،کام اور صرف کام پر یقین رکھیں، اپنی جائیداد سے جو عوام کے ٹیکسوں سے بنائی ہے اسے فروخت کرکے ملک کا قرضہ ادا کرنے میں اہم کردار ادا کریں، ملک کی سالمیت کے لیے یہ ناگزیر ہے ۔